محمد علی درانی کا مشن

811

ملک میں احتجاج کی آگ بجھ چکی ہے اور اب فقط راکھ کے اندر چنگاری باقی ہے۔ راکھ میں دبی ہوئی چنگاری کے ایک بار پھر شعلہ بننے کے امکان کو کبھی رد نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے راکھ میں پڑے پڑے از خود راکھ بن جانے کا امکان بھی موجود ہوتا ہے۔ فنکشنل مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل محمد علی درانی اس چنگاری کو بھی بجھانے کے مشن پر چل نکلے ہیں۔ محمد علی درانی سیاست کی پرپیچ راہوں کے مستقل راہی ہیں اور کئی مدارج اور منازل کے بعد اب وہ پیر پگاڑہ کی فنکشنل مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ جنرل مشرف کے اقتدار میں محمد علی درانی وزیر اطلاعات کی حیثیت سے بہت مشہور ہوئے۔ وکلا تحریک میں مشرف حکومت کے استخوان کمزور ہوتے گئے اور یوں محمد علی درانی بھی سیاست کے منظر سے غائب ہوتے چلے گئے۔ کچھ عرصہ قبل وہ بہاولپور صوبہ تحریک کے سرگرم حامی بن کر سامنے آئے اور پھر وہیں سے فنکشنل مسلم لیگ کو سدھار گئے اور اب وہ سیاسی کشمکش کے ایک اہم موڑ پر ایک نئے کردار کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ محمد علی درانی نے پیر پگاڑہ کا خصوصی پیغام لے کر کوٹ لکھپت جیل میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف سے اہم ملاقات کی اور انہوں نے اس ملاقات کو حوصلہ افزا قرار دیا۔ محمد علی درانی نے اس ملاقات کے بعد بہت معنی خیز اور وزن دار باتیں کیں۔ جن سے پہلا تاثر تو یہی ہے کہ انہیں پیر پگاڑہ نے مفاہمتی مشن پر مامور کیا ہے۔ ملک میں اگر پارلیمانی نظام کو چلنا ہے تو پھر محمد علی درانی کے خیالات اور مشن کی اپنی ایک اہمیت ہے ہاں اگر سسٹم کو لپیٹ دینے پر سب کے درمیان ایک خاموش مفاہمت ہوچکی ہے تو پھر ان باتوں کو صدا بصحرا ہوجانا چاہیے۔ محمد علی درانی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت میں سوچنے سمجھنے والی سب قوتیں ڈائیلاگ چاہتی ہیں۔ ہر سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص چاہتا ہے کہ ٹکرائو نہ ہو یہ پاکستان کے حق میں نہیں۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں واپس پارلیمنٹ میں جائیں اور گفتگو کا آغاز کریں اس ٹکرائو میں ہارنے والا ہی نہیں جیتنے والا بھی ہارے گا۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے حوالے سے ہماری تیاری ہے ہمیں بیک ٹو پارلیمنٹ جانا چاہیے۔ مسلم لیگی سوچ کو اکٹھا ہو کر پاکستان کے لیے کام کرنا چاہیے۔ میثاق برداشت ہونا چاہیے اور معاملات آئین کے مطابق چلنے چاہیں۔
محمد علی درانی کے ان خیالات سے حالات کی ایک تصویر بن رہی ہے۔ احتجاج اور جلسے جلوس سے آر پار اور انقلاب برپا کرنے کوششوں کا اسقاط ہوچکا ہے۔ یہ حقیقت اب عیاں ہو چکی ہے کہ پی ڈی ایم دبائو بڑھا کر اعصاب کی جنگ جیتنا چاہتا تھا مگر عمران خان کے اعصاب چٹخنے نہیں پائے۔ پی ڈی ایم کی اکثر جماعتیں اسی کی دہائی میں شروع ہونے والے پارلیمانی نظام کا کسی نہ کسی انداز میں حصہ رہی ہیں اور ان کا ماضی کوئی آئیڈیل اور شاندار نہیں اور ماضی کا یہ بوجھ ان جماعتوں کو ٹوٹ کر چاہے جانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اول تو پاکستان میں موجودہ سسٹم کے اندر رہ کر انقلاب لانا ممکن نہیں اور مسلسل اقتدار میں رہنے کی وجہ سے بڑی جماعتیں انقلاب کے طور طریقے بھول چکی ہیں۔ ان کے کارکن دنیا داری میں اس قدر مگن ہو چکے ہیں کہ لاٹھیاں کھانا اور جیلیں کاٹنا ان کے بس میں نہیں رہا۔ ان سب زمینی حقائق کی بنا پر میاں نوازشریف کے جی ٹی روڈ کے سفر کے وقت ہی کسی انقلاب کی توقع نہیں تھی۔ وہ کسی موہوم امید پر انقلاب کی راہوں پر آگے بڑھتے رہے۔ جی ٹی روڈ کے بعد مولانا کے آزادی مارچ سے انقلاب کی امید وابستہ ہوئی مگر مولانا آئے بھی چلے بھی گئے۔ انقلاب ایک سراب ہی رہا۔ نوازشریف کی وطن واپسی پر ایک بار پھر انقلاب برپا کرنے کی ذمے داری شہباز شریف پر عائد ہوئی مگر وہ بھی یہ کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ آخری چارہ کار کے طور پر مریم نوازشریف خود میدان میں اُتریں اوران کے دائیں بائیں بلاول زرداری اور مولانا فضل الرحمن تھے مگر یہ انقلاب مینار پاکستان میں جاکر اپنی تگ وتاز کھو بیٹھا۔ اب انقلاب اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں کے اندر برپا ہونے کو مچل رہا ہے۔
لاہور جلسے میں شہباز شریف کی پراسرار خاموشی، آصفہ زرداری کا ملتان جلسے میں اپنی صلاحیتوں کی ایک جھلک دکھا کر گم ہوجانا اور مولانا محمد خان شیرانی اور ان کے ہم خیالوں کے معنی خیز اور تیکھے جملے انقلاب کی خواہش کے اندر سے انقلاب اُبھرنے کے اشارے ہیں۔ بلاول زرداری نے گلگت بلتستان اور مریم نواز شریف نے لاہور جلسے کو اپنے سیاسی ٹیک آف کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی مگر یہ دونوں معرکے جیتے نہ جا سکے۔ میاں نواز شریف نے اپنے اور اپنے خاندان کے دس سال کے لیے اقتدار سے الگ رہنے کی بات کر کے حقیقت میں بند گلی میں پھنسے معاملات کو ایک راہ دینے کا آغاز کیا تھا۔ بلاول نے کراچی جلسے میں میاں نوازشریف کے آن لائن خطاب کو روک کر ایک شاخ زیتون ہوا میں اُچھالی تھی۔ ان حالات میں محمد علی درانی پارلیمانی سسٹم کی جلسہ گاہوں میں دوڑتی، ہچکولے کھاتی ہوئی گاڑی کو دوبارہ پارلیمنٹ میں لانے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک طرح سے اپوزیشن کے لیے فیس سیونگ بھی ہے اور اسے دوبارہ پارلیمنٹ کا راستہ دکھانے کی کوشش ہے۔ اس ملاقات کا تعلق مسلم لیگی سیاست سے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے متبادل کے طور پر ایک منظم، متحد اور شخصی لاحقے سے آزاد مسلم لیگ جب تک سامنے نہیں آتی موجودہ حکومت کوکوئی خطرہ نہیں۔