سینیٹ انتخابات کا موسمِ خزاں

464

 

وہ دن گئے کہ جب خلیل خان فاختہ اُڑایا کرتا تھا کے مصداق وہ دن لد گئے جب سینیٹ کے انتخابات ووٹروں اور امیدواروں کے لیے موسم ِ بہار ہوا کرتے تھے۔ انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی ووٹر ارکان کی عزت اور قدر ومنزلت میں اچانک حیرت انگیز اضافہ ہوجاتا تھا۔ تحفے تحائف، لنچ اور ڈنر کا سلسلہ جوبن پر آتا تھا۔ قیمتیں لگنا شروع ہوتی تھیں۔ یہ قیمتیں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جاتی تھیں یہاں تک بات کروڑوں سے بھی اوپر چلی جاتی تھی۔ روپے پیسے کا بے دریغ استعمال ارکان کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ یوں سینیٹ کا انتخاب اتوار باز ار کا سماں پیدا کرتا تھا۔ خفیہ رائے دہی کے عمل میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کون بکا اور کون کتنے میں بکا۔ بکنے والا اس مشکوک فضاء اور ماحول کا فائدہ اُٹھا کر دوبارہ پاک پوتر بن کر محفل میں واپس آکر براجمان ہوتا تھا۔ ایسے میں حکومت کی طرف سے سینیٹ کے انتخابات نہ صرف قبل از وقت بلکہ شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قبل ازوقت انتخاب کا تعلق تو پی ڈی ایم کی تحریک سے ہے کیونکہ عمومی تاثر یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی ہنڈیا میں سارا اُبال سینیٹ انتخابات کی وجہ سے آیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ سینیٹ انتخاب سے پہلے ہی کسی سیاسی حادثے کے نتیجے میں حکومت کو رخصت کردیا جائے کیونکہ موجودہ حالات میں حکمران جماعت ان انتخابات سے فائدہ اُٹھانے کی پوزیشن میں ہوگی اور یوں قانون سازی کے لیے اپوزیشن پر انحصار مزید کم ہو جائے گا۔ خود اپوزیشن کی سودے بازی کی صلاحیت بھی کمزور ہوجائے گی۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتیں حکومت کو اس منزل سے دور رکھنے کے لیے تہیۂ طوفاں کیے بیٹھی ہیں۔
حکومت نے اپوزیشن کے ہاتھ سے سینیٹ کارڈ چھیننے کے لیے الیکشن وقت سے پہلے کرانے کا راستہ منتخب کیا ہے۔ شو آف ہینڈ کی بات قطعی مختلف ہے۔ اس سے سینیٹ انتخابات کا موسم بہار اب قطعی اور کلی موسم ِ خزاں ہو کر رہ جائے گا۔ خرید وفروخت کا خفیہ کاروبار اب اس انداز سے جاری نہیں رہ سکے گا جس طرح یہ ماضی میں چلتا رہتا تھا۔ اب ارکان اسمبلی کے لیے ہاتھ کی صفائی اور کمالات دکھانے کے مواقع بھی کم ہوتے چلے جائیں گے۔ جس رکن نے وفاداری تبدیلی کرنا ہوگی وہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرکے سرعام ووٹ ڈالنے کا پابند ہوگا۔ اس عمل میں پیسے کی گنگا جمنا میں غوطہ زن ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ انتخابات کے نام پر ضمیروں کی منڈی اور وسائل کا اتوار بازار سجائے جانے کا جو سلسلہ مدتوں سے جاری تھا اس عمل کے نتیجے میں رکاوٹ کی زد میں آئے گا۔ اپوزیشن کے ہاتھ سے سینیٹ کارڈ بھی نکل گیا تو پھر کیا ہوگا؟ اس کا خود انہیں بھی اندازہ نہیں۔ اپوزیشن اب تک احتجاج کے نام پر اعصاب کا کھیل کھیلتی رہی۔ حکمران کس قدر کمزور اعصاب کا کیوں نہ ہو اور حکومت کتنی بھی پنڈولم کی طرح ڈولتی کیوں نہ ہو اعصاب کی جنگ میں آسانی سے شکست نہیں کھاتی ہے اور یہ حکومت ’’ایک صفحے‘‘ کی اضافی صلاحیت کی حامل ہے۔ ماضی میں دو صفحوں والی حکومتوں کو بھی دھرنوں اور احتجاج سے گرایا نہ جا سکا تو یہ حکومت آسانی سے گھر کی راہ لے گی یہ محض ایک تصوراتی بات ہے۔
اپوزیشن نے روز اول سے سخت پوزیشن لے کر خود کو قدم بہ قدم بند گلی میں پہنچایا۔ لاہور جلسے کو آر یا پار قرار دینا قطعی ناتجربہ کاری اور سطحی لائن تھی۔ ایک جلسے سے آر یا پار کیسے ہونا تھا؟ جب آپ قانون کو ہاتھ میں بھی نہیں لیتے، جب آپ کو ریاست کا نظام مفلوج بھی نہیں کرنا سڑکوں اور شاہراہوں کو کھلا بھی رکھنا ہے۔ انقلابی راہوں کی طرف گامزن ہونے سے گریز بھی کرنا ہے تو پھر آر یا پار کی بات کیا معنی رکھتی ہے؟ پرامن اور جمہوری اور پرامن انداز سے حکومت کی تبدیلی کا واحد راستہ پارلیمنٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس کے سوا کسی بھی راہ کو کوئی بھی نام دیا جائے کم از کم ’’شاہراہ دستور‘‘ نہیں کہلا سکتی۔
لاہور جلسے میں کوئی انقلاب برپا ہونا تھا نہ ہوا بلکہ یہ پہلے سے جاری جلسوں اور پرانی تقریروں اور سوشل میڈیا پوسٹوں کا تسلسل ہی ثابت ہوا۔ یہ جلسے اور تقریریں اب عام آدمی کے لیے رہی سہی کسر کھورہی ہیں۔ اس جلسے نے جیل میں پڑے اور غیر متعلق ہوتے ہوئے شہباز شریف کے لیے اظہار ِ ذات کا ایک موقع فراہم کیا۔ شہباز شریف کو میاں نواز شریف کی پرچھائی اور پراکسی سمجھنے کے مائنڈ سیٹ کو یہ پیغام ملا کہ شہباز شریف اور ان کی سیاست ن لیگ میں غیر متعلق نہیں ہوئی۔ ان کی ذات اپنا ایک وجود اور طاقت بنا چکی ہے۔ ’’حمزہ حمزہ‘‘ کی مالا جپنے والے کارکن بروئے کار آکر شاید کوئی کمال تو نہ دکھا سکیں مگر روٹھ جائیں تو کسی انقلاب کا اسقاط کر سکتے ہیں۔ مریم نواز نے شہباز شریف پر ڈلیور نہ کرنے کا الزام عائد کرکے اتحادی اور جماعتی سیاست کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی تو شاید انہیں حلقہ ارادت اور مفت مشورے دینے والے صحافتی انکلوں اور لفظوں اور ڈائیلاگز کے موتی پرونے والے اسکرپٹ رائٹرز نے یہ باور کرایا تھا کہ نوازشریف کی مقبولیت اور مریم نواز کی متحرک شخصیت مل کر وہ انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوں گے جو شہباز شریف برپا نہ کرسکے۔
بے نظیر بھٹو جب ضیاء الحق کے زمانے میں وطن واپس آئیں تو لاہور کی سڑکوں پر ایک طوفانی جلوس کی قیادت کرنے کے بعد انہوںنے پارٹی کے ان انقلاب پرست انکلوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا شروع کیا جن کا انقلاب پاک ٹی ہائوس کی محفلوں اور سیاسی بیٹھکوں میں شروع ہو کر وہیں ختم ہوتا تھا۔ ایک تو یہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی ہونے کے ناتے انکل کی حیثیت سے بے نظیر بھٹو کی پالیسیوں کی تراش خراش اپنا حق سمجھتے تھے دوسرے یہ کہ وہ اس زعم کا شکار تھے کہ تاریخ کا سار فہم اور شعور انہی کی جیب میں ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاست کا باقاعدہ آغاز ان انکلوں کو دفتروں میں بٹھا کر کیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے انقلاب فرانس، میگنا کارٹا، لاطینی امریکا اور انقلاب روس جیسے افسانوں اور خوابوں میں گم رہنے کے بجائے اپنی سیاست کو جرنیلوں، ججوں اور جاگیرداروں کی مثلث کے حامل زمینی حالات اور حقائق کی پٹڑی پر استوار کیا۔ وقت نے اس عملیت پسندی ہی کو کامیاب قرار دیا۔ مریم نوازشریف بے نظیر بھٹو کی پارٹی کے قریب تو ہیں مگر بے نظیر بھٹو کی اس عملیت پسندی سے کوسوں دور ہیں۔