کسان تحریک یا خالصتان تحریک؟

619

بھارت میں متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج دوسرا ہفتہ مکمل کر رہا ہے۔ کروڑوں کسان پارلیمنٹ کے مون سون سیشن میں منظور کیے گئے متنازع زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور ان قوانین کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس قانون کی زد یوں تو ملک بھر کے زرعی شعبے پر پڑی ہے مگر شمالی بھارت اور پنجاب چونکہ زرعی طور پر زرخیز علاقہ ہے اس لیے ان قوانین کا اہم نشانہ بھی پنجاب، ہریانہ اور چندی گڑھ بنے ہیں۔ اسی لیے ان قوانین کے خلاف اصل اُبال انہی علاقوں اور رہائشیوں کے جذبات میں آیا ہے۔ ان علاقوں کی سکھ آبادی اسے اپنے مستقبل اور روزگار پر مودی حکومت کا وار جان کر مردانہ وار میدان میں نکل آئی ہے۔ نریندر مودی ان قوانین کی واپسی کو ناقابل عمل قرار دینے کے باجود کسانوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، مذاکرات کے پانچ ادوار مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔ ہریانہ اور چندی گڑھ کے علاقوں سے سکھ کسانوں کی ایک بڑی تعداد نے دہلی کی طرف مارچ شروع کر رکھا ہے اور دہلی اور چندی گڑھ شاہراہ کو بلاک کر رکھا ہے۔ یہ مظاہرین رفتہ رفتہ دہلی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سراپا احتجاج اور مغضوب الغضب سکھ لیڈر مودی حکومت کو ایک جملے میں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ پنجاب کو کشمیر سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔
کسانوں کا یہ احتجاج بھارت کی بارہ ریاستوں سے حمایت حاصل کر چکا ہے جن میں چندی گڑھ، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، راجستھان، اڑیسہ، تامل ناڈو، دہلی، پنجاب، اتر پردیش، اتارکھنڈ شامل ہیں۔ کسانوں کا یہ احتجاج جہاں ایک طرف مقامی آبادیوں کو متاثر کر رہا ہے وہیں یہ سیاسی رنگ بھی اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بات یہیں رکی نہیں بلکہ اس احتجاج کی گونج عالمی سطح پر بھی سنائی دینے لگی ہے۔ سکھوں کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد اس احتجاج کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور وہ بھارت کے سرکاری ایوارڈ احتجاجاً واپس کرنے لگے ہیں۔ انہی میں ایک آواز نوجوان باکسر وجندر سنگھ کی ہے جس نے کہا کہ بھارت نے کسانوں کے مطالبات منظور نہ کیے تو وہ راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ واپس کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس تحریک کو مختلف ٹریڈ یونینوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ یوں کسان تحریک سکھ کمیونٹی کی حد تک ایک عوامی تحریک بن رہی ہے۔ اس تحریک پر سیاسی رنگ یوں غالب آنے لگا ہے کہ مودی کی مخالف جماعتیں بالخصوص کانگریس اس کی ہمنوا بن گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جا چکا ہے کہ اپوزیشن اس احتجاج کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ مودی کے ہاتھوں زخم خوردہ کانگریس اس موقع کو غنیمت جان کر مودی سے حساب برابر کرنا چاہتی ہے۔
اس تحریک کی عالمی شبیہ یوں اُبھر رہی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سکھ اپنے اپنے ملکوں میں اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں اور موثر اور منظم سکھ آبادی کے اضطراب کے باعث مغربی ملکوں کی حکومتیں اور قانون ساز اداروں کے ارکان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جس کی واضح مثال کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی طرف سے دو مرتبہ کسانوں کے مطالبات کی حمایت ہے۔ جس پر بھارت نے احتجاج کرتے ہوئے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ بھارتی حلقوں نے جسٹن ٹروڈو کے بیانات کو کینیڈا کی سکھ آبادی کو خوش کرنے کی کوشش بھی قرار دیا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے چھتیس ارکان نے بھی ایک خط کے ذریعے سراپا احتجاج کسانوں کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ کینیڈا میں مقیم وائس آف فریڈم نامی تنظیم کے سربراہ امرجیت سنگھ نے کینیڈین صدر اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ کی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک وڈیو پیغام میں کہا کہ پاکستان میں ہمارے مقدس مقامات ہیں اس لیے پاکستان کی حکومت اور میڈیا کو بھی کسان تحریک کی حمایت کرنی چاہیے۔ اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں بھی انہوں نے کہا ہے کہ سکھ قوم ہندوتوا آئیڈیولوجی کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ برطانیہ میں دس ہزار سکھوں نے بھارتی ہائی کمیشن کے آگے پرزور احتجاج کیا ہے۔ دنیا کے دوسرے مراکز میں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ یوں تو یہ مجموعی طور پر کسانوں کا احتجاج ہے جو تین قوانین کی منسوخی کے گرد گھومتا ہے مگر سکھ لیڈر اس احتجاج کو ایک نیا سیاسی، مزاحمتی اور انقلابی رنگ دے رہے ہیں۔ وہ اسے گزشہ برس شہریت کے قوانین کے ذریعے مسلمانوں پر وار کے انداز میں سکھ کمیونٹی پر وار سمجھ رہے ہیں۔ یہ سوچ ایک زوردار ردعمل کو جنم دے رہی ہے۔ مودی کے ہاتھوں شکست کھانے والی اور بے بس ہو کر بیٹھ جانے والی اپوزیشن اس تحریک میں مودی کا بت بکھرنے اور اپنی واپسی کا خواب دیکھ رہی ہے۔ سکھ لیڈروں اس سوچ کا اظہار کررہے ہیں کہ بھارت کے متنازع قوانین ان کی طاقت، عزت اور انا کو للکارنے کا اسی طرح ایک انداز ہے جس طرح شہریت قوانین کے ذریعے مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ مسلمان شاہین باغ سمیت کئی احتجاجی اسٹیج سجا کر ان متنازع قوانین کو واپس نہ کرو اسکے تھے مگر سکھ لیڈروں کا لب ولہجہ بتا رہا ہے کہ وہ متنازع قوانین کو منسوخ کراکے دم لیں گے بصورت دیگر بھارت میں ایک خوفناک تصادم اور تقسیم کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔