رب العالمین ایسا حج کبھی دیکھا نہ سنا

1373

 ایام حج کا آغاز ہوتے ہی پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی ہے کہ کاش ’’وہ بھی ان حاجیوں کے ساتھ شامل ہوتا جن کو اللہ نے اپنی دعوت پر بلایا ہے لیکن برسوں کی کوشش کے باوجود لاکھوں مسلمان فریضہ حج سے محروم رہ جاتے ہیں۔ پاکستان ان خوش نصیب ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں سے سب سے زیادہ لوگ حج اور عمرے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں اور اس سال بھی ایک لاکھ 79ہزار حجاج کو پاکستان سے حج کے لیے سعودی عرب جانا تھا لیکن کویڈ۔ 19 نے حاجیوں کے برسوں کے ارمان دل میں ہی دبا دیے اور حاجی 7ذوالحجہ (سعودی عرب کے مطابق منگل کے دن) کعبے کی جانب آنسوؤں بھری آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ ان سب حاجیوں کی مراد پوری کرے اور جو مسلمان اس سال حج پر جانے کی تیاریوں کے باوجود حج سے محروم رہے اور ان ایک ہزار لوگوں کا حج قبول کرے جو اس بری حالت میں حج کی سعادت وبرکات حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ رواں سال سعودی عرب نے محدود حج کا اعلان کیا ہے، سعودی عرب کی حکومت نے رواں برس کورونا وائرس کے پیش نظر حج کے شرکا کی تعداد محدود رکھنے اور صرف سلطنت میں مقیم افراد کو حج کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔ رواں برس حج میں سعودی سلطنت میں مقیم مختلف ممالک کے عازمین کو محدود تعداد میں شریک کیا جائے گا‘۔
تاریخ میں حج کب کب منسوخ ہوا؟ اس کی تفصیل جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ حج 629 عیسوی (چھ ہجری) کو پیغمبر ِ اسلام محمد عربیؐ کی قیادت میں ادا کیا گیا تھا اور اس وقت سے حج فرض تسلیم کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد ہر سال دنیا بھر کے مسلمان اس فرض کو ادا کرتے ہیں۔ اگرچہ مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی سال حج نہیں ہو سکے گا۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ میں تقریباً 40 مواقعے ایسے ہیں جن میں مختلف ممالک کے لوگ حج ادا نہ کر سکے یا محدود پیمانے پر حج ہوا اور کئی بار خانہ کعبہ حاجیوں کے لیے بند رہا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں بیت اللہ پر حملے سے لے کر سیاسی جھگڑے، وبا، سیلاب، ڈاکوؤں کا حاجیوں کے قافلے لوٹنا اور سخت سردی شامل ہیں۔
ماضی میں حج منسوخی کی تفصیل بڑی لمبی ہے اس لیے سب سے پہلے وبائی بیماریوں سے منسوخ شدہ حج کی تفصیلات بیان کی جارہی ہے جو کچھ اس طرح ہے۔ شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ مطابق بیماریوں اور وباؤں کی وجہ سے 357 ہجری میں لوگ حج نہ کر سکے۔ رپورٹ میں ابنِ خطیر کی کتاب ’آغاز اور اختتام‘ کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ الماشری نامی بیماری کی وجہ سے مکہ میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔ بہت سے زائرین راستے ہی میں ہلاک ہوئے اور جو لوگ مکہ پہنچے تو وہ حج کی تاریخ کے بعد ہی وہاں پہنچ سکے۔ اس کے بعد 1831ء میں بھارت سے شروع ہونے والی ایک وبا نے مکہ میں تقریباً تین چوتھائی زائرین کو ہلاک کر دیا۔ یہ لوگ کئی ماہ کا خطرناک سفر کر کے حج کے لیے مکہ آئے تھے۔ اسی طرح 1837ء سے لے کر 1858ء دو دہائیوں میں تین مرتبہ حج کو منسوخ کیا گیا جس کی وجہ سے زائرین مکہ کی جانب سفر نہ کر سکے۔ 1846 میں مکہ میں ہیضے کی وبا سے تقریباً 15 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ وبا مکہ میں 1850ء تک پھیلتی رہی اس کے بعد بھی کبھی کبھار اس سے اموات ہوتی رہیں۔ اکثر تحقیق کاروں کے مطابق یہ وبا بھارت سے زائرین کے ذریعے آئی تھی جس نے نہ صرف ان کو بلکہ مکہ میں دوسرے ممالک سے آنے والے بہت سے دیگر زائرین کو بھی متاثر کیا تھا۔ مصری زائرین جوق در جوق بحرہ احمر کے ساحلوں کی طرف بھاگے جہاں انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا۔ یہ وبا بعد میں نیویارک تک پھیلی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خلافت ِ عثمانیہ کے دور میں ہیضے کی وبا کے خاتمے کے لیے قرنطینہ پر خصوصاً زور دیا گیا تھا۔
حج منسوخی کی دوسری وجوہات کچھ اس طر ح سے ہیں 865 میں اسماعیل بن یوسف نے، جنہیں السفاک کے نام سے جانا جاتا ہے، بغداد میں قائم عباسی سلطنت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور مکہ میں عرفات کے پہاڑ پر حملہ کیا۔ اس حملے میں وہاں موجود ہزاروں حاجی ہلاک ہوئے۔ اس حملے کو مکہ پر سب سے شدید حملوں میں سے ایک جانا جاتا ہے۔ 930 میں قرامطہ فرقے کے سربراہ ابو طاہر الجنابی نے مکہ پر ایک بھرپور حملہ کیا جس دوران اتنی لوٹ مار اور قتل و غارت ہوئی کہ کئی سال تک حج نہ ہو سکا۔
سعودی عرب میں قائم شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن فار ریسرچ اینڈ آرکائیوز میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں اسلامی تاریخ دان اور احادیث کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’316 ہجری کے واقعات کی وجہ سے کسی نے قرامطہ کے خوف کے باعث اس سال حج ادا نہیں کیا‘۔ قرامطہ اس وقت کی اسلامی ریاست کو نہیں مانتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ حج کے فرائض اسلام سے پہلے کے ہیں اور اس طرح وہ بت شکنی کے زمرے میں آتے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابو طاہر خانہ کعبہ کے دروازے پر آٹھ ذوالحج کو تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اور اپنے سامنے جنگجوؤں کے ہاتھوں زائرین کا قتل ِ عام کرواتے رہے۔ رپورٹ کے مطابق وہ کہتے رہے کہ ’عبادت کرنے والوں کو ختم کر دو، کعبہ کا غلاف پھاڑ دو اور حجرِ اسود اکھاڑ دو‘۔ اس دوران کعبہ میں 30 ہزار حاجیوں کا قتل ِ عام ہوا اور انہیں بغیر کسی جنازے، غسل اور کفن کے دفنا دیا گیا۔ تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ حملہ آوروں نے لوگوں کو قتل کرنے کے بعد متعدد حاجیوں کی لاشیں زم زم کے کنویں میں بھی پھینکیں تاکہ اس کے پانی کو گندہ کیا جا سکے۔ اس کے بعد وہ حجرِ اسود کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ اس وقت کے سعودی عرب کے مشرقی صوبے البحرین لے گئے جہاں یہ ابو طاہر کے پاس اس کے شہر الاحسا ء میں کئی سال رہا۔ بالآخر ایک بھاری تاوان کے بعد خلافت ِ عثمانیہ کے دور میں اسے واپس خانہ کعبہ میں لایا گیا۔
983 عباسی اور فاطمی خلافتوں میں حج صرف لڑائیوں اور جنگوں کی وجہ سے منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ کئی سال سیاست کی نظر بھی ہوا۔ 983 عیسوی میں عراق کی عباسی اور مصر کی فاطمی خلافتوں کے سربراہان کے درمیان سیاسی کشمکش رہی اور مسلمانوں کو اس دوران حج کے لیے سفر کرنے نہ دیا گیا۔ اس کے بعد حج 991 میں ادا کیا گیا۔
390 ہجری (1000 عیسوی کے قریب) میں مصر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حج کے سفر کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے لوگ حج پر نہ جا سکے اور اسی طرح 430 ہجری میں عراق اور خراساں سے لے کر شام اور مصر کے لوگ حج پر نہ جا سکے۔ شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 492 ہجری میں اسلامی دنیا میں آپس میں جنگوں کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا جس سے فریضہ حج متاثر ہوا۔ 654 ہجری سے لے کر 658 ہجری تک حجاز کے علاوہ کسی اور ملک سے حاجی مکہ نہیں پہنچے۔ آج بھی جو حج ہو رہا ہے اس میں مکے میں موجود غیر ملکیوں کی تعداد 1000 میں 70فی صد اور مقامی حجاج کی تعداد 30فی صد ہے۔ 417 ہجری کو عراق میں شدید سردی اور سیلابوں کی وجہ سے زائرین مکہ کا سفر نہ کر سکے۔ 1213 ہجری میں فرانسیسی انقلاب کے دوران حج کے قافلوں کو تحفظ اور سلامتی کے باعث روک دیا گیا۔ 1344 ہجری میں خانہ کعبہ کے غلاف، کسوہ کو مصر سے سعودی عرب لے کر جانے والے قافلے پر حملہ ہوا جس کی وجہ سے مصر کا کوئی حاجی بھی خانہ کعبہ نہ جا سکا۔ یہ عیسوی کے حوالے سے 1925 کا سال بنتا تھا۔ تاہم یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب سے سعودی عرب وجود میں آیا ہے، یعنی 1932 سے لے کر اب تک، خانہ کعبہ میں حج کبھی نہیں رکا۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک جاری ہے گا۔ اس سال حج پر تعداد کم کر نے قبل رمضان المبارک سے قبل ہی کعبے اور مسجد نبوی کو 70دن کے لیے بند کرنا پڑا یہ شاید تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کوشش حکمرانوں کی جانب سے کی گئی لیکن ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اُوپر حج کو منسوخی کی تفصیل سے پتا چلتا ہے کہ تمام وجوہات میں حج کو منسوخ مسلمانوں نے جان بچانے کے خوف سے نہیں کیا۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ ’’قرامطہ کے ابو طاہر خانہ کعبہ کے دروازے پر آٹھ ذو الحج کو تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اور زائرین کا قتلِ عام کرواتے رہے۔ لیکن حج بند نہیں کیا گیا‘‘۔ کل کی طر ح آج بھی یہی رائے ہے کہ ’’جس طرح پاکستان میں مسجد کے کھلے رہنے سے ہمارے حکمرانوں نے تسلیم کیا کہ مسجد سے کورونا نہیں پھیلا اسی طرح اگر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو کھلا رکھا جاتا تو آج سعودی عرب سمیت دنیا بھر سے کورونا کا خاتمہ ہو جاتا‘‘ لیکن کھلے اور بند ذہنوں میں یہی فرق ہو تا ہے، کاش کوئی جان سکے۔