تائیوان: امریکا چین سفارتی جنگ

834

واشنگٹن اور بیجنگ سے آنے والی خبروں نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ سفارتی جنگ کے باوجود تائیوان چین میں ضم ہورہا ہے اور چین بہت جلد کارروائی کرنے جارہا ہے جس کے اطلاع تائیوان نے امریکا کو دے دی ہے۔ امریکا نے سفارتی جنگ کا آغاز کر دیا ہے اُس نے چین سے کہا ہے کہ وہ ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں اپنا قونصل خانہ بند کر دے۔ ردعمل کے طور پر چین نے ووہان میں امریکی قونصلیٹ بند کردیا ہے، برطانوی میڈیا کے مطابق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی اقدام کو اشتعال انگیزی اور عالمی قوانین کی ایک بڑی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ادھر امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کی جانب سے ایک خطرناک بیان سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا کہ چین کے ساتھ ممکنہ مقابلے کی تیاری کر رہے ہیں، ایسپر کے مطابق امریکا خطے میں بحری جہاز بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھے گا تاکہ چین کی توسیعی پالیسی اور تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت کے معاملے سے نمٹا جا سکے۔ امریکی وزیر دفاع کے مطابق وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں اور رواں سال کے اختتام تک چین کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ہم نے مئی 2020ء کے جسارت میں چھپنے والے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’چین نے امریکا سے کہا ہے کہ اگر امریکا نے اپنے کسی اتحادی جن میں تائیوان، جاپان، بھارت، فلپائن، کوریا سمیت کسی کو ہتھیار فراہم کیے تو اس کے جواب میں چین اپنے اتحادیوں کو سُپر سونک میزائل بردار ہوائی جہاز فراہم کر دے گا‘‘۔ اب امریکا کو یہ معلوم کرنا ہوگا کہ چین کے اتحادی بحرالکاہل میں کون ہیں یا چین کا اشارہ پاکستان کی جانب ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ہفتہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین سے کہا تھا کہ ’’امریکا بحرالکاہل میں چین کی بالادستی اور حکمرانی تسلیم نہیں کرے گا۔ اور وہ چین کی بنائی ہوئی فرضی 9 دیش لائن کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔
چین اور امریکا کی اس جنگ میں تیزی آنے کی سب سے بڑی وجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 2017ء کا وہ اعلان ہے جس میں ٹرمپ نے ’ون چائنا‘ پالیسی پر نظر ثانی پر غور کرنے کا بیان دیا تھا۔ قبل ازیں امریکا نے 1979 میں تائیوان سے سفارتی تعلقات توڑ دیے تھے، اور اس کے بعد سے وہ چین کے اس موقف کا احترام کرتا چلا آیا ہے کہ تائیوان چین کا الگ ہو جانے والا صوبہ ہے۔ لیکن 2017ء کو صدر ٹرمپ نے تائیوان کی صدر سائی اینگ وین سے براہ راست بات بھی کی تھی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ چین نے امریکا کے صدر کی جانب سے ’ون چائنا‘ پالیسی پر نظر ثانی کے بیان پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔ چین کے دفتر برائے تائیوان کے ترجمان آن فین گشن نے ون چائنا پالیسی میں مداخلت پر سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ چین کا کہنا تھا کی ’ون چائنا پالیسی کا احترام چین اور امریکا کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اہم ہے اور تائیوان میں امن اور استحکام کے لیے اہم ہے۔ اگر اس میں مداخلت کی گئی یا نقصان پہنچایا تو امریکا اور چین کے درمیان مستحکم تعلقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام پر گہرا اثر پڑے گا‘۔
2 جنوری 2019ء چینی صدر شی جن پنگ نے تائیوان کے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کریں کہ وہ چین کا حصہ ہیں اور ’تائیوان چین میں ضم ہو کر رہے گا۔ چین اور تائیوان کے درمیان تعلقات کی بحالی کے 40 سال مکمل ہونے کے موقع پر کی گئی اس تقریر میں چینی صدر نے تائیوان کو ’ایک ملک، دو نظام‘ کے نظریے کی بنیاد پر ضم ہونے کی پیشکش دوہرائی۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ چین اس معاملے میں طاقت کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔ چین کی جانب سے 2019ء میں بیان اس وقت آیا ہے جب امریکی پیسیفک کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل ہیری ہیرس نے عزم ظاہر کیا کہ امریکا چین کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین میں جارحانہ برتاؤ کو چیلنج کرتا رہے گا۔
بیجنگ تائیوان کو ہمیشہ اپنا صوبہ مانتا آیا ہے جو ملک سے جدا ہوگیا تھا۔ دونوں فریقین ایک ہی چینی نسل کا حصہ ہیں، چینی حکومت کے چند باغی تائیوان چلے گئے تھے اور انہوں نے وہاں اپنی حکومت بنا لی تھی لیکن تائیوان کی آزادی ایک ’بند گلی‘ ہے جس کا کوئی مستقبل نہیں۔ تائیوان کے عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ’آزادی حاصل کرنے سے انہیں صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور بیجنگ آزادی کو فروغ دینے والی کسی بھی قسم کی سرگرمی کو برداشت نہیں کرے گا۔ تائیوان کے ساتھ تعلقات ’چین کا اندرونی معاملہ‘ ہے اور اس سلسلے میں چین کسی قسم کی غیر ملکی مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔ بیجنگ تائیوان کے لوگوں کی علٰیحدگی پسند سرگرمیوں کی حمایت کرنے والی بیرونی قوتوں کے خلاف ہر ضروری اقدام کا حق رکھتا ہے۔
اس سلسلے میں تائیوان کے صدر چائی ان وِنگ کا کہنا تھا کہ بیجنگ کو تائیوان کے وجود کو قبول کر لینا چاہیے اور پْر امن طریقوں سے اختلافات کو حل کرنا چاہیے۔ جزیرے کو سرکاری نام سے پکارتے ہوئے صدر چائی کا کہنا تھا ’میں چاہتا ہوں کہ چین تائیوان کے وجود کی حقیقت کو تسلیم کر لے‘۔ 14 دسمبر 2016 چین نے آنے والی امریکی انتظامیہ کو متنبہ کیا ہے کہ ’ون چائنا‘ پالیسی کو چیلنج کرنے کی کوشش سے آبنائے تائیوان میں امن متاثر ہو گا۔ چین کے دفتر برائے تائیوان کے ترجمان نے کہا کہ ون چائنا پالیسی میں مداخلت سے امریکا اور چین کے تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین نے ایشیا پیسیفک میں امریکا کی تیزی سے جاری جنگی تیاریوں کے نتیجے میں گزشتہ ہفتہ 80ہزار میٹرک ٹن وزنی دیو ہیکل بحری بیڑہ ایشیا پیسیفک میں اُتار دیا اس بحری بیڑے کو 85میٹرک ٹن میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے جس کے بعد امریکا کو بحرالکاہل میں موجود اپنے ’’جزیرے گوام‘‘ کی حفاظت کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ گوام کو بچانے کے لیے امریکا نے فوری طور پر اپنا سب سے بڑا بمبار جہاز B-52H پہلے ہی جزیرے پر پہنچا دیا ہے لیکن اب تک امریکا یا بحرالکاہل کے ساتھ 10ممالک جس میں جاپان، تائیوان، فلپائن، ویتنام اور دیگر ممالک شامل ہیں میں سے کسی ایک ملک سے بھی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ اب تائیوان بڑی مشکل میں ہے اور اطلاعات کے مطابق تائیوان کو چین نے گھیر رکھا ہے، تائیوان اکیلا امریکا کی بیان بازی سن رہا ہے۔ بحرالکاہل کے ساتھ 10ممالک مکمل طور پر خاموش ہیں اور چین کے چھوٹے جہاز بحرالکاہل امریکی جزیرے گوام کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور امریکا کے اتحادی امریکی بحری بیڑے کا انتظار کر رہے ہیں اور ’’تائیوان چین میں ضم ہورہا ہے‘‘۔