لاک ڈاون: یونیورسٹیوں پر مرتب ہونے والے اثرات

405

کوویڈ 19وبائی بیماری کے نتیجے میں دنیا کے ہر ملک کی اقتصادیات میں انتہائی تیز اور دورس تبدیلیاں رونما ہونے کے امکانات پیدا ہوئے لیکن ان تبدیلیوں سے خوفزدہ ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ اس وبائی بیماری سے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ عالمگیر سطح پر بڑی تباہی پھیلی اور اس سے اعلیٰ تعلیم کے شعبہ پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا کوویڈ 19کا بحران بالآخر اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں طویل المدت ٹیکنالوجی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرے گا؟ پوری دنیا میں اچانک مڈسمسٹر لاک ڈاون کی وجہ سے وبائی بیماری سے نمٹنے کے لیے یونیورسٹیوں کو راتوں رات فاصلاتی تعلیم کی طرف راغب ہونا پڑا۔ لیکن اس تیزی سے منتقلی فیکلٹی اور طلبہ کے لیے یکساں طور پر مشکل ثابت نہیں ہوئی ہے مگر اس کے بھی کچھ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ اس وقت کاروبار زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح یونیورسٹیوں کو بھی دوبارہ کھولنے کے طریقۂ کار پر غور کیا جارہا ہے اور مختلف حکمت عملی اختیار کرنے پر سوچ بچار کی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں سوچا جارہا ہے کہ یونیورسٹیوں کو کھولنے کے پہلے مرحلہ میں ان طلبہ کو بلایا جائے جن کو انٹر نیٹ کی سہولت کی عدم دستیابی کی بنا پر آن لائن تعلیم حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ ہمارے ملک بجلی کی فراہمی کی بدترین صورتحال کی وجہ سے طلبہ و اساتذہ کو کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیدنگ اور پاور بریک ڈاون کی بنا پر آن لائن تعلیم کے ضمن میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یونیورسٹی کھولنے کے دوسرے مرحلے میں ان طلبہ کو بلایا جاسکتا ہے جو دیگر اداروں میں ملازمت کرتے ہوں یا انٹرن شپ کررہے ہوں۔ اس کے بعد سمسٹر کے فائنل ائیر کے طلبہ کو بلانے اور حالات بہتر ہونے پر تمام طلبہ کو بلانے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔ اسی طرح برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی نے اعلان کیا ہے کہ اس کے لیکچر صرف آن لائن رہیں گے جب تک کم سے کم 2021 کے موسم گرما تک اسٹین فورڈ یونیورسٹی سمیت طلبہ کو ذاتی طور پر بلایا جاسکے یا آن لائن کلاسیں جاری رکھنے کا کہا جاسکے۔ اس کا واضح مقصد یہ ہے کہ تعلیمی سال کو پھیلایا جائے تاکہ کم سے کم طلبہ کسی بھی وقت کیمپس میں موجود ہوں۔
کوویڈ 19 کا بحران اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو بڑے پیمانے پر معاشی نقصان پہنچانے کا بھی ذمے دار ہے، خالی کلاس روم، ویران لیب، کھیلوں کے اسٹیڈیم خالی، کیمپس کی گہماگہمی اور گھر بیٹھے تعلیم دینے کی وجوہات کی بنا پر طلبہ میں اب یونیورسٹی کو مکمل ٹیوشن فیس نہ ادا کرنے کا رحجان پیدا ہورہا ہے۔ بہت سارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں کمی واقع ہوجانے کے نتیجے میں ان کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے جس کی بنا پر چھوٹی سطح کے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں اور اسی قسم کے چیلنجز کا سامنا اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹیوں کو بھی درپیش ہے۔ امریکا میں مشی گن یونیورسٹی کو 2020 کے اختتام کی تک ایک بلین ڈالر کے نقصان کی توقع ہے جبکہ امریکا ہی کی ایک اور ممتاز ہارورڈ یونیورسٹی کو آئندہ سال کے دوران 750ملین ڈالرز کے محصولاتی شارٹ فال کی توقع ہے۔ لیکن کیا کوویڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والا عالمی بحران کا جھٹکا کم قیمت پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے بہتر تعلیم کی فراہمی میں مدد گار ثابت ہوگا؟ اس کا جواب جزوی طور پر اس بات پر منحصر ہوگا کہ کیا یونیورسٹیوں میں وبائی بیماری ختم ہونے کی وجہ سے ٹیکنالوجی کو ایک طرف رکھنا، یا اس کے بجائے بہترین طریقوں کی تلاش ہوگی۔ کلاس کے اندر اور باہر پروفیسرز، گریجویٹ طلبہ اور انڈر گریجویٹس کے مابین تعلق کی اہمیت کے پیش نظر یہ ایک آسان چیلنج نہیں ہوگا۔ 40سال قبل ایک گریجویٹ طالب علم کو یہ یقین تھا کہ ویڈیو سے سیکھنے (اس وقت کی ٹیکنالوجی) یونیورسٹی کی تدریس کو نئی شکل دے گی۔ بہرحال یہ سوچنے کی بات ہے، کیوں نہیں پوری دنیا کے طلبہ کو بہترین لیکچرز اور دیگر مواد تک رسائی دی جانی چاہیے۔ خاص طور پر یہ کہ 200 طلبہ کے لیے کیمپس میں آن لائن لیکچر یا اس سے زیادہ ذاتی تعامل کے لیے محدود گنجائش پیش کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کلاس روم میں تعلیم کا اب بھی ایک اہم کردار ہوگا۔ پروفیسرز پھر بھی میٹریل تیار کرتے ہیں اور سوالوں کے جوابات دیتے ہیں اور اپنے ریکارڈ شدہ لیکچرز کو چھوٹی کلاسوں میں تبدیل کرنے کا تصوّر نہیں کر سکتے ہیں (اگرچہ ٹیپ شدہ مواد بھی اس ترتیب میں کام کرسکتے ہیں) لیکن جب یہ شخصی طور پر ایک بڑے طبقہ کو دیکھنے کے لیے سنسنی خیز ہوتا ہے۔ یقینی طور پر ٹیپ شدہ ایک اچھا لیکچر عام طور پر ایک معمول کے لیکچر سے بہتر ہوتا ہے۔
اب ہم چار دہائیاں آگے بڑھتے ہیں، موجودہ صورتحال میں اب جبکہ ترقی محدود ہورہی ہے، اس کی ایک درجہ یونیورسٹی انتظامیہ خود ہے، یونیورسٹیاں فیکلٹی کو چلاتی ہیں اور وہ کچھ ایسے راستے پر گامزن ہیں جو ان کی خدمات کی طلب کو کم کردیں گی، پروفیسرز کو بھی اس میں کوئی تشویش نہیں ہے کیونکہ ٹیپ شدہ کلاسوںکے سبب ان کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ملازمت تلاش کرنا مشکل ہوجائے گا حالانکہ گریجویٹ طلبہ اپنی توانائی اور تازہ نظریات کے ساتھ تحقیق کرنے کے اہم محرک ہوتے ہیں۔ آبادی کے رویہ سے بھی کالج کے داخلوں پر طویل عرصہ سے کمی کے دبائو کا سامنا ہے یہاں تک کہ اگر کچھ شعبوں میں فیکلٹی (جیسے کمپیوٹر سائینس) اب بھی بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے بہت زیادہ ڈیمانڈ رکھتی ہے، گوکہ طلبہ کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے مگر یقینی طور پر لیبر فورس کی بچت کرنے والی نئی ٹیکنالوجی کے خلاف مزاحمت کو بڑھاوا دیتی ہے۔ لیکن شاید سب سے بڑی رکاوٹ اعلیٰ معیار کے ٹیپ کیے گئے لیکچرز تیار کرنے کی اچھی قیمت مل جاتی ہے جو طلبہ کو اتنا ہی مطمئن کرتے ہیں جتنا کہ کلاسز اٹینڈ کرنے کے دوران مطمئن کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر کھپت کرنے کے لیے لیکچر تیار کرنا ایک پُرخطر اور وقت گزارنے کی تجویز ہے اور چونکہ ریکارڈ شدہ لیکچر اتنی مہارت سے تیار کرلیے جاتے ہیں لہٰذا اخراجات کو پورے کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیم کے آغاز ہی سے اس کی بہتات ان مسائل کو حل کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن اب تک اس طریق کار پر زیادہ اثر نہیں ہوا ہے، لہٰذا یہ پوچھنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو کچھ شعبوں میں بنیادی ٹیپ شدہ یا آن لائن لیکچرز کا مواد تیار کرنے کے اخراجات برداشت کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ریاضی، کمپیوٹر سائنس، طبیعات اور اکائونٹنگ جیسے اہم مضامین میں تعارفی آن لائن کورس کا مواد تیار کرنے کے لیے مالی اعانت فراہم کرنا چاہیے۔ بہت سے دوسرے تعلیمی مضامین جن میں یقینی طور پر سب سے اہم معاشیات بھی شامل ہے کے لیے بھی آن لائن کی سہولت موجود ہے۔