یہود وہنود کسی کے دوست نہیں

661

اسرائیل میں ایک ایسا وقت بھی آنا تھا جب پورے اسرائیل کا میڈیا امریکا کے خلاف ہو جائے اور امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف بلند آواز سے چیخ وپکار کر نے لگے۔ یہ وہ صدر ٹرمپ ہیں جنہوں نے اپنی انتخابی مہم میں دو ممالک بھارت اور اسرائیل سے کہا تھا کہ اگر وہ ’’وائٹ ہاؤس‘‘ میں ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’اسرائیل کے لیے یہودی اور بھارت کے لیے ہند وصدر وائٹ ہائوس‘‘ میں بیٹھا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کو سابق امریکی صدر ہنری ٹرومین سے تشبیہ دی۔ قیام اسرائیل کے بعد آنجہانی ٹرومین نے اسرائیل اور امریکا کے درمیان تعلقات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ صدر ہنری ٹرومین کے دور میں امریکا نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ قیام اسرائیل کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے صہیونی ریاست تسلیم کرلی تھی مگر اسرائیل کے ستر سالہ سفر میں امریکا کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہا ہے۔ لیکن شاید ایسا کم ہی ہوا ہوگا جیسا اب ہو رہا ہے۔
اس صورتحال کو دیکھ کر 1974ء میں کانگریس میں ری پبلکن کے رکن جیرالڈ فورڈ یاد آگئے جنہوں نے پہلی بار امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کی آواز بلند کی۔ دو سال کے بعد جب جیرالڈ فورڈ صدر منتخب ہوئے تو امریکا میں متعین اسرائیلی سفیر اسحاق رابین نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ القدس کے بارے میں اپنی رائے کو عملی شکل دیں۔ اس پر جیرالڈ فورڈنے جواب دیا کہ وائٹ ہاؤس میں بیٹھا شخص معاملات کو مختلف انداز سے دیکھتا ہے۔ 1975ء میں صدر جیرالڈ فورڈ نے اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت بند کر دی اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر نظر ثانی کی بھی دھمکی دی۔ تاہم اسرائیل نے مصر کے ساتھ معاہدہ کرکے جزیرہ نما سینا کا علاقہ خالی کر دیا اور یوں وہ امریکی پابندیوں سے بچ گیا۔
صدر نکسن، اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر تھے۔ بن گوریان ائر پورٹ پر جون 1974 میں امریکا کے 37ویں صدر کی حیثیت سے صدر نکسن نے وزیراعظم گولڈا مائر اور اسحاق رابین کے ساتھ گہری دوستی اور قریبی تعلقات قائم کیے۔ لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہر امریکی صدر اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل کے بارے میں کھل کر بات نہیں کر ے گا۔ اسرائیل کی 60 ویں سالگرہ کے موقع پر صدر جارج ڈبلیو بش نے اسرائیل کی مجلس قانون ساز، کنیسٹ سے خطاب کیا۔ صدر بش امریکی وزیر خارجہ کولن پائول اور اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون ان کے ساتھ تھے۔ صدر بش نے اس موقع پر کہا: ’’آپ لوگوں نے ایک ایسی عظیم جمہوریت تشکیل دی ہے جو ہمیشہ قائم رہے گی اور آپ امریکا کے ہمیشہ ساتھ دینے پر بھروسا کر سکتے ہیں‘‘۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد اور تیل کی دولت کے تناظر میں امریکا اپنے مفادات کی قربانی نہیں دینا چاہتا تھا، مگر صدر ٹرومین کی طرف سے صہیونی تحریک کی غیر مشروط حمایت کے نتیجے میں امریکا، اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ صہیونی تحریک نے دوسری عالم جنگ کے بعد ہولو کاسٹ سے بچنے والے یہودیوں کو 1946ء میں فلسطین میں آباد کرنے کے لیے برطانیہ پر دباؤ ڈالا۔ 1946ء میں فلسطین میں یہودیو ں کو بسانے کے لیے فلسطین ہی کیا پورے امریکا اور یورپ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں ان کو بسایا جاتا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں کے بارے میں عیسائی دنیا کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اسرائیل جس ملک کے ارد گرد ہو گا اس کا جینا حرام کر دے گا۔ کیوں کہ قیام اسرائیل کا صر ف ایک ہی مقصد ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ ہے اس کو تسلیم کرنے کے باوجود امریکا نے مغربی القدس پر صہیونی ریاست کا تسلط تسلیم نہیں کیا۔
اسرائیل کے میڈیا کی امریکا اور امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف چیخ وپکارکا ایک ہی مقصد ہے ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ نافذ کرنے میں امریکا اسرائیل کو تحفظ کیوں فراہم نہیں کر رہا۔ یکم جولائی سے ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ کو نافذ کیا جانا تھا اس کا اعلان بھی ہو چکا تھا، عین وقت پر امریکا نے ہاتھ کھڑے کر لیے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا ایسی صورتحال میں کیا عرب ممالک کا ساتھ دے گا۔ 1948 سے 2020ء تک امریکا نے اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اور اب ایک ایسے وقت میں جب امریکا کو افغانستان میں عملی طور پر شکست کا سامنا ہے اور یہ شکست بھی مسلمانوں کے ہاتھوں ہو رہی ہے کیا امریکا یہ رسک لے سکتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو ناراض کر دے۔ یہ بات ساری دنیا اور خاص طور پر عیسائی دنیا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ’’بیت المقدس‘‘ ساری دنیا کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان ’’بیت المقدس‘‘ کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
اس موقع پر امریکا کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ اسرائیل جس کی امریکا 1948ء سے مدد کر رہا ہے آج اس کا پورا میڈیا اسی امریکا کے ایک اصولی فیصلے کو قبول نہیں کر رہا جس سے امریکا کو ساری دنیا کے مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہی حالت بھارتی وزیر اعظم مودی کی ہے جس کی امریکا نے ہر طرح سے مدد کی اور اپنے سر پر بٹھایا اور جس بھارت کے بارے میں امریکا نے کہہ دیا کہ ٹرمپ کی جیت کا مقصد یہ ہے کہ ’’وائٹ ہاؤس‘‘ میں بیٹھا امریکی صدر ہندو صدر ہے لیکن آج اسرائیل اور بھارت دونوں کا میڈیا امریکی صدر ٹرمپ کا سخت مخالف بنا ہوا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کو بھی اس جانب غور کرنا چاہیے کہ پاکستان اور عرب ممالک امریکا کے ہر مشکل وقت میں ساتھ دیتے ہیں لیکن امریکا ان کے ساتھ سلوک سوتیلے بھائیوں جیسا کرتا ہے۔ افغانستان ہی کو دیکھ لیں پاکستان نے ہر حال میں امریکا کا ساتھ دیا لیکن حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں امریکا نے پاکستان کے بجائے بھارت کو افغانستان میں اہم کردار کی باگ ڈور تھمادی اور بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کی عسکری اور مالی امداد کرتا رہا ہے۔ یہی کچھ اسرائیل بھی عربوں کے ساتھ کرتا رہا ہے۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ بھارت اور اسرائیل دونوں امریکا اور عیسائی برادری کے مخالف ہیں اور یہ دونوں مسلمان اور عیسائیوں کے کبھی دوست نہیں بن سکتے۔