پھانسی کی سزا، مغرب کا ایک اور واہمہ

908

قومی اسمبلی میں وزیر مملکت علی محمد خان کی ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں بچوں سے زیادتی کے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی حمایت کی گئی ہے۔ اس قرارداد کی حمایت جہاں مسلم لیگ ن سمیت کچھ دوسری جماعتوں نے کی ہے وہیں پیپلزپارٹی اور کچھ حکومتی ارکان شیریں مزاری اور فواد چودھری نے اس کی مخالفت میں رائے ظاہر کی ہے۔ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے بھی سرعام پھانسی کو خلاف قانون اور خلاف شریعت قرار دے کر اپنا وزن اول الذکر دو وزرا کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ بہت سی سیاسی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی میں قدامت اور جدیدیت، روایتی اور غیر روایتی کی کھینچا تانی چلتی رہی ہے اور اس معاملے پر بھی یہ کشمکش عیاں ہوگئی ہے۔ ان کی بات میں وزن ہوتا ہے جو مغربی تہذیب کو بہت قریب سے دیکھ چکے اور اس کی موجوں میں غوطہ زن رہ چکے ہوں۔ ان کی تنقید اور عدم اعتماد کا اظہار محض کتابی بات نہیں ہوتی بلکہ مشاہدے سے تعلق رکھتی ہے۔ علامہ اقبال ایسے لوگوں میں سرفہرست ہیں جو مغربی تہذیب کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
اقبال کی طرح مغربی تہذیب کے حوالے سے جس بھی مسلمان راہنما کی کایا پلٹ گئی اس نے مغربی تہذیب کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا۔ اس تہذیب کی چکا چوند نگاہوں کو اس قدر خیرہ کر دیتی ہے کہ آج بھی مسلمان معاشروں میں اس سے متاثر ہونے والے موجود ہیں۔
قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد اس مسودہ ٔ قانون سے تعلق رکھتی ہے جو ابھی پارلیمنٹ میں باقاعدہ منظوری کے لیے پیش ہونا ہے۔ ابھی یہ مسودہ ایوان کی قائمہ کمیٹی ہی میں تھا جہاں کمیٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے پھانسی کی سزا کی ہی مخالفت کی تھی۔ قومی اسمبلی کی قرارداد نے بحث کو ایک نیا رخ دیا۔ بلاول زرداری سرے سے پھانسی ہی کے خلاف ہیں تو علی محمد خان پھانسی ہی نہیں بلکہ سرعام پھانسی کی حمایت کررہے ہیں۔ ملک کی عدالتیں سرعام پھانسی کو غیر شرعی قراردے چکی ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اس سے معاشرے میں بے رحمی اور درندگی پھیل سکتی ہے۔
اسلام میں سرعام کوڑے مارنے اور سر قلم کرنے کی سزائیں رائج ہیں اور اگر خلفائے رشدین کے زمانے میں جرائم کی سطح نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی تو اس میں حکمرانوں کے کردار تبلیغ وتلقین کے ساتھ ساتھ ان سزائوں کا دخل بھی تھا وگرنہ اس دور کے عرب معاشرے میں جرم کو کنٹرول کرنا آسان کام نہیں تھا۔ جدید مغرب نے انسان دوستی کا جو چولا صنعتی انقلاب کے بعد پہنا اس میں جانوروں کے حقوق تو اہم ٹھیرے مگر انسانوں کے حقوق کا نعرہ محض ڈھکوسلہ ثابت ہوا۔ یا مغرب کا تصور انسان صرف ایک مخصوص معاشرے مخصوص مذہب یا چند مذاہب اور ایک مخصوص ثقافت حد تو یہ ایک مخصوص نظام یعنی جمہوریت کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ آج جو کچھ مسلمان دنیا میں ہو رہا ہے اور مغرب کہیں اس کا شریک کار ہے یا کہیں اس کا لطف لے رہا ہے۔ تو اس سے مغربی اقدار کا دوہرا میعار اور تضاد عیاں ہو چکا ہے۔ ان کے خیال میں مسلمان اس وقت تک اچھے نہیں ہو سکتے جب تک وہ جدید مغرب کے اچھائی کے پیمانے پر پورے نہ اُتریں۔ اچھائی کا یہ پیمانہ ایک بے ڈھنگی جدیدیت ہے۔ کم لباسی، ایک مخصوص وضع قطع، اپنی روایات سے باغیانہ پن، اعداد وشمار کا کھیل جس میں جمہوری روح بھلے ہی موجود نہ ہو مغرب کو مسلمانوں کے لیے عزیز ہے۔ اسلامی سزائوں اور سرعام سزا میں بھی ان کی اس انسان دوستی کے سوتے چھلک پڑتے ہیں جو فلسطین، کشمیر شام، عراق، افغانستان سمیت دنیا میں جابہ جا خشک ہوچکے ہیں۔ مغرب کا تصور انسان اور انسانی حقوق کا تصور بہت محدود اور متعصب ہو گیا ہے۔ پھانسی کی سزا سے وحشت اور انسانیت کی تذلیل کا مغربی تصور بھی مغرب کا ایک مصنوعی مجسمہ ہے۔ یہی تصور اب مضبوط کردیا گیا۔ اس کی کوئی واضح بنیاد ہے نہ کوئی جواز۔
رواں بحث کا پس منظر بھی یہی کچھ ہے۔ ملک میں بچوں سے زیادتی کی ایک لہر سی چل پڑی ہے۔ ثبوت مٹانے کے لیے زیادتی کے بعد بچوں کا وجود ہی مٹا ڈالنے کا رواج بھی اس وحشت کا ایک اور خوفناک پہلو بن گیا ہے گو کہ جدید ذرائع نے اب ایسے درندوں تک قانون کی پہنچ آسان بنا دی ہے اس کے باوجود آئے روز درندگی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ اس سے بڑی درندگی اور کیا ہو سکتی ہے کہ معصوم بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے رحمی سے قتل کر دیا جائے۔ اس سے معاشرہ جس خوف اور کرب کا شکار ہوتا ہے ایک مجرم کا عبرتناک انجام اس کی کسی حد تک نہ صرف تشفی کر سکتا ہے بلکہ ایسے درندوں اور ذہنی مریضوں کے دل میں موت سے پہلے معاشرے میں بے توقیری اور بدنامی کا خوف بھی پیدا کر سکتاہے۔ یہ جرم کو کنٹرول کرنے کی ایک اضافی کوشش ہو سکتی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو مغربی اداروں کی خوشنودی کے بجائے اپنے معاشرے، جرم کی نوعیت، اس کے معاشرے پر اثرات اور اپنی ثقافتی اقدار اور دینی تعلیمات کو مدنظر رکھ کر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔