چمکتا ستارہ

393

فرخندہ شہاب‘ بنتِ پروفیسر عبدالغفور احمد
آج سے پانچ سال قبل 26 دسمبر 2012ء کو پروفیسر عبدالغفور احمد (ابا جی) اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ابا جی سیاست دانوں کی اُس آخری کھیپ میں سے ایک تھے جن کے نزدیک سیاست منافع بخش کاروبار کے بجائے مسلسل خدمت، ریاضت اور مشقت کا دوسرا نام تھا۔
ابا جی سادگی، شرافت، شائستگی، وضع داری اور منسکر المزاجی کا مجسم پیکر تھے۔ میری، یا یوں کہیں سب کی نظر میں ابا جی کا بڑا کارنامہ 1973ء کے آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا ہے۔ ابا جی نے اس آئین میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ میرے بڑے بھائی طارق فوزی نے بتایا کہ ابا جی نے یہ تجویز دی تھی کہ قادیانی اپنی عبادت گاہ کا نام مسجد نہیں رکھ سکتے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس تجویز کو مان کر بہت نیک کام کیا تھا۔
ابا جی نے ہمیشہ سفید شلوار قمیص، آسمانی یا کسی اور رنگ کی واسکٹ پہنی اور اکثر شیروانی بھی زیب تن کیا کرتے تھے۔ بڑا ہو یا چھوٹا، سب سے مسکرا کر اور کھڑے ہوکے ملتے تھے۔
’’ابا جی‘‘ یہ لفظ ادا کرتے ہی میرے تصور میں اُن کا مسکراتا ہوا چہرہ آجاتا ہے۔ ہم اولادوں پر کبھی غصہ نہیں کیا، اپنے کردار سے امی اور ابا جی دونوں نے ہم کو اسلام کے صحیح اصولوں پر چلنا سکھایا۔ ابا جی خوش ہو کر کہتے تھے ’’میں خوش قسمت ہوں کہ میری سب اولاد ماشاء اللہ پانچ وقت کی نمازی ہے۔‘‘
ابا جی جماعت اسلامی کے اُن چند لوگوں میں سے تھے جن کو مولانا مودودیؒ سے براہِ راست استفادہ کا موقع ملا، اور محترم میاں طفیل محمد، محترم قاضی حسین احمد کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ اُن چند سیاست دانوں میں سے تھے جو تدریس سے سیاست کی طرف آئے۔ خود کھلی کتاب کی مانند تھے، انہوں نے اپنے پورے شعور کے ساتھ صراطِ مستقیم کا راستہ چُنا تھا۔ وہ انتہائی صبر و استقامت اور یکسوئی کے ساتھ اس راہ پر گامزن رہے۔ ابا جی نے ساری زندگی جماعت اسلامی میں گزاری مگر وہ جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ دوسرے سیاسی حلقوں میں بھی بہت مقبول تھے، بلکہ ابھی بھی مقبول ہیں۔
ابا جی اِس دنیا سے تو رخصت ہوگئے لیکن ہمارے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں موجود ہیں۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے شہاب (میرے خاوند) کا اپنے کام کے سلسلے میں ایک صاحب سے ملنا ہوا۔ باتوں باتوں میں سیاست کا ذکر نکلا تو شہاب نے بتایا کہ میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کا داماد ہوں۔ یہ سنتے ہی وہ صاحب اپنی جگہ سے اٹھے اور شہاب کو گلے لگا لیا اور کہنے لگے ’’آپ تو بہت ہی عظیم ہستی کے داماد ہیں‘‘۔ گھر آ کے شہاب نے جب مجھے بتایا تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
ابا جی کو رخصت ہوئے پانچ سال ہوگئے ہیں لیکن وہ آج تک لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ یہ سعادت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ابا جی کی اس سیاسی کامیابی میں ہماری امی (یاد رہے امی کا انتقال 2008ء میں ہوگیا تھا) برابر کی شریک تھیں، کیوں کہ انہوں نے گھر کی ساری ذمے داری خود اٹھا رکھی تھی اور ابا جی کو اس ذمے داری سے بے فکر کیا ہوا تھا، جس کی وجہ سے ابا جی نے یکسوئی سے اپنا سفر جاری رکھا تھا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امی اور ابا جی کی قبروں کو جنت کا گوشہ بنا دے، اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے مقام کو بلند تر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
سب انسان فانی ہیں، آگے پیچھے سب کو جانا ہے، محترم قاضی حسین احمد نے ابا جی کے تعزیتی جلسے سے مخاطب ہو کے کہا تھا کہ اب ان شاء اللہ جنت کے جلسہ عام میں ملاقات ہوگی۔ مجھے قاضی صاحب کی یہ بات بہت تقویت دیتی ہے۔ جنت میں اللہ ہم سب کو دوبارہ ملائے گا، ان شاء اللہ۔
یاد رہے ابا جی کی وفات کے دس دن بعد محترم قاضی حسین احمد صاحب بھی دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، آمین۔ جماعت اسلامی دس دن میں دو عظیم رہنمائوں سے محروم ہوگئی تھی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اس خلا کو پُر کرے اور پھر سے ایسے عظیم رہنما پیدا ہوں۔ آمین۔