الخدمت ویمن ونگ ‘روشنی ان ہی سے ہے…!۔

480

افشاں نوید
چند ہی گھنٹوں کے بعد 2017ء پچھلا برس ہوجائے گا۔ اس برس کس کو عروج نصیب ہوا اور کس کو زوال… کس نے کون سی قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کیں اور ناکامی کس کس کا مقدر بنی… اس پر تجزیے ہوں گے، تبصرے کیے جائیں گے۔ کچھ روشن خیال دانش ور فیتے ہاتھوں میں لیے خواتین کی کامیابیوں کو ناپ رہے ہوں گے۔ پاکستان کی پہلی کوہ پیما خاتون، پہلی خلاباز خاتون، پہلی پائلٹ خاتون وغیرہ وغیرہ تو سنا تھا، اب تو پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور خاتون، پہلی سائیکلسٹ خاتون، پہلی ڈاکیہ خاتون، پہلی کانسٹیبل خاتون، پہلی کمانڈو خاتون، پہلی چوکیدار خاتون وغیرہ کو بھی بحیثیت رول ماڈل پیش کیا جاتا ہے۔
ہم نے سوچا نئے سال کے آغاز پر آپ کو ایک عظیم مشن میں مصروف خواتین سے ملوائیں۔ ہمارے ساتھ آئیے۔ یہ ان کا دفتر ہے۔ یہاں بیک وقت ہمہ جہت سرگرمیاں رہتی ہیں۔ بڑے بڑے کمروں میں سینکڑوں خوب صورت بنڈل رکھے ہیں جن میں رضائیاں اور سوئیٹر وغیرہ ہیں۔ یہ ونٹر پیکیج ہیں جو اس وقت گوادر اور کوئٹہ روانہ کیے جا رہے ہیں۔ دوسرے کمرے میں کئی درجن جہیز بکس موجود ہیں جن کو جلدی جلدی تیار کیا جا رہا ہے۔ کئی درجن شادیوں کا اہتمام ہے۔ خود دفتر میں شادی کا سا منظر ہے۔ گہما گہمی، جذبات جو ہمیں گھروں میں کئی برسوں بعد نظر آتے ہیں یہاں کی روز کی یہ رونقیں ہیں۔
یہ ذہن جو شب و روز سوچتے ہیں کہ فنڈنگ کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے جائیں؟ مزید کن افراد سے رجوع کیا جائے؟ اس سرگرمی کے لیے کتنا سرمایہ درکار ہوگا؟ اس کو مہیا کرنے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا…؟ یہ سب سوچتے سوچتے جوانیاں بڑھاپے میں ڈھل گئیں اور اپنے بچوں کو تیار کردیا اس عظیم خدمت کے لیے۔ یہاں بوڑھا کوئی نہیں ہوتا۔ تھکن ان کی لغت میں کسی چیز کا نام نہیں۔ جب آپ ان کے مرکز کا دورہ کریں تو ایک نئے جذبۂ ایمانی کے ساتھ پلٹتے ہیں۔ ہر وقت، ہر دن ایک ہی جیسا کام… جس کا کوئی معاوضہ نہ انہیں ملتا ہے نہ اس کی طلب رکھتے ہیں۔ ملک بھر میں قدرتی آفات کے موقع پر یہ بہن اور بھائی سب سے پہلے پہنچنے والے ہوتے ہیں۔ کنویں کھدوانے، ہینڈ پمپ لگوانے، مساجد و مدرسہ تعمیر کرانے، جہیز بکس مہیا کرنے، نیز اجتماعی شادیوں کا اہتمام اور کفالتِ یتامیٰ کے لیے گلگت بلتستان کے برف پوش پہاڑوں سے لے کر تھرپارکر کے تپتے صحرا تک نہ صرف الخدمت کے مرد رضا کار، بلکہ خواتین بھی ان کے دوش بدوش ہر محاذ پر سرگرم عمل ہیں۔ ہر جہت میں کام کرنے والی بلاشبہ یہ ملک کی سب سے بڑی این جی او ہے۔ بالخصوص خواتین کی کوئی این جی او بیک وقت اتنے کثیر الجہت شعبوں میں اتنی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہے۔ ایک طرف اگر ان کے اسکول و مدارس میں ہزاروں طلبہ و طالبات تعلیم پا رہے ہیں تو دوسری جانب قدرتی آفات کے موقع پر آن کی آن میں یہ کروڑوں کی نہ صرف فنڈنگ کرلیتی ہیں بلکہ خود متاثرین کے درمیان پہنچ جاتی ہیں امداد لے کر۔
آج بیسمنٹ میں سیرت النبیؐ کا پروگرام ہونا تھا، جہاں بڑی تعداد میں خواتین کے علاوہ کوئی سو کے قریب بچیاں موجود تھیں۔ ان میں اکثریت پٹھان بچیوں کی تھی جن کی عمریں دس برس سے کم یا کچھ زیادہ تھیں۔ ان کی شفیق استاد زینت صاحبہ نے بتایا کہ یہ پسماندہ علاقوں کی بچیاں ہیں۔ جب ان کا یہاں مدرسے میں داخلہ ہوا تو یہ بچے آداب و اخلاق سے عاری تھے۔ ایک ایک بچے پر انفرادی محنت کی جاتی ہے۔ بنیادی توجہ ان کو اچھا انسان بنانے پر دی جاتی ہے۔ جیسے ہی اذان ختم ہوئی، ان بچیوں نے بآوازِ بلند اذان کے اختتام کی دعا پڑھی۔ ان کی کلاس کا وقت ہوگیا تو یہ ترتیب سے قطار بناکر ہال سے باہر نکلیں۔ سب نے صاف ستھرے یونیفارم کے ساتھ سلیقے سے اسکارف پہن رکھے تھے۔ ایسے ہزاروں بچے الخدمت کے ان مدارس سے آدمی سے انسان بن کر نکل رہے ہیں۔ نہ ان بچوں سے فیس لی جاتی ہے، نہ ان کے اساتذہ کو بھاری معاوضے دیے جاتے ہیں۔ پھر بھی سب سرشار ہیں۔ اپنی بہترین صلاحیتیں اور وقت انسان سازی کے اس کام پر لگا کر سماج کا قرض اتار رہے ہیں۔ بائیں ہاتھ پر ایک بڑا کمرہ ہسپتال تھا جہاں کئی درجن عورتیں اور بچے اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ایک لیڈی ڈاکٹر ڈیوٹی پر موجود تھیں۔ سالانہ لاکھوں لوگ الخدمت کے ہسپتالوں سے صحت یاب ہوتے ہیں۔ یہ سب عبادت سمجھ کر کیا جاتا ہے… صلہ و ستائش کی تمنا سے بے نیاز ہوکر۔ یہ کوئی پارٹ ٹائم جاب یا مشغلہ نہیں، ساری زندگی کا مشن ہے کہ اللہ کی خلق کے دکھوں کو کم کردیں۔ ان کے سینٹرز کی پیشانی پر آپ کو یہ تحریر نظر آتی ہے خیرالناس من ینفع الناس۔ تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے کے کام آئے۔ (الحدیث)
ڈیفنس (کراچی) میں سیرت کے ایک پروگرام میں الخدمت ٹرسٹ کی نگراں محترمہ نویدہ انیس اعلان کررہی تھیں کہ تھرپارکر میں مٹھی کے مقام پر ایک ہسپتال زیر تعمیر ہے آپ میں سے جو ہمارے ساتھ جانا چاہے وہ ہمیں مطلع کردے، آپ خود چل کر کام دیکھیں پھر عطیات کے لیے کوشش کریں۔ نہ معلوم کون کون ساتھ گیا اور کس کس نے عطیات دیئے۔ ہم نے تو اخبارات میں ہسپتال کے افتتاح کی خبریں پڑھیں تو دل خوشی سے سرشار ہوگیا کہ غذا کی قلت اور روز کی اموات کی خبریں تو اخباروں کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن ان بے آسرا لوگوں کے درد کا درماں بن جانا اللہ نے ان لوگوں کے نصیب میں لکھا ہے۔ سال میں کتنی بار تھر کے متاثرین کے لیے یہاں سے سامان روانہ کیا جاتا ہے اس کی تشہیر کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، کہ جس کی رضا کے لیے ہے اس کی صفت ’’لطیف خبیر‘‘ باریک بین جاننے والا ہے۔
سینٹر کے دورے کے دوران علم ہوا کہ جو صاحبِ ثروت خواتین ان سینٹرز کے دورے پر آتی ہیں اور خدمت کا یہ جذبہ دیکھتی ہیں، دوسری طرف نادار لوگوں کے حالات اُن کے علم میں آتے ہیں تو بیشتر خواتین خود کو اس مشن کے لیے وقت کردیتی ہیں۔ ملک بھر کے پانچ بڑے شہروں کے مراکز سے وطنِ عزیز کے چپے چپے کی خبر رکھی جاتی ہے۔ یہی نہیں کہ خوراک، علاج اور لباس سے ان کی مدد کی جاتی ہے، بلکہ جہاں جہاں ان کی مدد پہنچتی ہے وہاں ان کی روحانی بالیدگی کی بھی فکر کی جاتی ہے۔ کچی آبادیوں میں درجنوں مراکز ہیں جہاں قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جہاں بھی ان کے فلاحی مراکز ہیں وہ ساتھ ساتھ تربیتی ادارے بھی ہیں، جہاں ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں اور کردار سازی بھی بھرپور توجہ سے کی جاتی ہے۔
بلاسود قرضوں کی فراہمی اور خواتین کے لیے باعزت روزگار کا بندوبست ’’مواخات‘‘ نامی پروجیکٹ کے تحت کیا جاتا ہے۔ آلودہ پانی پاکستان میں بیماریوں کی بڑی وجہ ہے، یہ دہائی ہم سب ہی دیتے رہتے ہیں، لیکن ہماری یہ بہنیں ملک بھر میں جگہ جگہ واٹر فلٹریشن پلانٹ لگوا کر صاف پانی کی سہولت مہیا کرکے اجرِ عظیم کما رہی ہیں۔ سیکڑوں واٹر فلٹریشن یونٹس کے علاوہ ہزاروں کنووں کی کھدائی اور ہینڈ پمپس کی تنصیب ان کے ہاتھوں ہوچکی ہے۔ بہت سے پروجیکٹ تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ انہوں نے ششماہی رپورٹ ہمارے سامنے رکھ دی۔ ہم ٹھیرے ریاضی میں ہمیشہ کے کمزور… نظریں ان کروڑوں کے اعداد و شمار میں اٹک کے رہ گئیں۔ ہمیں تو ان اعداد و شمار سے زیادہ واضح ان کی پیشانیوں پر لکھا یہ پیغام نظر آرہا تھا کہ:
کسی کے درد کا مرہم بن کر
زیست اپنی گزار دینا تم