۔2017ء میں بوں کا ادب

505

اعظم طارق کوہستانی
ایک بڑے سے سمندر میں ہچکولے کھاتی کشتی کی مانند بچوں کا ادب آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔ اگر چہ اس کی رفتہ بہت کم ہے لیکن اب بھی یہ سمندر کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اگر آپ تاریخ کے طالب علم ہیں یا پھر تاریخ سے تھوڑا بہت بھی سروکار رکھتے ہیں تو آپ کے علم میں ہوگا کہ پسماندہ سے ترقی پذیر اور ترقی پذیر سے ترقی یافتہ بننے میں قوموں کو صدیاں لگی ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی قوم نے بہت کم عرصے میں خود کو پسماندگی سے نکال کر ترقی یافتہ قوموں کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ دنیا کے سب سے بہترین انسان تھے۔ اس لیے اُن کا برپا کردہ انقلاب بہت کم عرصے میں وقوع پذیر ہوا۔ اس کے علاوہ آپ یونانیوں کی تاریخ دیکھیں یا پھر مغربی اقوام کی۔ سبھی نے بتدریج ترقی کی۔ ہاں اس میں ترقی کی رفتار تیز ہوسکتی ہے اگر ایک قوم کسی ترقی یافتہ قوم کو دیکھ کر اپنی سمت بروقت ٹھیک طرح سے متعین کرلیں۔
پاکستان سے باہر آپ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی طرف نظر دوڑائیں یا پھر وہ ممالک جو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کررہے ہیں، وہ اپنا سرمایے کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں پر خرچ کرتی ہے۔ وہ ان کی دل چسپیوں، ان کے رجحانات کو مد نظر رکھتے ہیں۔ وہاں کے بڑے خود کچھ بھی اُلٹا سیدھا کریں لیکن بچوں کے لیے وہ سب یکسو ہیں کہ وہ اُنھیں اچھے اخلاق اور کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں، اس حوالے سے وہ فکرمند بھی ہیں، وہ سروے کرتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں۔ بچے کس چیز کے اثرات لیتے ہیں، بچے کیا سوچتے ہیں اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ان سب چیزوں کا جائزہ لیکر وہ اپنی تحقیق کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں اگرچہ ان کے بہت سارے تجربات ناکام ہوئے ہیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے وہ پریشان ہیں لیکن اُنھوں نے ایسے بہت سارے ذرائع اختیار کیے ہیں کہ جن سے بچہ اپنی اچھی اقدار سے جڑا رہے۔
ٹیکنالوجی کی ترقی نے 2D کارٹون سے 3D کارٹون کی جانب سفر شروع کیا۔ ایک 3D کارٹون میں جتنا خرچہ آتا ہے وہ ایک عام ہالی ووڈ فلم سے سیکڑوں گنا زیادہ ہے۔ ان کی بچوں کے لیے ہر دوسری فلم خاندان سے متعلق ہے۔ اُنھیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کا خاندانی نظام بُری طرح سے تباہ ہوچکا ہے، وہ نئی نسل کے ذریعے اُسے بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ایک تفصیلی موضوع ہے اس پر ہم پھر کبھی بات کریں گے، سرِدست یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارے سوا باقی دنیا اپنے بچوں پر یا ان کے لیے انویسٹ کرتے ہیں۔
پاکستان میں بھی گزشتہ تین چار برسوں سے بچوں کے ادب میں ذرا سی ہلچل مچی ہے اور اس ہلچل میں شاید سوشل میڈیا کا زیادہ کردار رہا ہے۔ پاکستان بھر میں اس وقت بچوں کے لیے کوئی چینل موجود نہیں ہے۔ کسی چینل پر بچوں سے متعلق کوئی خاص پروگرام باقاعدگی کے ساتھ نشر نہیں ہورہا(یہاں ان پرگرامات کا ذکر مناسب نہیں جو بچوں کے نام پر بڑوں کو محظوظ کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں) میڈیا کے تمام بڑے گروپ بچوں کا باقاعدہ کوئی رسالہ نہیں نکال رہے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے کوئی چینل موجود ہے۔ بچے انڈیا کے بھیم، ترکی کے جان کارٹون اور کارٹون نیٹ ورک کے دلدادہ ہیں۔
اب بچوں کے رسائل کی طرف آئیے۔ پورے پاکستان میں بچوں کے 35، 40 رسائل شائع ہورہے ہیں۔ جن میں اگر معیاری رسائل کو الگ کریں تو شاید ان کی تعداد 10کے آس پاس ہو، باقی رسائل اپنے طور پر کوشش کررہے ہیں لیکن اچھے قلمکاروں کی عدم دستیابی سے لیکر ہلکے کاغذ پر رسالے کی طباعت جیسے مسائل درپیش ہیں۔ معاشی طور پر مستحکم ادارے بھی بچوں کے رسائل خسارے میں شائع کررہے ہیں۔ بچوں کے رسائل میں اشتہارات نا ہونے کے برابر ہیں… ان تمام مسائل سے نبرد آزما ہونے کے بعد یہ چند رسائل اپنی مقدور بھر کوشش کررہے ہیں۔
٭…٭
کیا ہورہا ہے؟
2017ء میں بچوں کے ادب میں جو کام ہوئے اِن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بڑوں کے لیے لکھنے والی ’عمیرہ احمد‘ نے اس میدان میں قدم رکھا، اُنھوں نے ایک ادارہ ’الف نگر‘ کے نام سے قائم کیا اور اس میں بچوں کے ادب کو بھی شامل رکھا ہے۔ خود عمیرہ احمد نے بچوں کے لیے حرف کہانی لکھی ہے، اس سلسلے کی تقریباً آٹھ کتابیں چھپ چکی ہیں جبکہ بچوں کے لیے ان کے ادارے نے اور بھی کہانیاں شائع کی ہیں۔
کاروان ادب اطفال کے تحت سہہ ماہی ادب اطفال کا اجرا ہوا جس کا پہلا شمارہ عبدالرشید فاروقی کی شخصیت اور ان کی کہانیوں کے انتخاب پر مشتمل تھا جبکہ دوسرا شمارہ بچوں کے ادیب ابن آس کے حوالے سے لایا جارہا ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہورہا ہے کہ بچوں کے ادیب متعارف ہو رہے ہیں۔
فہیم عالم کے ادارے ’بچوں کے کتاب گھر‘ نے بہت ساری کتابیں شائع کیں جن میں عبدالرشید فاروقی کی ’تم کتنے اچھے ہو‘، راحت عائشہ کی ’پیڑ کا بھوت‘، فوزیہ خلیل کی ’تصویر کے آنسو‘، ضیاء اللہ محسن کی ’ماموں ملال‘ شامل ہیں۔ اسی طرح عثمان طفیل کی ایک کتاب کردار کا غازی اور دوسری کتاب ننھا عالم شائع ہوئی ہے۔ محمد مظفر محسن کی کتاب روشن آنکھیں، بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ بچوں کے ایک ادیب صداقت حسین ساجد نے اپنا ایک ادارہ میاں اسحاق سنز قائم کیا، اس ادارے کے تحت تین کتابیں اُن کی اور ایک کتاب معروف قلمکار زرین قمر صاحبہ کی ’کتابوں کا مقدمہ‘ شائع ہوئی ہے۔
ابن آس نے اپنے ادارے آس پبلی کیشنز کے تحت اپنے دوناول ’مکانِ دہشت‘ اور’ دہشت انگیز‘ شائع کیے ہیں۔ ایسے ناول عموماً اردو میں کم لکھے گئے ہیں، یقینا بچے ایک نئے ذائقے سے آشنا ہوتے ہیں۔
2017ء ہی میں ماہنامہ ساتھی کے 40سال مکمل ہوچکے تھے، اپریل میں ماہنامہ ساتھی نے حسب روایت ساتھی رائٹرز ایوارڈ ، فاران کلب کراچی میں منعقد کیا۔ اسی سال ماہنامہ ساتھی نے اپنی نوعیت کا تاریخی شمارہ 40سالہ نمبر شائع کیا اور اس سلسلے میں آرٹس کونسل کراچی میں تقریب رونمائی بھی منعقد کی گئی۔ ماہنامہ ساتھی نے ادارہ مطبوعات طلبہ کراچی کے اشتراک سے بچوں کی چار نئی اور دلچسپ کتابیں شائع کیں۔ جن میں بچوں کے معروف ادیب وشاعر احمد حاطب صدیقی کی نظموں کی رنگین تصاویر پر مشتمل کتاب’ یہ بات سمجھ میں آئی نہیں‘، معروف لُغت نویس اور محقق ڈاکٹر رئوف پارکھ کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں کی کتاب’ ہیرے والا شتر مرغ‘، حماد ظہیر کا ناول حادثے کے بعد اور فاطمہ نور صدیقی کا ترجمہ جزیرے کے قیدی‘ شامل ہے۔
دسمبر میں ہونے والی عالمی اُردو کانفرنس آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی۔ ابتدا کے چند برسوں میں بچوں کے ادب کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ اس سے قبل 2016ء میں پہلی بار بچوں کے ادب کا باقاعدہ سیشن رکھا گیا۔ 2017ء میں دوبارہ نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ بچوں کے ادیبوں نے سوشل میڈیا پر شور مچایا۔ کالم نگار سلیم فاروقی اور سابق مدیر آنکھ مچولی سلیم مغل بھی اس احتجاج میں شامل ہوئے، بلا ٓخر بچوں کے ادیب ابن آس کے کہنے پر بچوں کا ادب بھی شامل کیا گیا لیکن یہ آرٹس کونسل کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا (ہمارے دانشور طبقے نے اب تک بچوں کے ادب کو وہ اہمیت نہیں دی جس کا وہ متقاضی ہے۔ بچوں کے لیے لکھنا ان کے نزدیک کوئی کام نہیں اور کچھ یہ کہہ کر ہاتھ روک دیتے ہیں کہ بچوں کے لیے لکھنا چوں کہ ایک مشکل کام ہے اس لیے یہ اب ہم نہیں کر سکتے۔ لامحالہ اس کے نتائج بڑے خوف ناک رہے ہیں ہم بچوں کے ادب میں روایتی کہانیوں سے چھٹکارہ نہیں پاسکے ہیں۔نیا ادیب جب اچھا لکھنا شروع کرتا ہے تو وہ بڑوں کے لیے لکھنے کی طرف مڑ جاتا ہے۔ نت نئے آئیڈیاز کے ساتھ تخلیق کا عمل صرف ان قلمکاروں کے ہاتھوں ہورہا ہے جو اس میدان میں برسوں سے اپنے اخلاص کی بنیاد پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ چوں کہ اس میدان میں نہ ویسی شہرت ہے اور نہ پیسہ اس لیے معروف قلمکار اور شعرا نے اجتناب ہی برتا ہے)
۲۰۱۷ء میں بچوں کے معروف ادیب، نونہال کے مدیر اعلا مسعود احمد برکاتی بھی دارمفارقت دے گئے۔ اُنھوں نے اپنی پوری زندگی بچوں کے ادب کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ نونہال سے ۱۹۵۳ء سے وابستہ تھے اور مرتے دم تک نونہال سے وابستہ رہے۔
بچوں کے معروف ادیب ’مرزا ادیب‘… مسعود احمد برکاتی کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’مجھے برکاتی صاحب کا دوست اور ساتھی ہونے پر فخر ہے۔ برکاتی صاحب ان لوگوں میں شامل ہیں جن سے ملاقات ہوتی ہے تو زندگی سے زیادہ محبت ہوجاتی ہے کیوں کہ اپنی ملاقات میں زندگی کی خوشیاں دیتے ہیں۔ ان کی صحبت میں سچی خوشیوں کے لمحے گزرتے ہیں اس دور میں کسی بڑے مہذب انسان دوست اور خلیق آدمی کو دیکھنا ہو تو مسعود احمد برکاتی کو دیکھ لیں۔ مسعود احمد برکاتی بچوں کے بڑے ادیب ہی نہیں ایک خوب صورت انسان بھی ہیں۔‘‘ (مسعود احمد برکاتی نمبر، جنگل منگل ،اگست، 2010ء)
’پروفیسر ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی‘ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا: ’’ہمدرد نونہال کے مدیر کی حیثیت سے اُنھوں نے کتنے ہی نونہالوں کی نوک پلک درست کی اور آج کے کئی معتبر لکھنے والوں کی رہنمائی میں ان کی ذات اور نظر کا بڑا حصہ ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں دوسروں کی رہبری بے غرضی کا عمل ہے اور اس کے لیے آدمی کو اپنی سب سے قیمتی متاع قربان کرنی ہوتی ہے۔ وہ ہے ’وقت ‘…مسعود احمد برکاتی نے دوسروں کی سمت نمائی کے لیے جتنا وقت صرف کیا ہے اس میں وہ کتنا کچھ اور کیا کچھ لکھ سکتے تھے مگر ان کی بے غرضی اور نسل نو سے ان کی محبت نے کتنے چراغ روشن کردیے۔قدروں کی شکست وریخت کے اس عہد میں مسعود میاں اسلوب حیات کا ایک زندہ دبستاں ہیں۔ بزرگوں کے حضور سراپا ادب، دوستوں کے درمیان ان کی ہنسی اور قہقہے زندہ دلی اور نشاط کار کی علامت اور اعلان ہے۔ چھوٹوں کی محفل میں ان کا کلام اور نشست و برخاست جیسے ایک شگفتہ سبق ہے وہ تہذیب اور ادب و آداب کی ایسی کتابیں ہیں جس میں کہیں ایک نقطے کی غلطی نہیں۔‘‘(مسعود احمد برکاتی نمبر، جنگل منگل ،اگست 2010ء)
سید قاسم محمود نے ان کا خاکہ لکھا اور کیا خوب لکھا۔ لکھتے ہیں:’’مسعود کا معاملہ سعید کے برعکس ہے۔ آپ ان کے بارے میں سواے اس کے کچھ نہیں جانتے کہ وہ بچوں کے رسالے ’ہمدرد نونہال‘ کے مدیر ہیں۔ اُنھوں نے کوئی چوکا چھکا نہیں لگایا لیکن نصف سنچری ایک ایک رن کرکے بنائی ہے۔ وہ یوں کے پچاس برسوں میں ’ہمدرد نونہال‘ کے چھ سو شمارے مرتب کرکے آپ کے گھروں تک پہنچائے ہیں۔ پچاس سال تک مسلسل باد مخالف اور سخت بائولروں کے سامنے پچ پر کھڑے رہ کر چپ چاپ ایک رَن بناتے رہنا… کیا یہ معجزے سے کم نہیں؟ لفظ ’معجزہ‘ زبان پر آگیا تو آپ کو بتاتا چلوں کہ مسعود کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس میں معجزہ نہیں تو کرامات کا ظہور ضرور ہوا ہے اور اس کی نشانی اب تک ان کے پاس موجود ہے۔ مسعود کے پردادا میر دائم علی پندرہ سال کی عمر میں اپنے قصبے میر نگر، ضلع عطیم آباد، صوبہ بہار سے حصول تعلیم کے لیے دہلی پہنچے۔ وہاں علامہ فضل حق خیر آبادی سے فلسفہ پڑھا۔ طب کی تعلیم حکیم احسن اللہ خان سے حاصل کی۔ ابھی وہ دہلی میں ہی تھے کہ ۱۹۵۷ء کی تحریک آزادی شروع ہوگئی۔(مسعود احمد برکاتی نمبر، جنگل منگل، اگست 2010ء)
بچوں کے ادب میں آہستہ آہستہ جو ہلچل مچ رہی ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ برسوں میں اس حوالے سے خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ 3D فلموں کے حوالے سے بھی مختلف ادارے کام کررہے ہیں۔ تین بہادر اور اللہ یار اور مارخور کے نام سے چند مزید 3Dکارٹون منظر عام پر آرہی ہیں۔ خود عمیرہ احمد اپنے کرداروں کو 3D کرداروں میں ڈھالنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
سلیم مغل، سلیم فاروقی، احمد حاطب صدیقی، ڈاکٹر افتخار کھوکھر،نذیر انبالوی، ابن آس اور متعدد کئی لوگ ایسے ہیں جو بچوں کے ادب کو بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ یقینا اس میدان میں فی الحال کچھ نہیں لیکن جس طرح پاکستان ترقی کی جانب اپنا سفر جاری رکھے گا، بچوں کا ادب بھی ترقی کرے گا کیوں کہ پڑھی لکھی قوم سب سے پہلے اپنے بچوں کی بہتری کا سوچتی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہمارے دانشور حضرات کب اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔