پاکستانی سیاست 2017ء ۔

422

2017ء کا آخری سورج آخ غروب ہو رہا ہے، اس سال بہت سے معاملات تکمیل پذیر ہوئے جب کہ بہت سے ادھورے معاملات یہ 2018 ء کے سپرد کر کے رخصت ہو رہا ہے۔ پچھلے سال عیسوی کا اگر جائز ہ لیا جائے تو یہ بات نمایاں ہو کر سانے آتی ہے کہ پانامہ کا ہنگامہ اس برس سیاسی افق پر چھایا رہا جو دراصل اسے 2016ء سے ورثے میں ملا تھا۔ سابق منصف اعلیٰ جمالی نے اپنے دور میں اس معاملہ میں ہونے والی پیش رفت کو صفر قرار دے کر نئے منصف اعلیٰ نثار کو از سر نو اس معاملہ کے جائزہ اور فیصلہ کا ہدف دیا تھا چنانچہ 2016ء کے آخری روز اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے فوری بعد منصف اعلیٰ نے جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا جس نے چار جنوری سے اس وقت کے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے خلاف مقدمہ کی سماعت کا آغاز کیا… اس ضمن میں تین کیس دائر کئے گئے تھے، سب سے پہلے جماعت اسلامی کے امیر سنیٹر سراج الحق کی جانب سے رجوع کیا گیا تاہم ان کی استدعا میں صرف حکمران شریف خاندان نہیں بلکہ پانامہ لیکس سے سامنے آنے والے ساڑھے چار سو کے قریب تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست عدالت عظمیٰ سے کی گئی تھی بعد ازاں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوام مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کر دیں تاہم ان کا ہدف صرف حکمران شریف خاندان تھا۔عدالت نے ابتدائی طور پر شریف خاندان کے خلاف الزامات ہی کی سماعت کی اور ابتدائی فیصلہ میںدو ججوں نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تاہم تین ججوں نے معاملہ کی مزید گہرائی میں چھان بین کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم دیا۔ شریف خاندان نے اس فیصلے کو اپنی فتح قرار دیا اور ملک بھر میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں تاہم جب عدالت کے اس اکثریتی فیصلے کی روشنی میں ملک کے مختلف تفتیشی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنے کام کا آغاز کیا تو ابتدائی کارروائی کے بعد ہی شریف خاندانوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑنے لگے اور وہ اپنا مقف بدل کر جے آئی ٹی کی مخالفت پر کمربستہ ہو گیا… جے آئی ٹی نے بہرحال مقررہ وقت میں اپنا کام مکمل کر کے تفصیلی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کر دی اس رپورٹ کی روشنی میں عدالت نے معاملے کا مزید جائزہ لیا اور سماعت مکمل ہونے کے بعد 28 جولائی کو بنچ کے ارکان نے اپنا متفقہ فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے کے مطابق محمد نواز شریف ’’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘‘ کمپنی کے تنخواہ دار چیئرمین تھے مگر 2013ء کے عام انتخابات کے کاغذات نامزدگی میں اس بات کو ظاہر نہیں کیا اور جھوٹا بیان حلفی داخل کرایا۔ اس لیے وہ عوامی نمائندگی کے قانون 1976ء کی دفعہ 99 اور دفعہ 62 ۔ اے کے تحت عوامی نمائندگی کے لیے اہل نہیں رہے۔ فیصلے میں عدالت نے نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین ، بیٹی مریم، داماد کیپٹن (ر) صفدر اور سمدھی اسحاق ڈار کے خلاف جے آئی ٹی مواد کی بیناد پر مقدمات نیب عدالت میں چلانے اور چھ ماہ میں کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی۔ اس عدالتی کارروائی کی نگرانی عدالت عظمیٰ کے ایک جج کریں گے…!!!
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف قومی اسمبلی کی رکنیت اور وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے انہوں نے اپنی جگہ شاہد خاقان عباسی کو عبوری اور شہباز شریف کو مستقل وزیر اعظم نامزد کر دیا تاہم بعد ازاں اس فیصلے کو بدل کر اپنی خالی کردہ نشست این اے 120 پر اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو امیدار بنا دیا۔ جس پر انہوں نے کامیابی تو حاصل کر لی مگر اپنی بیماری کے سبب لندن سے پاکستان نہ آ سکنے کے باعث ابھی تک قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہو سکی ہیں اور نہ ہی حلف اٹھایا ہے۔
٭… عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو شریف خاندان اور نواز لیگ نے تسلیم تو کر لیا مگر اس کو متنازع بنانے کے لیے مسلسل عدلیہ اور فوج کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ جس کے باعث میں ملک میں اداروں کے مابین شدید کشیدگی اور تنائو کی کیفیت سال کے آخر تک جاری رہی… !!!
٭… قومی اداروں کو ہدف تنقید بنانے پر دیگر سیاسی جماعتوں کے علاوہ جماعت کے اندر سے بھی نواز شریف کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا… اس ضمن میں سابق وفاقی وزیر وزیر داخلہ چودھری نثار، ریاض پیرزادہ اور دیگر ارکان کے علاوہ خود شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے بھی کھل کر اختلاف کیا… مگر نواز شریف نے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے سے انکار کر دیاعدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف ایک بڑی ریلی کی صورت میں اسلام آباد سے لاہور پہنچے اس ریلی میں اور اس کے بعد مختلف جلسوں میں قومی اداروں خصوصاً عدالتوں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ہر جگہ ان کا یہ اصرار ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کرپشن کا الزام ثابت نہیں ہوا… چنانچہ یہ جملہ ان کا تکیہ کلام بن چکا ہے کہ مجھے کیوں نکالا…؟؟؟
٭… فیصلے کی رو سے نواز شریف اپنی جماعت کی سربراہی کے لیے بھی نا اہل قرار پا گئے تھے چنانچہ انہیں یہ منصب بھی چھوڑنا پڑا تاہم بعد ازاں سینٹ اور قومی اسمبلی سے ترمیم منظور کروا کر انہوں نے دوبارہ یہ منصف سنبھال لیا…!!!
٭… عوامی نمائندگی کے لیے نا اہل فرد کو پارٹی سربراہ بنائے جانے کے حق میں آئینی ترمیم کے دوران ایک نیا سوشا چھوڑا گیا جس کے ذریعے پارلیمنٹ کے کاغذات نامزدگی میں ’’حلفیہ اقرار‘‘کی بجائے صرف ’’اقرار‘‘ کے لفظ کو رہنے دیا گیا یوں قادیانیوں کے لیے مسلمانوں کی نشستوں پر منتخب ہونے کی گنجائش نکال دی گئی جس پر ملک کے تمام دینی حلقوں نے شدید احتجاج کیا جس کے بعد ’’حلفیہ اقرار‘‘ کے الفاظ دوبارہ بحال کر دیئے گئے مگر دینی حلقوں کی طرف سے اس خرابی کے ذمہ دار شخص کے خلاف کارروائی کا مطالبہ شدت سے کیا گیا خصوصاً تحریک لبیک‘‘ نے اس معاملہ پر شدید احتجاج کیا اور فیض آباد راولپنڈی میں طویل دھرنا دے کر اسلام آباد سے رابطہ منقطع کر دیا… مگر حکومت نے ان کا مطالبہ تسلیم کرنے کی بجائے طاقت سے دھرنا ختم کرانا چاہا… یہ کوشش بری طرح ناکام رہی اور احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا اور حکومت فوج کو طلب کرنے پر مجبور ہوئی۔جس کی مداخلت اور ضمانت سے دھرناختم کرانا چاہا۔ یہ کوشش بری طرح ناکام رہی اور احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا اور حکومت فوج کو طلب کرنے پر مجبور ہوئی۔ جس کی مداخلت اور ضمانت سے دھرناقیادت اور حکومت فوج کو طلب کرنے پر مجبور ہوئی۔ جس کی مداخلت اور ضمانت سے دھرنا قیادت اور حکومت کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس کی روشنی میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے استعفیٰ دے دیا اور مظاہرین نے دھرنا ختم اور حکومت نے گرفتار شدگان کو رہا کر دیا تاہم معاہدے کی دیگر شقوںپر عمل درآمد تاحال باقی ہے…!!!
٭…ختم نبوت ہی کے مسئلے پر خود حکمران جماعت کے اندر بھی پھوٹ دیکھنے میں آئی اور بہت سے ارکان اور پارٹی قائدین نے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا اس گروپ کی قیادت خواجہ حمید الدین سیالوی کر رہے ہیں اور ان کی ہدایت پر پارٹی کے نصف درجن ارکان قومی و پنجاب اسمبلی اپنے استعفے پیش کر چکے ہیں مگر حکومت رانا ثناء اللہ کو فارغ کرنے پر تیار نہیں ہوئی جس پر اب اس گروپ نے خود وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ پیش کر دیا ہے…!!!
٭…حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس سال مسجد و مدرسہ اصلاحات متعارف کرائیں اور مساجد میں اذان کے علاوہ بیرون لائوڈ اسپیکرز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی اور اس قانون کی خلاف ورزی پر مقدمات بنائے اور گرفتاریاں بھی کیں جس سے اہلسنت خصوصاً بریلوی مکتب فکر زیادہ متاثر ہوا جو ممتاز قادری کو پھانسی دیئے جانے کے مسئلہ پر پہلے ہی حکومت سے سخت نالاں تھا… حکومت کی تازہ کارروائی سے اس طبقہ کی ناراضگی اور غصہ میں سخت اضافہ ہو گیا… چنانچہ ان کی طرف سے اپنے ملک کی بنیاد پر ’’تحریک لبیک‘‘ قائم کر کے اسے الیکشن کمیشن میں رجسٹر بھی کرا لیا گیا اور اس نے این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں اپنا امیدوار بھی کھڑا کیا اور فیض آباد دھرنا دے کر اپنی قوت کا بھر پور اظہار کیا…!!!
٭… سال کے اوائل ہی میں امریکہ کی جانب سے جماعۃالدعوۃ پر پابندی کے لیے شدید دبائو کے بعد حکومت نے حافظ محمد سعید کو گھر میں نظر بند کر دیا جس پر سیاسی خصوصاً دینی سیاسی جماعتوں نے سخت تنقید کی اور ملک بھر میں اس نظر بندی کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا… حکومت نے یہ کارروائی چونکہ پانچ فروری سے محض چند دن قبل کی تھی اس لیے ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ پر جہاں ملک کے طول و عرض میں اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے مظالم کی مذمت کی وہیں پاکستانی حکومت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا… حافظ سعید کی نظر بندی کا کوئی جواز پیش نہ کر سکنے کے باعث سال بھر کی نظر بندی کے بعد آخر کار عدالت کے حکم پر انہیں رہا کرنے پر مجبور ہو گئی…!!!
٭… حکومت کی جانب سے بار بار کی کارروائیوں کے بعد جماعۃ الدعوۃ نے ملک کی عملی اور انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا چنانچہ ’’ملی مسلم لیگ‘‘ کے نام سے الگ سیاسی جماعت قائم کی گئی جس نے اپنا حمایت یافتہ امیدوار این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں میدان میں اتارا اور بھر پور انداز میں اپنی سیاسی تنظیم کو متعارف کرایا تاہم الیکشن کمیشن نے حکومت کے اعتراض پر اس ملی مسلم لیگ کو سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کرنے سے انکار کر دیا جس کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا گیا ہے اور جماعت کی رجسٹریشن کے لیے عدالتی جنگ جاری ہے… تاہم ملی مسلم لیگ خود کو تیزی سے منتظم کر رہی ہے اور نظر بندی سے رہائی کے بعد حافظ محمد سعید بھی اس کام میں باقاعدہ شریک ہو گئے ہیں اور انہوں نے لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 کے دورے بھی کئے ہیں اور وہاں کئی ایک پارٹی دفاتر کا افتتاح بھی کیا ہے…!!!
٭… جماعت اسلامی نے بھی سال بھر اپنی تنظیم کو مضبوط بنانے اور کارکنوں کی تربیت کے ساتھ نوجوانوں میں کام کو بڑھانے پر خصوصی توجہ دی اور ملک بھر میں ’’ جماعت اسلامی یوتھ‘‘ کی تنظیم سازی کی گئی اور جگہ جگہ نوجوانوں کے تنظیمی انتخابات کروا کر انہیں متحرک کیا گیا۔ اس طرح جماعت نے تمام اہم قومی و ملی مسائل پر اپنا بھر پور کردار ادا کیا سال کے پہلے ہی دن یکم جنوری کو شام اور برما کے مسلمانوں کے حق میں سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں فقید المثال ’’امت رسولؐ مارچ‘‘ کا اہتمام کیا جس کے ذریعے شام اور برما کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کا عزم کیا گیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، مسلم ممالک کی الگ عالمی تنظیم، مشترکہ معاشی منڈی کے قیام اور مشترکہ فوج کی تشکیل پر زور دیا گیا… لاہور سے اسلام آباد تک احتساب مارچ کے ذریعے صرف ایک خاندان نہیں بلکہ تمام بدعنوان عناصر کے کڑے احتساب کا مطالبہ کیا گیا… اسلام آباد میں ’’حقوق قبائل کنونشن میں فاٹا کو صوبہ خیبر میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا اس مقصد کے لیے پشاور سے اسلام آباد تک ریلی بھی نکالی گئی… اور مطالبہ تسلیم نہ کئے جانے کی صورت میں اسلام آباد میں زبردست دھرنا دیئے کا اعلان بھی کیا گیا… امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی دار الحکومت تسلیم کئے جانے کے خلاف امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کے لیے ملک بھر میں یوم احتجاج منایا گیا اور کراچی میں زبردست ’’ملین مارچ‘‘ کیا گیا…!!!
2017ء میں دینی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی کئی سال بعد دوبارہ بحال ہے۔ اس دینی سیاسی اتحاد نے 2002ء کے عام انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی اور جنرل پرویز مشرف کی سیکولر اور امریکہ نواز پالیسیوں کی مزاحمت کے حوالے سے ملک کے عوام کے جذبات کی بھر پور نمائندگی کی تھی مگر یہ اتحاد چند سال سے زیادہ نہ چل سکا اور 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں یہ وجود کھو چکا تھا تاہم 2017ء میں اس کی ضرورت از سر نو محسوس کی گئی اور جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اس اتحاد کی بحالی کے لیے سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین اور اپنی جماعت کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کو متحرک کیا جن کی ملاقاتوںکے بعد اسلام آباداور منصورہ لاہور میں ابتدائی اجلاسوں کے بعد بارہ دسمبر کو کراچی میں منعقدہ اجلاس میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا… مجلس عمل کی بحالی کی ابتدائی کوششوں میں مولانا سمیع الحق اور ان کی جمعیت علماء اسلام بھی شریک رہی مگر کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے وہ عمران خاں کی محبت میں مبتلا ہو گئے اور تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ ایم ایم اے کے قائدین نے انہیں واپس لانے کے لیے ملاقاتوں کا عزم ظاہر کیا ہے تاہم ان کی ایم ایم اے میں شمولیت اب مشکل ہی دکھائی دیتی ہے۔ یوں بحال ہونے والی متحدہ مجلس عمل اب جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت اہلحدیث اور اسلامی تحریک پر مشتمل ہے نئی تشکیل پانے والی دینی سیاسی جماعتوں تحریک لبیک اور ملی مسلم لیگ کو اس پرانے دینی سیاسی اتحاد میں شامل کرنے کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی کیونکہ اس کے لیے کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ متحدہ مجلس عمل نے طے کیا گیا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات تمام جماعتیں مل کر ’’کتاب‘‘ کے انتخابی نشان پر پڑیں گی جب کہ اتحاد میں شامل جماعتیں حکومتی اتحادیوں سے ایک ماہ کے اندر الگ ہو جائیں گی…!!!
٭… ایم کیو ایم لندن و پاکستان گروپوں اور مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی میں تقسیم کے بعد اپنے انتخابی حلقہ میں اس سال کے دوران خاصی کمزور ہوئی اس کمزوری کے ازالہ کے لیے ان کے سرپرستوں نے مصطفی کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار میں ملاقات کا اہتمام کیا جس میں دونوں نے آئندہ انتخابات ایک پلیٹ فارم اور ایک پرچم تلے لڑنے کا اعلان کیا مگر ان کی تقریروں کی گونج ابھی فضا میں موجود تھی کہ پہلے ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی میں شدید اندرونی رد عمل کے پیش نظر اس اعلان اتحاد سے لاتعلقی اور متحدہ قومی کی بجائے پھر سے مہاجر قومیت کی سیاست کا پرچم تھامنے کا اعلان کر دیا اس موقع پر انہوں نے سیاسی سے علیحدگی کا بھی اعلان کیا مگر پھر فوری طور پر کارکنوں کے دبائو اور ماں کے ’’حکم‘‘پر یہ اعلان واپس لے لیا… فاروق ستار کے بعد مصطفی کمال نے بھی پریس کانفرنس میں ملاقات کا بھانڈہ بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا، ڈھکی چھپی بہت سی باتیں سر عام کہہ دیں اور یہ تک بتا دیا کہ ملاقات ’’کن سرپرستوں‘‘ کی ہدایت اور حکم پر کی گئی تھی…!!!
٭… پیپلز پارٹی نے اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے اس سال ’’مفاہمت کی سیاست‘‘ کی پالیسی کو ترک کر کے جارحانہ سیاست کی کوشش کی پالیسی کو ترک کر کے جارحانہ سیاست کی کوشش کی اور پنجاب پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں بار بار ڈیرہ جمانے کی کوشش کی تاہم کوئی قابل ذکر کامیابی وہ اور ان کے والد آصف علی زرداری تاحال حاصل نہیں کر سکے… البتہ ان کی کوششیں جاری ہیں اور وہ 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے لیے حکمران نواز لیگ اور تحریک انصاف دونوں کو بیک وقت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں… اور اپنے اسٹیبلشمنٹ کے مخالف کی بجائے حامی ہونے کے کردار نمایاں کرنے کے لیے کوشاں ہیں…!!!
٭… 2017ء کے دوران ’’فاٹا‘‘ کو صوبہ خیبر میں شامل کرنے کا مسئلہ بھی سیاسی محاذ پر نمایاں رہا۔ جمعیت علماء اسلام (ف) اور محمود اچکزئی کے سوا حزب اقتدار اور اختلاف کی تمام جماعتیں ’’فاٹا‘‘ کی صوبہ خیبر میں شمولیت کی حامی ہیں حکومت نے اس ضمن میں جو ’’سرتاج عزیز کمیشن‘‘ بنایا تھا اس نے بھی یہی سفارش کی ہے اور حکومت نے اس ضمن میں مسودہ قانون قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا مگر عین وقت پر یہ مسودہ روک لیا جس پر حزب اختلاف کی طرف سے زبردست احتجاج اور کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا مگر حکومت بار بار یقین دہانی کے باوجود ابھی تک اس جانب پیش رفت سے گریزاں ہے۔
٭… احتساب کے ضمن میں عدالت عظمیٰ کا ایک اور اہم فیصلہ بھی اس سال کے آخر میں سامنے آیا جس کے ذریعے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے خلاف دائر رٹ کو نمٹا دیا گیا اور عمران خاں کے خلاف الزامات درست نہ ہونے کے باعث ان کی نا اہلی کی درخواست مسترد کر دی گئی جب کہ جہانگیر ترین کو اثاثے چھپانے، 50 کروڑ روپے باہر بھجوانے اور آف شور کمپنی کے الزامات ثابت ہونے پر قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا… جو یقینا تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے…!!!
٭… کرپشن کے لیے بدنام کردار پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری احتساب کے اس پر شور ماحول میں پاک صاف قرار پا گئے اور عدالت نے غیر قانونی اثاثے بنانے کے ریفرنس میں بھی اگست میں انہیں بری کر دیا۔ جب کہ دیگر تمام ریفرنسوں میں وہ پہلے ہی بے گناہ قرار دیے جا چکے تھے…!!!