نئی مذہبی سیاسی جماعتیں کیوں؟

437

سید اقبال چشتی
پا کستان کی سیاست میں 2017 کا سال کافی ہنگامہ خیز رہا۔ جہاں پاناما کا شور ہوا تو اسی شور میں منتخب وزیراعظم ایک بار پھر اپنی مدت پوری نہ کر سکے اور نااہل قرار دے دیے گئے۔ اس نا اہلی پر جہاں بہت زیادہ تبصرے ہوئے وہاں یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کو ممتاز قادری کی پھانسی نے نا اہل قرار دیا ہے کیونکہ اب تک بہت سے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں جن میں بلدیہ فیکٹری میں 250 سے زائد افراد کو زندہ جلانے والوں کو نواز شریف نے سزا نہیں دلوائی بلکہ ان کا تحفظ گیا گیا۔ اسی طرح بے شمار قاتل اب بھی حکومتوں کی چھتری تلے پل رہے ہیں مگر ممتاز قادری کو پھانسی دے کر حکومت نے اپنے لیے خود مشکلات پیدا کیں۔
ممتاز قادری کی برسی پر تحریک لبیک یا رسو ل اللہ کے نام سے تنظیم قائم ہوئی اور نواز شریف کی نا اہلی کے بعد NA-120 میں اس نو وارد مذہبی جماعت نے اس حلقے سے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا اور سات ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور پھر پشاور کے حلقے NA-4 سے دس ہزار ووٹ لے کر نہ صرف سیاسی جماعتوں میں ہلچل پیدا کردی بلکہ تجزیہ کاروں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ بریلوی مکتب فکر کا ووٹ‘ جو اب تک مسلم لیگ ن کا ووٹ تھا‘ وہ کس طرح ایک الگ حیثیت میں اتنے زیادہ ووٹ حاصل کر سکتا ہے جبکہ کئی دہائیوں سے الیکشن میں حصہ لینے والی دیگر مذہبی جماعتیں تین اور چار ہزار ووٹ بھی حاصل نہ کر سکیں۔
ابھی عقل اور سوچ کی پرتیں کھلنے بھی نہ پائی تھیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ کیسے ہو گیا ؟ کوئی ان کے پیچھے ہے یا پھر واقعی بریلوی مکتب فکر کے لوگ نئی قیادت کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو چکے ہیں؟ حکومت کی طرف سے ختمِ نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی نے نووارد مذہبی جماعت کو ملک بھر میں مقبولیت کا خود ہی موقع فراہم کردیا اور تحریک لبیک رسول اللہ کے کارکنان اپنے قائد خادم حسین رضوی کی قیادت میں فیض آباد کے مقام پر تین ہفتوں تک دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور اپنے مطالبات منظور کروانے کے بعد دھرنا ختم کیا۔ اس دھرنے کے آغاز سے اختتام تک کئی سوالات نے جنم لیا اور ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں اور تجزیہ کاروں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس جماعت اور دھرنے کے پیچھے کوئی پوشیدہ قوت کار فرما ہے‘ اس دھرنے کے پیچھے کون ہے ‘ہم اس بات کا جائزہ آگے چل کر لیں گے کہ اس نئی تنظیم کا خالق کون ہے اور اس کو قائم کرنے کے کیا مقاصد ہیں اور آئندہ اس تنظیم سے کیا کام لیا جا سکتا ہے کیونکہ اچانک ایک تنظیم کا وجود اور پھر سیاست میں ہلچل مچا دینا کسی اور ہی طرف اشارہ دے رہی ہے۔
اسی طرح جو جماعت کل تک جمہوریت کو ’’حرام‘‘ قرار دیتی تھی اور اپنی فلاحی اور سیاسی سرگرمیاں جماعت الدعوۃ کے نام سے کرتی تھی اچانک سیاست کے میدان میں ملی مسلم لیگ کے نام سے آنے کا اعلان کرتی ہے اور لاہور سے اپنے امیدوار کھڑا بھی کرتی ہے اور یہ نئی سیاسی جماعت بھی دیگر مذہبی جماعتوں کے مقا بلے میں تقریباً چھہ ہزار ووٹ لے جاتی ہے۔ سیاست کے میدان میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ان دو نئی سیاسی مذہبی جماعتوں کی ضمنی انتخابات میں متاثر کن کارکردگی کو دیکھتے ہو ئے سیاسی تجزیہ کار سر پکڑے بیٹھے ہیں کہیں تو کیا کہیں اس لیے کہ سچ معلوم ہونے کے بعد بھی ان کے اندر دو ٹوک تجزیہ کر نے کی ہمت نہیں ہے لیکن پاکستان سے باہر بیٹھے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست اور معاشرے میں مذہبی شدت پسندی تو پروان چڑھے گی لیکن جنرل الیکشن کے سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکیں گی کیونکہ اس طرح کی تنظیمیں مسند اقتدار پر بٹھانے کے لیے وجود میں نہیںلائی گئی ہیں بلکہ یہ سارے کام ’’کمپنی کی مشہوری‘‘ کے لیے ہیں اس لیے کہ حالات اور واقعات کو وقت پر استعمال کرنا عالمی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کو بہت اچھی طرح آتا ہے جہاں ایک تیر سے کئی شکار کیے جاتے ہوں۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ یہ تنظیمیں مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو‘ جس کی اکثریت بریلوی اور اہلِ حدیث مکتب فکر سے ہے‘ ان تنظیموں کے ذریعے کاٹنے کی کو شش کی جائے گی۔ لیکن ایسا ہو تا ہوا نظر نہیں آرہا کیونکہ کار کردگی کے لحاظ سے صو بہ پنجاب سب سے آگے ہے اور کار کردگی کی بنیاد پر مسلم لیگ ن کو شکست دینا شاید ممکن نہ ہو۔
اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ مذہب کے نام پر تنظیمیں بنائیں اور مذہب کو استعمال کیا لیکن مذہبی تنظیموں سے تمام تر فوائد سمیٹنے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے باوجود کسی بھی مذہبی جماعت کو مسند اقتدار پر نہیں بٹھایا۔ دیو بندی مکتب فکر کی گود سے طالبان کا وجود اور افغانستان کی جنگ میں مذہبی جوش و خروش کو استعمال کیا گیا۔ کشمیر میں حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کا وجود اس بات کی غماضی ہے کہ جنگ کی آگ کا ایندھن بننے کے لیے مذہبی جوش و جذبہ ابھار کر انہیں جہاں چاہو جیسے چاہو استعمال کر لو اور اگر یہ کام پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نہ بھی کرے تو عالمی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے کارندے اتنی خوب صورتی سے کرتے ہیں کہ کئی سال بعد منظر نامہ واضح ہونے کے بعد بھی کسی کو کچھ نظر نہیں آتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے… بس نظر آتا ہے تو یہ کہ ’’اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اُٹھا‘ تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں ۔‘‘
عالم اسلام کو کس طرح کمزور کرنا اور کس طرح انہی کے اندر سے لوگوں کو اُٹھانے اور آپس میں لڑانے کی چالیں چلنا ہے‘ اسلام دشمن ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر یہ کام کر رہے ہیں۔ امریکا میں سی آئی اے، مو ساد اور را نے مشترکہ طور پر ایک ریسرچ سینٹر قائم کر رکھا ہے جو پوری دنیا میں مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے اور مذ ہبی منافرت کے لیے حکمت عملی طے کرتا ہے اور سرمایہ فراہم کرتا ہے اور پھر اپنے مقاصد کے لیے وقت آنے پر استعمال کیا جاتا ہے۔
1975 میں ایران عراق جنگ کے مو قع پرعراقی سفیر کا پاکستان میں دیو بند مکتب فکر کے سب سے بڑے رہنما سے ملاقات کرنا اور پھر پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کا ہونا اور کر فیو تک لگ جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح عالمی اسٹیبلشمنٹ نے کہاں کہاں اور کس کس محاذ پر مذہب کو استعمال کیا اور تازہ دم جوش اور ولولے سے بھرپور خون اپنی اقتدار کی جنگ میں جھونک دیا اور یہاں کچا مدرسہ قلعہ میں تبدیل ہو گیا۔ جس طرح قیام پاکستان سے قبل جنگ عظیم دوم میں تاج برطانیہ کے لیے اس سرزمین کے چوہدریوں، خانوں اور وڈیروں نے نوجوانوں کو بھرتی کرا کے جنگ کا ایندھن بنایا اور پھر یہی خان‘ وڈیرے اور چوہدری سرما یہ دار پاکستان پر کالے انگریز بن کر قابض ہو گئے اور آج تک اپنے آقائوں کے حکم کے مطابق حکمرانی کر رہے ہیں اور اپنے سرمایہ کے ذریعے ہر الیکشن اپنے نام کر لیتے ہیں۔
یہ سر مایہ ہی کا کھیل ہے کہ ہمارا مذہبی اور سیاسی طبقہ جلد کامیابی کے حصول کے لیے ایسے ذرائع کی طرف دیکھنے لگتا ہے جس سے وقتی کامیابی تو ملتی ہے لیکن ان کو معلوم بھی نہیں چلتا کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا۔ اس لیے 2017 میں نئی مذہبی جماعتوں کا ظہور اچانک نہیں ہوا‘ یہاں بھی عالمی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو تصویر واضح نظر آئے گی کہ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے اور کون آئندہ استعمال ہوگا مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورت حال میں ایران اور سعودی عرب کی آپس میں سیاسی اجارہ داری کے لیے جدوجہد جاری ہے اور دونوں ممالک مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے بجائے طاقت کے استعمال پر غور کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کا اپنے دفاع کے لیے اسلامی فوج کا قیام عمل میں لانا اور پھر خدا نخواستہ جنگ کی صورت میں سعودی معاشرہ جس 180 ڈگری پر جا رہا ہے اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ ایران اور سعودی عرب جنگ سر پر کھڑی ہے کیونکہ ان کے اندر مذہب سے دوری اور بے انتہا عیاشیوں کے دلدادہ ہو نے کی وجہ سے لڑنے کی صلاحیت ناپید ہو چکی ہے اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ پاکستان سے ایک بار پھر مذہبی جوش پروان چڑھا کر نوجوانوں کو مختلف عنوانات اور نعروں کے تحت جنگ کا ایندھن بنایا جائے گا اسی لیے شاید سیاسی چالیں چلنے والوں نے کچھ نئی جماعتوں کو اپنے لیے متعارف کرایا ہے جس کا مقصد پاکستان میں اقتدار کی مسند نہیں بلکہ سیاسی اُفق پر کسی اور مسند پرچڑھائے جائیں گے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو اب تک دینی جماعتوں کی کارکردگی کوئی قابل ذکر نہیں رہی بلکہ تمام دینی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایم ایم اے کے نام سے ایک ہو گئی تھیں پھر بھی مسندِ اقتدار تک نہ پہنچ سکی تھیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نووارد مذہبی تنظیمیں کوئی قابل قدر کامیابی حاصل کر سکیں گی ۔