۔2017ء کی جامعہ کراچی

447

قدسیہ ملک
2017ء کا سال غروب ہونے کو ہے۔ کل تمام عالم 2018ء کو طلوع ہوتے دیکھے گا۔ 2017ء کئی چیزوں کے آغاز اور کچھ کے اختتام کا سال رہا۔ اس سال نظام شمسی میں بھی کچھ نئے سیارے دریافت ہوئے۔ جہاں سائنس کی دنیا میں انقلابات آئے وہیں بین الاقوامی صورتِ حال بھی تیزی سے تبدیل ہوتی نظر آئی۔ ممالک کے آپس کے سفارتی معاملات ہوں یا آج تک نوآبادیاتی ممالک کی اپنے آقاؤں سے وفاداری کی داستانیں… سب ایک کلک کے ذریعے عوام الناس کے درمیان اپنی جگہ بناگئیں۔ آخری خبریں آنے تک گوئٹے مالا جیسا چھوٹا ملک امریکی و اسرائیلی آشیرواد حاصل کرنے کو اس قدر بے تاب ہوا کہ اس نے یروشلم میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کا اعلان کردیا۔ امریکی اعلان کے بعد جہاں بین الاقوامی صورتِ حال تبدیل ہوئی، وہیں مسلم ممالک میں سرفہرست پاکستان کی اندرونی صورتِ حال پر بھی اثر پڑا۔
جیسا کہ ہم سب اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ ملکی صورتِ حال کا براہِ راست اثر کراچی پر پڑتا ہے۔ کراچی جو روشنیوں کے شہر اور غریبوں کی ماں کے لقب سے مشہور ہے، دشمنِ وطن کی شہر کو مفلوج کرنے کی ہر پالیسی اپنائے جانے کے باوجود یہاں کی گلیاں، چوراہے، چوبارے غریبوں کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ میٹروپولیٹن شہر ہونے کے باعث مختلف صوبوں، ذاتوں، قبیلوں اور قومیتوں کے لوگ یہاں آباد ہونا اور نوکری و تعلیم حاصل کرنا فخر سمجھتے ہیں۔ کراچی آج بھی ملکی سیاست، معیشت، معاشرت، صنعت و ثقافت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ حالیہ بین الاقوامی اردو کانفرنس اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کراچی کا ذکر ہو اور ہماری جامعہ کی بات نہ ہو، اس سے بڑی زیادتی کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ تو آئیے ہم آپ کو جامعہ کراچی کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔
جامعہ کراچی کا قیام 1951ء میں عمل میں آیا۔ 1960ء میں یہ جامعہ موجودہ جگہ منتقل کردی گئی۔ اس سے پہلے یہ شہر کے ایک گنجان آبادی والے علاقے میں محض چند عمارتوں میں قائم کی گئی تھی۔ رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے یہ جامعہ، کراچی کی سب سے بڑی اور پاکستان کی اہم یونیورسٹیوں میں شمار کی جانے لگی۔ اس وقت جامعہ میں کلیہ علم و فنون، سماجی علوم، سائنس، انجینئرنگ، معارفِ اسلامیہ، نظمیات اور علومِ ادویہ کے تحت 62 شعبہ جات اور 19 سے زیادہ تحقیقی ادارے و مطالعاتی مراکز قائم ہیں۔ جامعہ کراچی میں اس وقت چوبیس ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں بیرونی ممالک سے آئے ہوئے طالب علم بھی شامل ہیں۔ طالب علموں کی سہولیات میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جہاں ہم نصابی سرگرمیوں، لائبریری و فیس میں رعایت کا ذکر کیا جاتا ہے وہیں ٹرانسپورٹ کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام سہولیات کو استعمال کرنے والے طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ انہیں کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ شیخ الجامعہ ڈاکٹر اجمل خان نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی طلبہ کی ضرورت کے تحت ایک روٹ یعنی گلشن معمار پوائنٹ کا اضافہ تو کردیا لیکن روزانہ 3 سے 4 روٹ کی بسیں چھٹی کر جاتی ہیں۔ چوبیس ہزار طالب علموں کے لیے صرف 26 بسیں روٹ پر چلائی جاتی ہیں۔ موجودہ چیئرمین ٹرانسپورٹ ڈاکٹر شاہ علی القدر نے چارج سنبھالتے ہی شعبہ ٹرانسپورٹ میں مؤثر اقدامات تو کیے ہیں لیکن اب بھی ہزاروں طلبہ جدید اور بہترین سہولیات کے منتظر ہیں۔ بعض اوقات جامعہ کے اندر چلنے والے رکشہ کے من مانے بوجھ کو مستقبل کے یہ معمار برداشت نہیں کرپاتے۔ 2018ء میں امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر شاہ مزید بہترین اقدامات کے ذریعے جامعہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی صورتِ حال کو بہتر بنائیں گے۔اب آتے ہیں جامعہ کے طلبہ کی پسندیدہ جگہ یعنی کیفے ٹیریا کی جانب۔ جامعہ کے طلبہ سال کے آغاز سے ہی کیفے ٹیریا کے مہنگے کھانوں سے پریشان نظر آئے۔ جب سے کیفے ٹیریا ڈی ایم سی کیفے ٹیریا بنا ہے، قیمتوں میں اضافے کے ساتھ معیار میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ لائبریری اور کیفے ٹیریا کے درمیان گٹر لائن توڑ کر وہاں سے طلبہ کی آمدورفت کو بھی روک دیا گیا ہے۔ کیفے ٹیریا کے موجودہ مالک سلیم آرائیں کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ اب کیفے ٹیریا سے زیادہ رش پی جی اور شعبۂ کیمسٹری کی کینٹین پر دیکھا جاتا ہے۔ 2018ء میں توقع کی جارہی ہے کہ کیفے ٹیریا واپس اپنی اصل حالت میں آجائے گا۔اس سال جامعہ کراچی کا آن لائن سسٹم متعارف کروایا گیا۔ آن لائن داخلوں میں جہاں طلبہ پریشان نظر آئے، وہیں انتظامیہ تاحال اپنی کارکردگی سے مطمئن نظر آئی۔ آن لائن داخلوں کے لیے جاری کیا گیا ایڈریس uokadmission.edu.pk ڈائون ہوگیا، جس کی وجہ سے انٹرنل سرور ایرر آتا رہا۔ ذرائع سے اس بات کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ آن لائن پورٹل بنانے والی کمپنی pksol.com پاکستان میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔ من پسند افراد کو ٹھیکے دینے سے جہاں طلبہ داخلے کے سلسلے میں مشکلات کا شکار ہوئے وہیں A + گریڈ حاصل کرنے والے طلبہ بھی اپنے من پسند شعبوں میں داخلہ نہ لے سکے۔ امید کی جاتی ہے کہ اگلے سال سے آن لائن داخلوں کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
اس سال جامعہ سے متعلق اہم واقعہ یہ ہوا کہ خواجہ اظہارالحسن پر حملے کے بعد جامعہ کو بدنام کرنے اور اس کا تعلق دہشت گرد تنظیم ’’انصارالشریعہ‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ اسی دوران جامعہ سے اسلامک لرننگ کے پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل اور اپلائیڈ کیمسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض کو نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے اور ناکافی اطلاعات ہونے کے باعث پوچھ گچھ کرکے چھوڑ دیا۔ علم سیاسیات کے ایک بلوچ طالب علم حامد کو بھی سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد اپنے ساتھ لے گئے جو ابھی تک لاپتا ہے۔ اسی ضمن میں طلبہ نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ سادہ لباس میں مشکوک اسلحہ بردار نظر آئے، جس پر انتظامیہ کو اطلاع دی گئی لیکن کوئی منتظم حرکت میں نہ آیا۔ طلبہ سے سیکورٹی کلیئرنس کے معاملے میں شیخ الجامعہ کا فیصلہ بھی مشکوک تھا، تاہم چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی، صحافیوں اور طلبہ وطالبات کی نمائندہ تنظیموں بالخصوص جمعیت کی کوششوں سے اس کو قانون کا درجہ نہ دیا جا سکا۔بعدازاں طلبہ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے شیخ الجامعہ کا ’’ہفتۂ طلبہ‘‘ کا اعلان لائقِ تحسین تھا جس میں نمائندہ طلبہ تنظیموں، غیر تدریسی عملے اور طلبہ و طالبات نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاں کچھ نمائندہ تنظیموں نے ناچ گانے، ہلڑبازی اور شور شرابے کے ذریعے طلبہ میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی، وہیں اسلامی جمعیت طلبہ نے باذوق شاعری، نیلام گھر، بک فیئر، مباحثہ، تقریری مقابلوں اور طلبہ عدالت سے طلبہ کے دل جیت لیے، طلبہ کے مسائل وہاں موجود مشیر امورِ طلبہ تک پہنچائے، جن کا فوری نوٹس لیا گیا۔ ٹیلنٹ ایوارڈ میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے شعبوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والے طلبہ و طالبات کو اعزازی شیلڈز اور میڈلز دیئے گئے۔ کتب میلے میں جمعیت کے ترانے بھی لگائے گئے جو موقع کی مناسبت سے شاندار تھے
جامعہ میں آؤ دیکھو کتاب میلہ
ذہنوں کو جگمگاؤ دیکھو کتاب میلہ
طلبہ کو متحرک رکھنے کے لیے مختلف شعبہ جات میں جمعیت کے تحت اسٹڈی ٹور کروائے گئے جن میں ارضیات اور شعبہ ریاضی شامل ہیں۔ مختلف مواقع پر مختلف شعبہ مثلاً شعبہ ابلاغ عامہ، ریاضی، معاشیات میں مختلف سیمیناروں کے ذریعے طلبہ کو جدید تعلیم اور ماہرینِ شعبہ جات کے ذریعے صحیح مقصدِ تعلیم سے روشناس کروایا گیا۔ جشنِ آزادی اسپورٹس ویک، کرکٹ فیسٹول کا انعقاد، جس میں کرکٹ کے علاوہ رسّا کشی کے مقابلے بھی ہوئے۔ فیسوں میں اضافے کے خلاف جمعیت کے تحت ایڈمن بلاک پر مظاہرہ کیا گیا۔ قرآن کی دعوت کے لیے دعوۃ مہم اور برما کے مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مظاہرے بھی ہوئے۔ جامعہ کراچی کے تحت شعبہ اردو میں سرسید کے دو سو سالہ جشن پیدائش پر 3 روزہ بین الاقوامی اردو کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں بہت سے ممالک کے مندوبین نے حصہ لیا اور سرسید کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ لیکن سرسید نے اردو کے لیے کیا خدمات انجام دیں، یا یہ کانفرنس شعبہ اردو میں رکھنے کا کیا مقصد تھا، یہ واضح نہ ہوسکا۔
سی پیک منصوبے سے طلبہ کی آگہی کے لیے آرٹس آڈیٹوریم میں سی پیک سیمینار منعقد ہوا جس میں ایک ہزار کے قریب طلبہ شریک ہوئے۔ طلبہ کے حقوق کے حصول کے لیے طلبہ مہم بھی چلائی گئی جس کے باعث طلبہ یونین کے قیام کا مطالبہ مزید زور پکڑ گیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں طلبہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور سماجی سیاسیات سے انہیں روشناس کروانے کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ یونین کے ذریعے سیاسی شعور بیدار کیا جاتا ہے، لیکن ترقی پذیر ممالک ہر شعبے میں اپنے آقا کی غلامی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہمارے بڑوں میں سیاسی شعور انہی طلبہ تنظیموں کی مرہونِ منت ہے۔ لیکن موجودہ طالب علموں میں سیاسی شعور تقریباً مقفود ہوچکا ہے، جس کا اہم سبب طلبہ یونین کی کمی ہے۔ ہمارے اساتذہ بتاتے ہیں کہ مختلف طلبہ تنظیموں کے نمائندے ایک ہی ہوٹل میں ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور پھر مباحثوں میں بھی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرتے۔ لیکن یہ سب چیزیں ایک سازش کے تحت مستقبل کے معماروں سے چھین لی گئیں۔ مستقبل قریب میں امید کی جاتی ہے کہ طلبہ سرگرمیوں اور سیاسی شعور کو زندہ رکھنے کے لیے دوبارہ طلبہ یونین کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔
اس کے علاوہ شعبۂ ماحولیات کے ڈاکٹر شاہد شوکت کو نیماٹولوجی کے میدان میں دنیا میں چھٹا نمبر حاصل ہوگیا۔ ڈاکٹر شاہد شوکت کے تحقیقی مقالوں کے اب تک 439 جرنلز شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے شائع شدہ جرنلز کو 3303 حوالے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے، جس کے سبب ڈاکٹر شاہد دنیا کے چھٹے نمبر کے نیماٹولوجسٹ بن گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کو حوالہ بناکر زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا جارہا ہے جو پاکستان کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں۔
اس کے علاوہ کچھ اہم باتیں انتظامیہ کی نااہلی کے ضمن میں، جو سب طلبہ کی بنیادی سہولیات کے ذیل میں آتی ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ فیس جمع کروانے کا ہے۔ جامعہ کراچی کے طلبہ آج بھی لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر فیسیں جمع کروانے پر مجبور ہیں۔ طلبہ کے لیے تاحال آن لائن سسٹم متعارف نہیں کروایا جاسکا۔ اس کے علاوہ تدریسی عملے کی غیر حاضری و تعطل کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ شعبۂ بائیوٹیکنالوجی میں تدریسی عمل مزید تنزلی کا شکار نظر آیا۔ اخبار جامعہ کے مطابق تدریسی عملے کی مسلسل غیر حاضری سے تعطیل کا سماں لگتا ہے۔ حالیہ دنوں تصاویر کو جواز بناکر 5000 ڈگریاں روک لی گئیں۔ اخبار جامعہ کے مطابق رجسٹرار جامعہ کراچی ڈاکٹر منور رشید ذاتی مصروفیات کی بناء پر ڈگریوں پر دستخط کرنے سے قاصر تھے۔ اب وہ اس تاخیر کو تصویروں سے جوڑ رہے ہیں، حالانکہ انرولمنٹ کارڈ میں تصویر ہونے کے باعث دستاویز میں تصویر ضروری تصور نہیں کی جاتی۔ اس کے علاوہ ایچ ای سی کی جانب سے جامعہ کو سیکورٹی کی مد میں دیئے گئے 5 کروڑ 56 لاکھ روپے سے اب تک صرف 46 سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ اخبار جامعہ کے مطابق باقی پیسوں کے اخراجات کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ اخبار جامعہ کی جانب سے جب کیمپس سیکورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر محمد زبیر سے تفصیلات پوچھی گئیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہ فنڈ سابقہ کیمپس سیکورٹی ایڈوائزر کے دور میں جاری ہوا تھا لہٰذا ان کے پاس اس کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔ اس کے علاوہ اکیڈمک کونسل کا اجلاس، سینڈیکیٹ کا اجلاس، ٹیچرز یونین کے الیکشن، ایمپلائز یونین کے الیکشن اور ایمپلائز کی ہڑتال اس سال کے اہم واقعات میں شامل ہیں۔
ملکی صورتِ حال کی طرح جامعہ کراچی کی بنتی بگڑتی صورتِ حال مقتدر حلقوں میں بہت سے سوالات چھوڑ گئی ہے۔ جس طرح ملک میں ہرآنے والی حکومت سابقہ حکومت پر الزامات لگا کر وسائل سمیٹنے میں مصروف ہوجاتی ہے بالکل اسی طرح یہ سرکاری ادارہ بھی حکومت کی غلط پالیسیوں اور اختیارات کے من مانے استعمال سے الگ ہی نقشہ پیش کرتا نظر آتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ طلبہ و طالبات کو مستقبل کا اہم معمار سمجھتے ہوئے تعلیم کے شعبے پر بھی توجہ مرکوز رکھی جائے گی اور جامعہ کراچی کی ناقص پالیسیوں کے خلاف ایک احتسابی عمل کے ذریعے بند باندھا جائے گا، جس سے آنے والے روشن پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکے گی۔ ہماری آنے والی نسلیں ایک روشن، مستحکم، جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ جامعہ کراچی میں تعلیم حاصل کرسکیں گی۔