بھروسہ

ناصر نے تیاری کی، ضروری سامان بیگ میں رکھا اور پھر ایک طویل سفر کے لئے نکل پڑا۔ دبئی میں روز گار کے لئے دوسرے ملکوں سے بہت سے لوگ آتے ہیں۔ وہاں پر اپنی اپنی حیثیت کا کام ڈھونڈتے ہیں اور سالوں کے بعد اپنے اپنے ملکوں میں واپس لوٹتے ہیں۔ ناصر کو ایک دوست نے یہ مشورہ دیا تھا۔ ناصر اس سے پہلے گاﺅں میں کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ اپنے گھر کی خواہش نے اسے آج بیوی سے دور جانے پر مجبور کردیا تھا۔ وہ بہت ہی خوش تھا اور اس کو ویزا بھی مل گیا تھا، آج وہ جا بھی رہا تھا۔
ناصر دبئی اپنے ایک دوست کے مکان پر رہنے لگا۔ دل لگا کر کام کرتا اور پھر واپس اپنے دوست کے پاس آکر رہتا۔ سلیم ناصر کا بچپن کا دوست تھا، یوں ناصر کو ایک طویل عرصہ گزر گیا۔ اس نے لاکھوں میں کما لئے تھے اور اب وہ ان پیسوں سے اپنا گھر بنا سکتا تھا۔ ”میں نے ارادہ کیا ہے اب میں واپس گھر لوٹ جاﺅں اور کام چھوڑ دوں“۔ اس نے اپنے دوست کو ارادے سے آگاہ کیا۔ ”مگر کیوں؟ اچھا بھلا کام کر رہے ہو۔ ایسی جگہ اور یہ کام ہر کسی کو نہیں ملتا اور نہ روز روز ملتا ہے“، اس کے دوست نے فکر مندی سے اس کو دیکھتے ہوئے کہا۔ تمہاری بات ٹھیک ہے مگر مجھے بس اتنے پیسے کمانے تھے۔ اب ان سے میرا خود کا گھر بن جائے گا۔ اس لئے مجھے مزید پیسوں کی ضرورت نہیں ہے“۔ ناصر نے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ ”ٹھیک ہے پھر، اگر تم نے ارادہ کرہی لیا ہے تو ہم اس میں کچھ نہیں کہہ سکتے“۔ اس کے دوست نے جیسے ہتھیار پھینکتے ہوئے کہا۔
اگلے ہی روز ناصر نے گھر جانے کی تیاری کی اور جتنے بھی پیسے کمائے تھے ان پیسوں کو ٹیکس سے بچانے کے لیے اس نے مختلف سونے کی چیزیں بنوا کر پہن لیں اور اپنے ملک کے لئے روانہ ہوگیا۔ وطن کی محبت بھی ایسی چیز ہے جو انسان کو کبھی بھی خود سے دور نہیں ہونے دیتی۔ انسان کتنا بھی دوسرے ملک سے مانوس ہونے کا دعویٰ کرے مگر جومحبت اس کی اپنے ملک سے ہوتی ہے وہ اس سے کبھی انکار نہیں کر سکتا۔ اپنی مٹی اپنی ہوتی ہے۔ جب بھی پردیس میں اس کو تکلیف پہنچتی ہے اس کو ماں اور اپنا گھر ضرور یاد آتا ہے۔ ناصر کو بھی اپنے ملک کی محبت اورضروریات کے پورے ہونے کی امید گھر کھینچ لائی تھی۔
ناصر کی آمد گھر میں جیسے جشن کا سما تھا۔ خاص طور ناصر کی بیوی کوثر بہت خوش تھی۔ ابھی ناصر نے نئے گھر کے بارے میں لائحہ عمل سوچا ہی تھا کہ ایک رات چور اس کے گھر میں گھس آئے اور وہ تمام سونا اور نقدی لے اڑے۔ صبح اٹھ کر جب ناصر کو الماریاں کھلیں ملیں تو جیسے آسمان اس پر گھر پڑا تھا۔ کوثر کا رو رو کر برا حال ہوگیا تھا۔ تکلیف بھی اس قدر زیادہ تھی کہ شاید وہ ہی بہتر جانتے تھے جن پر بیتی تھی۔ خیر جیسے تیسے ناصر اوراس کی بیوی نے صدمہ برداشت کیا۔
میں اب واپس کمائی کے لئے نہیں جاﺅں گا، یہیں رہ کر پیسے کماﺅں گا، شاید ہماری قسمت میں ہمارا خود کا گھر نہیں ہے“۔ ناصر نے دل برداشت ہو کر کہا۔ ناصر کی بیوی جو کے صبر و استقامت رکھتی تھی نے کہا ”مایوس نہیں ہونا چاہیے، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اللہ ہمیں کبھی نامراد نہیں کرے گا، جو کچھ ہوا یقینا اس میں کوئی خیر و بھلائی ہوگی۔ کوثر کی بات سن کر ناصر صرف سر ہی ہلا پایا۔
کئی روز تک ناصر روزگار کے لئے رلتا رہا تاہم کوئی روزگار نہ مل سکا۔ تھک ہار کر ناصر نے ایک بڑی سے حویلی کے باہر بیٹھا تھا کہ ایک آواز سنائی دی۔ ”کیسے ہیں آپ؟ “ناصر نے سر اٹھا کر دیکھا تو ہاتھ میں ٹہنیاں کاٹنے والا کٹر پکڑے شکل سے مالی نظر آنے والا ایک دراز عمر شکل کھڑا تھا۔ وہ ناصر کو مہربان نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ”میں ٹھیک ہوں“ناصر نے ہلکے سے کہا۔
”کیوں پریشان بیٹھو ہو“مالی نے ناصر پر گہری نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ ”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، بس روز گار کے لئے پریشان ہوں“۔ مالی نے اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے اسے دلاسہ دیا کہ ”تم پریشان نہ میں اپنے مالک سے تمہارے حوالے سے بات کرتا ہوں“۔ناصر اسے اپنا رابطہ نمبر دے کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ اگلے ہی روز ناصر کو ایک کال موصول ہوئی۔ ناصر نے کال سنی تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ کال مالی نے کی تھی اور آج اسے شاندار کوٹھی کے مالک نے اپنے گھر بلایا تھا تاکہ کام کے حوالے سے بات کی جاسکے۔
٭٭٭٭٭
”ہمارے گھر کے کچھ کام ہیں وہ آپ کے سپرد کیے جائیں گے، کیا آپ کر لیں گے؟ ہاشم حسن نے مختصر تعارف کے بعد پوچھا۔ ناصر نے سب کچھ تحمل سے سنا اور جواب دیا کہ ”جناب! اگر ہم کام کرنے کے قابل ہوں گے تو امید ہے ہماراکام ہی معیار ہوگا“۔ ہاشم حسن نے ناصر کی آنکھوں میں ایک الگ سی چمک دیکھی تو بلا جھجک کام پر رکھ لیا۔ ناصر نے کچھ ہی روز میں ہاشم حسن کا دل جیت لیا، ہاشم حسن نے اسے اپنے قریبی لوگوں میں شمار کرنا شروع کردیا۔ ہاشم حسن نے اس کے کاموں سے متاثر ہو کر اسے شہر کے کچھ فاصلے پر اپنا ایک مکان ناصر کو دے دیا۔ کوٹھی نما مکان دیکھ کر ناصر اور اس کی بیوی کوثر کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ آج ان کو چھت مل گئی تھی اور چھت بھی ایسی کہ جس کا انہوں نے کبھی سوچا تک نہیں تھا۔ آج ان کا اپنا مکان تھا، خود کا گھر تھا۔ اپنا گھر کتنی بڑی نعمت ہوتا ہے۔ جس کے پاس اپنی چھت نہ ہو اس کی قدر صرف وہیں جانتا ہے۔ ایک کمرے کا گھر بھی اگر اپنا ہو تو پرائی کوٹھی اور بنگلے سے ہزار گنا بہتر ہوتا ہے۔
مکان ملتے ہی دونوں کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ مکان کے کاغذات بھی ہاشم حسن نے ان کے نام کردیئے تھے۔ ایک طرح سے اب مکان کی ملکیت ان کی ہوگئی تھی اور وہ ہاشم حسن کی جانب سے ایک تحفہ تھا۔ ناصر اور اس کی بیوی کوثر نے جس کے لئے زندگی بھر محنت کی تھی آج وہ ان کو بغیر محنت اور مشقت کے مل گیا تھا۔ کوثر نے ہمیشہ ناصر کو ایک بات سمجھائی تھی کہ جو ہمارا ہے وہ ہم سے کوئی چھین نہیں سکتا اور جو ہمارا نہیں وہ ہمیں ہزار کوشش کے باوجود بھی نہیں مل پائے گا۔ آج ان کو اللہ پر کامل بھروسہ ہوگیا تھا کہ ان کو مکان ملا تھا، جو ان کی قسمت میں تھا۔
اگلے ہی روزناصر اور کوثر نے اپنا مختصر سا سازو سامان اٹھایا اور نئے گھر میں منتقل ہوگئے۔ناصر اب پہلے سے کہیں زیادہ ہاشم حسن کا عقیدت مند ہوگیا تھا۔ جیسے وہ ہر وقت ان کا احسان مند تھا، حالانکہ ہاشم حسن نے کئی بار ناصر سے کہا تھا کہ انہوں نے کوئی احسان نہیں کیا بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے دیا۔ ہاشم حسن کچھ روز بعد ہی دنیا سے چل بسے۔ وہ دن ناصر اور ان کی بیوی کے لئے انتہائی قرب کا دن تھا۔ ان کو ایسے لگا تھا جیسے ان کے سر سے کوئی بڑاسایہ ہٹ گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭
ہاشم حسن کے انتقال کے بعد گویا ناصر کو دوہری اذیت سے گزرنا پڑ گیا تھا۔ ہاشم حسن کے ورثاءنے ناصر کو مکان کی ملکیت ختم کرنے اور سب کچھ واپس کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں تھیں۔ بڑے اور پیسے والے لوگوں کے سامنے ناصر گویا ہاتھی کے آگے چیونٹی کے مانند تھا۔ نہ تو زور بازو ان کا مقابلہ کر سکتا تھا اور نہ ہی قانونی طور پر ان کا سامنا کرسکتا تھا۔ اچانک ہستی بستی زندگی میں ایک مرتبہ پھر غموں اور پریشانیوں نے مداخلت کی تھی۔
”آپ پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہوجائے گا“۔ کوثر نے ناصر کے ہاتھوں کو ہمدردی سے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔ ناصر نے اثبات میں سر ہلادیا۔ اچانک ناصر کو اس کا بیرون ملک لے جانے والا دوست سلیم یاد آگیا۔ وہ ایک پڑھا لکھا اور سمجھدار آدمی تھا۔ ناصر نے اپنی مشکل کے حل کے لئے اپنے دوست سے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے گھر کی طرف چل دیا۔
خوش قسمتی سے سلیم ان دنوں گھر آیا ہوا تھا۔ ناصر نے گھر کا دروازہ بچایا تو اندر سے ایک خاتون کی آواز آئی، ”کون ہے“؟ ”میں ناصر ہوں، سلیم سے ملنے آیا تھا“ ،ناصر نے جواب دیا۔ کون ناصر آیا ہے؟ سلیم نے اپنی بیوی سے پوچھا تو وہ ہاں میں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔ ”کیا حال ہیں؟ اتنے طویل عرصے بعد ہماری یاد آگئی آخر آپ کو، سلیم نے خوشی سے ناصر کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد ناصر نے ان کو اپنی موجودہ پریشانی سے آگاہ کیا۔
”آپ بے فکر رہیں، جب مکان کی ملکیت آپ کے نام ہے تو آپ سے کوئی بھی نہیں لے سکتا“۔ سلیم نے ناصر کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ سلیم نے ناصر سے مکان کے تمام کاغذات اپنے ہمراہ لے آنے کو کہا اور اسے مشورہ دیا کہ آپ مکان بیچ کر کہیں اور نیا مکان لے لیں۔ اس طرح آپ کو ہاشم حسن کے ورثاءکی جانب سے پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ناصر کو سلیم کی ساری باتیں اچھی لگیں اور انہوں نے ان کے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اگلے ہی روزناصر مکان کے تمام کاغذات لے کر سلیم کے پاس آگیا جنہیں لے کر سلیم نے اخبار میں مکان برائے فروخت کا اشتہار دے دیا۔ ایک دو فون کالز کے بعد مکان کا مہنگے داموں سوداطے پاگیا۔
سلیم نے ناصر کو کچھ سستے داموں میں ایک نیا اور اچھا مکان دلا دیا اور باقی کے پیسوں سے ناصر کو ایک چھوٹا موٹا کاروبار کھول کر دے دیا۔ آج ناصر اپنے نئے گھر میں بیٹھا اپنے گزرے کل پر ایک نظر ڈال کر رو پڑا تھا۔ اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوکے قطرے نا جانے کن کے نام کے تھے، مگر ناصر اپنے گھر اور اپنے کاروبار کا جھومر اپنی وفاشعار بیوی، ایک غریب ہمدرد مالی، ایک امیر نرم دل مالک اور ایک بے لوث دوست کے ماتھے پر سجا رہا تھا اور وہ ایک بات تو جان گیا تھا کہ ہم محنت کریں اور اللہ پر بھروسہ کریں تو اللہ تعالیٰ کی مدد ضرور شامل حال ہوتی ہے۔
حصہ
mm
عارف رمضان جتوئی روزنامہ جسارت میں نیوز سب ایڈیٹر اور نیوز کلیکشن انچارج ہیں ،مضمون و کالم نگاری بھی کرتے ہیں،مختلف رسائل و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔۔کراچی اپڈیٹس ڈاٹ کام کے بلاگ اور میگزین ایڈیٹر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں