کراچی کا کچرا۔ ہماری کیاذمے داری ہے؟

کبھی کراچی میں لاشوں پر سیاست ہوا کرتی تھی لیکن آج کچرا سیاسی جماعتوں کا,,ہارٹ ایشو،، بنا ہوا ہے۔تمام سیاسی جماعتیں اس وقت کراچی میں کچرے کے ڈھیر پر کھڑی فوٹو سیشن میں مصروف ہیں اورعوام کو یہ سمجھانے پر تلی ہوئی ہیں کہ وہ کراچی کی سب سے بڑی ہمدرد ہیں۔ علی زیدی صاحب ہروقت میئر کراچی کے ساتھ کھڑے نظرآتے ہیں اور آج کل کراچی سے کچرا اٹھانے کی مہم بھی شروع کررکھی ہے،لیکن کراچی کا کچرا اب ان کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے جسے وہ نہ تو نگل سکتے ہیں اور نہ ہی اگل سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اپنا دامن جھاڑ کر ایک طرف ہوچکی ہے اور دیکھو،خاموش رہو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ البتہ کبھی کبھی ایک پرہجوم پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے ہونے کا پتہ دیتی رہتی ہے۔
کراچی اس وقت ایک ڈسٹ بن کی شکل اختیار کرچکا ہے جہاں ہر طرف کچرے کے انبار نظرآتے ہیں۔ چین کی کمپنی بھی اپنا ہاتھ اٹھا چکی ہے،بقول چیف کمشنر کے ان کا معاہدہ ختم کردیاگیا ہے۔ بہرحال اندرونی کہانی جو بھی ہے تاہم حقیقت میں کراچی کا کچرا آج بھی وہیں ہے جہاں پہلے موجود تھا۔ کراچی یا کچرا گھر کے حوالے سے میرا ایک بلاگ 2015ء میں ایکسپریس میں شائع ہوچکا ہے اوراس وقت بھی یہی حالات تھے،میئر صاحب فنڈز کا رونا روتے نظرآرہے تھے اس وقت بھی ہم نے کہا تھا کہ اگر میئر صاحب اور ان کی ٹیم کے پاس اختیارات اورفنڈز نہیں تو پھر وہ اپنی سیٹوں سے کیوں چپکے ہوئے ہیں۔ ایسی کون سی مجبوری ہے کہ وہ آج چار سال بعد بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کو تیار نہیں۔
مصطفی کمال کو ایک دن کا اختیار دینے کے بعد اگلے ہی روز انہیں یہ کہہ کر معطل کردیا کہ وہ بدتمیزی پر اتر آئے تھے۔ اس سیاسی چپقلش میں کس کا سیاسی قد بڑھا اور کس کا گھٹا یہ تو انہیں ہی معلوم ہوگا لیکن عوام کا مسئلہ جوں کا توں ہی رہا۔ مصطفیٰ کمال نے چارج سنبھالنے کے بعد رات دو بجے ایک پرہجوم پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ میں نے مختلف ڈپارٹمنٹ کے ہیڈافسران کو بلایا ہے مگر آف دی ریکارڈ بتا رہا ہوں کہ انہوں نے یہ کہہ منع کردیا کہ میئر صاحب نے آنے سے منع کر رکھا ہے،جس پر انہوں نے میئر کراچی کو فون کیا لیکن وہ بھی ریسیو نہیں کیاگیا۔ مصطفی کمال کے مطابق وہ دن رات کام کام اور کام کرنے والے شخص ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ میرا باس میرا مخالف جماعت کا ہے،میں کام کرنے کے لیے تیار ہوں آپ بھی تیار رہیں۔ مصطفی کمال کی ایک اچھی بات یہ بھی لگی کہ جب کراچی کے بڑے جاگیں گے تو کراچی والے سوئیں گے۔اگر کراچی کے کرتا دھرتا ہی سوتے رہیں تو پھر مجبوراً عوام کو جاگنا پڑتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق صرف ساؤتھ میں ہی 1200ملازمین کی تنخواہ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کے کھاتے سے نکل رہی ہے اور یہ بل ہر مہینے عوام کے نام پر کٹتاہے۔ سینکڑوں مشینری میونسپل کارپوریشن کی عمارتوں میں گل سڑ گئی ہیں لیکن ان کا ہر مہینے مینٹنس،فیول اور روزانہ کے اخراجات سرکاری خزانے سے نکل رہے ہیں۔ ویسٹ زون میں بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے اور وہاں بھی اتنی افرادی قوت موجود ہے جن کو ماہانہ تنخواہ ادا کی جارہی ہے۔ ویسے سڑکوں اورگلی محلوں میں کبھی ان خاکروبوں کو نہیں دیکھاجاتا لیکن اگر ا ن کی دو ماہ کی تنخواہ بند کردی جائے تو ہزاروں کی تعداد میں یہ لوگ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا اس وقت اتنے لوگ کہاں سے آجاتے ہیں جبکہ ڈیوٹی پر چند سو افراد ہی دیکھنے کو ملتے ہیں اور وہ بھی سرسری صفائی ستھرائی کرکے اپنا کام نپٹا کر چلتا بنتا ہے۔ تمام سرکاری ملازمین کا یکساں ٹائم ٹیبل مقرر ہے مگر لیکن بارہ بجے کے بعد کوئی بھی خاکروب اور سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کا بندہ سڑک یا گلی محلے میں نظرنہیں آتا۔
اربوں روپے کی ہیرپھیر والے ادارے کی سربراہی دینے کے بعد میئر کراچی کو فوراًخیال آگیا کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے،اس لیے صبح جب نشہ ہرن ہوا تو پہلی فرصت میں مصطفی کمال کو معطل کرنے کا دوسرا نوٹی فیکیشن جاری کردیا۔ انہیں شاید اس بات کا بھی احساس ہوگیا تھا کہ ان کے احکامات قانون سے متصادم ہیں۔ اس لیے بہانہ یہ بنایا کہ مصطفی کمال بدتمیزی پر اترآئے تھے۔ اگر آپ کو واقعی دکھ اورتکلیف ہے کراچی کی تو آپ اس بات کو نظرانداز بھی کرسکتے تھے اورتین ماہ مصطفی کمال کو بھی آزما لیتے۔ یا پھر شایدمیئر کراچی کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ مصطفی کمال پرانے کھلاڑی ہیں اورانہیں ہر راستے کا علم ہے،اگرانہوں نے واقعی تین ماہ میں کراچی کو کچرے سے پاک کردیا تو پھر ان کی رہی سہی عزت بھی مٹی میں مل جائے گی۔ بات جو بھی ہو مگر میئر کراچی نے اپنے پاؤں پرخود کلہاڑی مار دی ہے۔
کراچی کا کچرا اٹھانا کوئی بڑی بات نہیں،لیکن بغیرکسی منصوبہ بندی اور بغیر متبادل نظام فراہم کیے بغیر تمام سیاسی جماعتوں کی یہ مشق بیکار ثابت ہونے والی ہے۔ بلدیہ ٹاؤن میں جہاں جہاں سے دو روز قبل ایم پی اے ملک شہزاد اعوان نے کچرا صاف کروایا محض دو روز بعد ہی وہاں دوبارہ کچرے کے انبار لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کی مشقت پہلی بارمیں ہی ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اسی طرح علی زیدی صاحب دودرجن بالٹیاں اوردو درجن وائپر لے کر کراچی کو صاف کرنے کی مہم سرکرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں،انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ مسئلہ کچرا اٹھانے کا نہیں بلکہ کچرا ڈالنے کے لیے جگہ درکارہے۔
ہمارے یہاں ایک اصول یہ بھی ہے کہ جہاں کوئی خالی پلاٹ نظرآئے سمجھوں وہ سرکاری کچرا کنڈی ہے۔ چند روز میں ہی وہاں ٹنوں کے حساب سے کچرا جمع ہوجاتا ہے۔ یہ بدتہذیبی کی اعلیٰ مثال ہے جسے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بے شک کچرا اٹھانا متعلقہ ادارے کا کام ہے لیکن کچھ ذمے داریاں عوام الناس کی بھی ہیں۔ معاشرہ عوام سے بنتاہے ناکہ اداروں سے،اور اس وقت پاکستان کا معاشرہ بدتہذیبی کی دوڑ میں سب سے اول نمبر پرموجود ہے۔ ہمارا جہاں دل کرتا ہے وہاں کچرا پھینک دیتے ہیں،آلائشوں کے لیے ایک ہر جگہ باقاعدہ ایک پوائنٹ بنائے گئے تھے لیکن وہاں ایک بھی آلائش دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہی لوگ جو آج کچرا کچرا کی دہائی دے رہے ہیں کل تک خود ہی اس کچرے اور گندگی کے اسباب پیدا کرنے میں جتے ہوئے تھے۔ ہم اپنے بچوں تک کو تمیز سکھانے کی جرات نہیں کرپارہے ہیں،ہمارا بچہ اگر کچھ کھا کر ریپر گلی میں کہیں بھی پھینک دیتا ہے تو اسے منع کرنے کے بجائے اس کی یہ کہہ کر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ کچرا یہیں پھینکو گھرلے جانے کی ضرورت نہیں۔ ایسے میں بچہ کچرا باہر جہاں اس کا دل کرے گا پھینکے گا،ہم اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں اور تمام چیزیں اداروں اور منتخب نمائندوں کے سر تھوپنا چاہتے ہیں۔ جو سراسر غلط ہے۔
ملک شہزاد اعوان اپنے حلقے کے ساتھ ساتھ دیگر حلقوں میں بھی کام کررہے ہیں۔ جتنے وسائل ان کے پاس ہیں وہ ان کا بخوبی استعمال کررہے ہیں،تاہم یہ کام ان کے کرنے کے نہیں ہیں۔ ایک منتخب نمائندے کا کام قانون سازی کرناہوتا ہے،اسمبلی میں عوام کے حقوق پر بات کرنا اورانہیں ریلیف فراہم کرنا ہوتا ہے،لیکن یہاں عوام ہر کام ان کے ذمے ڈال رہی ہے،چیئرمین اور وائس چیئرمین خاموشی سے مزے لے رہے ہیں اور انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ علاقے میں کیاہورہاہے۔ جب کہ کے ایم سی کی جانب سے انہیں باقاعدہ 5لاکھ روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یوسی کے اپنے بھی کئی ذرائع آمدن ہیں،اس کے باوجود گلی محلے میں بند گٹر کھلوانے کے لیے لوگ یاتوچندہ کرتے نظرآتے ہیں یا پھر ایم این اے اور ایم پی اے کا انتظا ر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
عوام کو اپنا بھی فرض اداکرناہوگا۔ورنہ میئر کراچی اور عوام میں کوئی فر ق نہیں رہے گا۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں