وہ دونو ں مید ان ِ عرفات میں بیٹھے ہوئے تھے، پوری دنیا سے بے خبر، اپنے رب کے سامنے! آج انہیں اپنی خوش قسمتی پر کس قدر رشک آ رہا تھا، ان کی برسوں پرانی خواہش پوری ہو گئی تھی، رب نے ان کو اپنا مہمان بنا لیا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ مکہ آمد پر ہوٹل کے استقبالئے پر ”ضیوف الرحمن“ کی تختی دیکھ کر ہی عافیہ کا خون سیروں بڑھ گیا تھا کہ وہ رب کی مہمان ہے، آج وہ اور سعید اسی رب کی رحمت کے سائے میں میدان ِ عرفات میں بیٹھے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیوں کے امیدوار!!
عافیہ کو یاد تھا اس نے یہاں پہنچنے کی تیاریاں کس طرح کی تھیں، اپنے اکلوتے بیٹے کے بغیر یہ انکا پہلا طویل سفر تھا، سعید نے حج پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں پہلا خیال سعد کا ہی آیا تھا:
سعد کیسے رہے گا اتنے دن؟
اور سعید صاحب جھنجھلا اٹھے تھے، کیا اب بھی آپ کو سعد کی فکر ہے، بڑا ہو گیا ہے اب، تعلیم مکمل کر کے نوکری پر لگ گیا ہے، اگر بہت پریشانی ہے تو شادی کر دیجئے اسکی۔
اور اس آخری جملے نے انکی ساری کلفت دور کر دی تھی، اگلے کچھ روز انہوں نے سعد کے لئے چاند سی دلہن لانے کی تلاش میں گزار دیے، اور ابھی حج کے کاغذ بھی جمع نہ ہوئے تھے کہ انہیں اپنی تلاش مل گئی۔ ملائکہ بڑی پیاری لڑکی تھی، بڑی بڑی چمکتی آنکھیں، جب مسکراتی توآنکھوں کے دیے جل اٹھتے، اور ہنستی تو کانوں میں رس گھلتا محسوس ہوتا۔ انکی اپنی کوئی بیٹی نہ تھی، اس لئے ساری محبتیں اسی پر نچھاور کرنے کو تیار ہو گئیں۔شادی کی تیاری شروع کی تومہینوں کا کام ہفتوں میں کر لیااور ملائکہ کو گھر لا کر دم لیا۔ سعد اور ملائکہ کی جوڑی بھی خوب تھی، انہیں سعد عزیز تھا تو ملائکہ عزیز تر، ساس بہو کی روایتی دوریاں نہ تھیں، حج پر جانے سے پہلے انہوں نے گھر اسکے حوالے کر دیا، ملازمہ کے بارے میں ساری ہدایات، گھر کے اہم امور اور سب سے بڑھ کر سعد کے بارے میں!! حقیقت تو یہ ہے کہ سعد کے بارے میں کچھ زیادہ ہدایات کی ضرورت بھی نہ پڑی، انہوں نے سعد کو بہت سے کاموں میں خود انحصاری سکھائی تھی، اور باقی سب ان کا آپس کا معاملہ تھا۔
انکی حج کی تیاریوں میں دونوں نے آگے بڑھ کر ساتھ دیا تھا، چند ہفتوں میں ملائکہ ان سے مانوس ہو گئی تھی، الوداع کہتے ہوئے پیچھے رہ جانے والوں کے چہرے کچھ اداس تھے، عافیہ بیگم اور سعید انہیں دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئے تھے، اور اب پندرہ دن ہو چکے تھے انہیں حرمین کی سرزمین پر، بیٹا بہو سے بات ہوتی تو انکے سینے میں اطمینان کی لہر اتر آتی، کتنا اچھا ہوا وہ اپنا فرض ادا کر آئے، اب کم از کم سعد کی تو فکر نہ تھی۔
عرفات کے میدان میں وہ دونوں رب کے حضور مغفرت مانگ رہے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیاں، اﷲ نے کتنے اچھے وقت میں ان سے یہ فیصلہ کروا لیا تھا، دعائیں مانگتے مانگتے سعید صاحب اچانک اس سے مخاطب ہوئے:
۔ ”بس اﷲ ہمیں پاک کر دے، گناہوں کا میل کچیل دور کر دے ، اور کسی نو زائیدہ بچے کی مانند کر دے“۔
۔ ”اﷲ تعالی واپس جانے کے بعد بھی ہمارے دلوں کو اسی طرح اپنی جانب متوجہ رکھے“۔ عافیہ بیگم کی دل کی دعا لبوں پر آگئی۔
۔ ”بڑی اچھی زندگی گزری ہے ہماری، کم ذمہ داریاں، اور آسان زندگی، اﷲ نے رزق ِ حلال دیا، فرائض کا پابند بنایا، کیا ہوکہ اگر اﷲ اسی پاکیزگی میں ہمیں اپنے پاس بلا لے“۔ سعید صاحب کے دل میں مچلتی کئی دنوں کی آرزو زبان پر آگئی۔
عافیہ بیگم نے گھبرا کر انکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا:
۔ ”سعد بھول گیا ہے آپ کو؟ میں اسے کوئی صدمہ نہیں دینا چاہتی، باقی اﷲ کی مرضی۔۔ “۔
عافیہ اپنی دعاو¿ں کی کتاب کی جانب متوجہ ہو گئیں، اور سعید صاحب اپنی مناجات میں گم، وہ ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، مگر اس موضوع کا باب عافیہ کے جواب نے بند کر دیا تھا۔ وہ جو ہمیشہ ایک سا سوچتے تھے آج جوان بیٹے کی محبت نے ان کی دعاو¿ں کو مختلف کر دیا تھا، حالانکہ انکی تمام عمر اسی طرح گزری تھی، سعید صاحب رشتہ داروں سے ملنے جاتے، یا کاروباری دوروں پر، یا سیر و سیاحت کرنے ، عافیہ بیگم انکے ساتھ ہوتیں، اگر سعد فارغ ہوتا تو وہ بھی، اور جب بھی سعد کے امتحان ہوتے یا کوئی اور مصروفیت تو انکا دل اسی میں اٹکا رہتا، وہ سعید صاحب کے ساتھ قدم بقدم چلتے ہوئے بھی اس سے مکمل آگاہ رہتیں۔
حج سے واپسی پر سعد اور ملائکہ انکے اسقبال کو موجود تھے، انہوں نے گھر کو بہترین طریقے سے سجا رکھا تھا، مبارک باد کا سلسلہ چند روز چلتا رہا، اسی دوران سعد نے بتایا کہ اسکا ٹرانسفر اسلام آباد ہو گیا ہے، سعید صاحب نے اپنے کسی دوست کے ذریعے انکی رہائش کا بندو بست کروایا، دونوں نے انہیں دعاو¿ں سے رخصت کیا، اور ابھی انہیں گئے دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ ایک روز اپنے آفس جاتے ہوئے سعید صاحب کی کار کو ایک ٹرک نے ٹکر ماری او ر وہ اﷲ کو پیارے ہو گئے، اﷲ نے دنیا کے جھمیلوں میں مشغول ہونے سے پہلے ہی انکے دل میں در آنی والی اس اچانک سی خواہش کو پورا کر دیا، جو جانے دعا کے قالب میں ڈھلی بھی تھی یا نہیں۔
عافیہ بیگم کی زندگی میں زلزلہ آگیا تھا، پچیس سالہ رفاقت تنہائی میں ڈھل گئی تھی، انہیں خود سمجھ نہ آ رہا تھا کہ اب کیا کریں۔ زمانہ عدت اسی غم اور سوچوں کے بہاو¿ میں گذر گیا، حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی سعید کے ساتھ قدم بقدم گزری تھی، اب تو جینے کی آس بھی معدوم ہو رہی تھی،سعد ان کی کیفیت سمجھ رہا تھا، وہ اور ملائکہ ہر ہفتے لاہور آ جاتے، انکے ساتھ وقت گزارتے، ملائکہ انکے چھوٹے چھوٹے کام اپنی نگرانی میں کروا جاتی، عدت مکمل ہونے تک وہ انہیں اسلام آباد منتقل ہونے کا بھی نہ کہہ رہے تھے۔
عافیہ بیگم کی سب سے بڑی ڈھارس انکے رب نے بندھائی تھی، صدمے کے ابتدائی دنوں ہی میں انہوں نے رب سے تعلق کی گرہیں مضبوط کر لی تھیں، اپنے غم، دکھ اور صدمے کا اظہار وہ اسی رب سے کرتیں، رات کی گھڑیوں میں ان کے آنسو ان کے رخسار اور مصلّے کو بھگوتے رہتے، انہیں رب سے شکوہ نہ تھا، ہاں اس غم کا مداوہ چاہتیں تھیں، صبر ِ جمیل کی تمنا تھی انہیں! پھر اللہ کریم نے دھیرے دھیرے انہیں زندگی کی قیمت سکھا دی، سعید صاحب کا امتحان مکمل ہو چکا تھا مگر عافیہ بیگم کا پرچہ ان کے ہاتھ میں تھا، اور ان کی کامیابی کا تعلق باقی ماندہ سوالوں کے درست جواب پر تھا۔۔
زمانہءعدت میں سعید صاحب کی زندگی کے کئی اوراق ایسے بھی ان کی نظر سے گزرے، جو بیوی ہوتے ہوئے بھی ان سے اوجھل تھے، ایسے صدقات جو دایاں ہاتھ دے اور بائیں کو خبر نہ ہو، اور کچھ صدقہءجاریہ کام، اور انہیں میں یتیم بچیوں کے لئے ایک ادارہ تھا، جس کی کونسل کے ممبران نے جنازے کے بعد سعد سے ملاقات کی تھی۔ سعد نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ والد کے حصّے کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرے گا۔ ادارے کی خاتون ذمہ دار بھی عافیہ بیگم سے ملنے آئیں، اور انہیں مستقبل کے کئی منصوبوں سے آگاہ کیا، عافیہ بیگم کی نگاہیں چمک اٹھیں، آئندہ زندگی کی ایک مشغولیت کا سرا ان کے ہاتھ آ گیا تھا۔
وہ چند ماہ بعد اسلام آباد آگئیں، لیکن لاہور کی مشولیت کو بھی وہ بھولی نہیں تھیں۔ تین ہفتے اسلام آباد گزارتیں اور چوتھا ہفتہ لاہور میں یتیم بچیوں کے ادارے کے کام کے لئے وقف تھا، اسی طرح انہیں کچھ وقت اپنے گھر میں گزارنے کا موقع بھی مل جاتا، جہاں سعید کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں ان کا سہارا ہوتیں، اس گھر کے ہر گوشے سے کتنی ہی خوشگوا ر یادیں وابستہ تھیں، جہاں سعد، سعید صاحب اور وہ تھے، اور اس تکونے رشتے کے اپنے اپنے زاویے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے پیوست نقطے تھے، جس میں ہر ایک دوسرے سے جڑا تھا۔۔
سعد کو اللہ نے یکے بعد دیگرے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا تو وہ اسلام آباد ہی کر ہو کر رہ گئیں، کئی کئی ماہ لاہور آنا نہ ہوتا، بیٹی کی کمی عمارہ اور سارہ کے چہچہاتے وجود نے پوری کر دی، اور ابراہیم میں تو وہ گویا ایک مرتبہ پھر سعد کا بچپن دیکھ رہی تھیں، لیکن سعد سعید صاحب جیسا باپ نہ تھا، بلکہ ملائکہ بھی ان جیسی ماں نہ تھی، ان دونوں نے سعد کی تربیت میں دینی سوچ اور اعلی اخلاق اور معاشرت کو پیش ِ نظر رکھا تھا،مگر انکے بہو بیٹا بچوں کی تربیت سے کچھ غفلت برت رہے تھے، وہ دبے لفظوں سے کئی پہلووں کی جانب توجہ دلاتیں مگر وہ کیا کرتیں، ان دونوں نے جدید زمانے کے تقاضوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے، وہ جس طرح سعد کے لئے مثبت سرگرمیوں کا اہتمام کرتی تھیں ، سعد وہ سب اپنے بچوں کے لئے نہ کر پا رہا تھا۔ بچوں کی تفریح میں کھیل کود کی جگہ سکرین نے لے لی، لباس بھی جگ بھاتا اختیار کر لیا گیا، اور دین کی تعلیم مولوی صاحب کے سپرد کر دی گئی، عافیہ بیگم نے سمجھانا چاہا تو اسے مداخلت سمجھا گیا، وہ اپنے طور پر بچوں کو سکھانا چاہتیں تو بھی کئی رکاوٹیں سامنے آ جاتیں، سب سے بڑھ کر بچوں میں نظم وضبط کا فقدان انہیں پریشان کرتا، جوں جوں بچے بڑے ہو رہے تھے ، ان کی تشویش بڑھ رہی تھی، اور اس کا انجام یہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر ان کی لاہور کی مصروفیات بڑھنے لگیں، یتیم بچیوں کے ادارے میں تربیت کے وہ سارے خواب پورے کر رہی تھی، جو انہوں نے اپنی نسل کے لئے دیکھے تھے، یہ سب صدقہ جاریہ بنے گا ان کے لئے، انہیں اندر تک اطمینان اترتا محسوس ہوتا، وہ لاہور میں خود کو زیادہ اطمینان میں پاتی تھیں، سعد نے کئی مرتبہ انہیں روکنا چاہا، لیکن ۔۔
وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے گردش کر رہا تھا، سعد کی ملازمت کی مصروفیات میں کاروباری ذمہ داریاں بھی شامل ہو گئی تھیں، وہ اچھا شوہر تھا، محبت کرنے والا شفیق باپ اور بے حد دلارا بیٹا، اب بھی وہ ہر پریشانی عافیہ بیگم ہی سے شیئر کرتا، ہاں ایک قلق تھا اسے، وہ ماں کو ساتھ نہیں رکھ پایا تھا، یا وہ ہی اس کے ساتھ نہیں رہ سکی تھیں۔ اسے ذرا بھی فرصت ملتی تو سب کو ساتھ لے کر لاہور پہنچ جاتا، عافیہ بیگم سب کی آو¿ بھگت میں لگ جاتیں، اور سعد ہمیشہ اداس دل کے ساتھ واپس لوٹتا۔
سعد نے اسلام آباد میں مکان کی تعمیر شروع کی، تو سب گھر والے ہی مشوروں میں شریک تھے، وہ سب کی بات غور سے سنتا، اور ان کی رائے کو اہمیت دیتا، اسی دوران کسی کمزور لمحے اس نے عافیہ بیگم سے منوا لیا کہ نئے گھر میں وہ بھی ان کے ساتھ رہیں گی، اور پھر اس کی توجہ سب سے بڑھ کر اسی گوشے پر تھی، جسے اس نے سردی گرمی سے بچاو¿، اور بڑھاپے کی ضروریات سامنے رکھ کر بنوایا ، اس کی ایک کھڑکی لان کی جانب رکھی، اسے معلوم تھا پھول اور پودے ان کی کمزوری ہیں۔
مکین مکان میں پہنچ کر اس کو آراستہ کرنے میں لگے ہوئے تھے، عافیہ بیگم ابھی تک شش و پنج میں تھیں، اگرچہ ادارے کی ٹیم کو اپنے متوقع پروگرام سے آگاہ کر چکی تھیں، جو پودا انہوں نے خون ِ جگر سے سینچا تھا اس سے جدائی آسان نہ تھی، لیکن دو روقبل آنے والے فون نے انہیں اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا، جو فیصلہ مہینوں میں نہ ہوا تھا لمحوں میں ہو گیا تھا۔ سعد اور ملائکہ دونوں کو ابراہیم کے سکول بلایا گیا تھا، اشرافیہ کے سکول کی انتظامیہ کو بچوں کے منشیات میں ملوث ہونے کی رپورٹ ملی تھی، سکول کے کئی طلبا کے شیشہ ہاو¿س میں جانے کی بھی مصدقہ اطلاعات اور سمارٹ فونز میں قبیح اور فحش مواد کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا، سعد اور ملائکہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی، ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، جدید علوم کے حصول کی طلب میں انہوں نے کس اطمینان سے اس سکول کا انتخاب کیا تھا، یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ ابراہیم کے اخلاق اور کردار کے بارے میں اساتذہ اور انتظامیہ کی رپورٹ بری نہ تھی، لیکن وہ گندے اور متعفن ماحول میں موجود تو تھا اور کسی بھی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔آج انہیں ابراہیم کی تربیت کے لئے دادی کی معاونت درکار تھی، اور عافیہ بیگم جو بے گانے بچوں کی تربیت کے لئے ہلکان ہوتی تھیں اپنے پوتے سے کیسے لا تعلق رہ سکتی تھیں، انہوںنے بلا تردد دو روز بعد اسلام آباد منتقل ہونے کا عندیہ دے دیا، اور اس اعلان کے ساتھ ہی گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ملائکہ اورسعد نے بچوں کے ساتھ مل کر اماں کا کمرہ سیٹ کروایا، ویڈیو کال سے ان کو سب کچھ دکھایا جاتا رہا اوران کی رضا مندی سے سب چیزیں ترتیب سے رکھی گئیں،ان سب کی بھاگ دوڑ عافیہ بیگم کو سرشار کر رہی تھی۔
ویک اینڈ پر سعد اور ملائکہ اماں کو لینے لاہور جا رہے تھے، اماں نے صبح ہی بتایا تھا کہ ان کی تیاری مکمل ہو چکی ہے اور وہ ان کی منتظر بیٹھی ہیں، ملائکہ ایک نظر ان کے کمرے کا جائزہ لینے گئی، اور وہ ملازمہ کو رات کے کھانے کی ہدایات دے رہی تھی، جب ابراہیم گھبرایا ہوا اس کے پیچھے آگیا:
”ماما ۔۔ ماما ۔۔ پاپا بلا رہے ہیں آپ کو ۔۔“۔
اور ابھی وہ ہدایات ہی دے رہی تھی کہ اس کی چیخ سنائی دی:
”ماما ۔۔ ماما ۔۔ دیکھیں نا پاپا کو ۔۔“۔
وہ بھاگتی ہوئی لاو¿نج میں پہنچی، سعد سینے پر ہاتھ رکھے کراہ رہا تھا، ابراہیم قریبی کلینک سے ڈاکٹر کو بلانے بھاگا، لیکن اس کے آنے سے پہلے ہی اس کی روح پرواز کر چکی تھی، ملائکہ پاس کھڑی انگلیاں مروڑ رہی تھی، اس کا چہرہ زرد تھا، موت کی المناک حقیقت نے سب کو حواس باختہ کر دیا تھا۔
اور اس شام جب عافیہ بیگم اسلام آباد پہنچی تو وہاں استقبال کا نہیں رخصت کا منظر تھا، اتنا خوبصورت گھر بنانے والا اور اسے خوابوں سے سجانے والا سعد اگلی منزل کی جانب سدھار گیا تھا، رشتہ دار آگے بڑھے اور ایک بزرگ نے ”کل نفس ذائقة الموت“ کا پیغام سنا کر جنازہ اٹھانے کا اشارہ کیا۔ عافیہ بیگم نے بس اتنا کہا: ”پیارے بیٹے اللہ کے حوالے، تو نے اتنی محبت سے بلا کر میرے آنے کا انتظار بھی نہ کیا، میں زندگی بھر تجھ سے راضی رہی اور آج بھی تیرے ایمان کی گواہی دیتی ہوں، اے اللہ تو بھی میرے بیٹے کی بخشش فرما دے، آمین“۔
سعد سے جڑا ہر رشتہ، دوست، ہمسائے، جانے انجانے سب اشکبار تھے، چند دن تک تعزیت کا سلسلہ رہا، اور پھر ایسی تنہائی کہ گھر کے در و دیوار کاٹ کھانے کو دوڑتے، بچے روتے بلکتے تو ملائکہ انہیں چپ کرواتے خود بھی بے حال ہو جاتی، اس کے سر سے سائبان اٹھ گیا تھا، اور عافیہ بیگم ٹکر ٹکر سب کو دیکھے جاتیں، اور پھر وہی ہمت جمع کر کے سب کو تسلی دیتیں، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کا دوام!!
سارا دن وہ ملائکہ کا دل بہلاتیں اور ملائکہ انہیں خوش رکھنے کی اپنی سی کوشش کرتی رہتی، سارا اور عمارہ گھر آتیں تو ان کے غمزدہ اور اداس چہرے دیکھ کر انکا دل کٹنے لگتا، خوشیوں کے ہنڈولنے میں جھولنے والایہ گھرانہ غم کے معنی سے بھی نامانوس تھا، اب غم پڑا تو ان کے اعصاب چٹخ گئے، لیکن عافیہ بیگم نے کئی ماہ کی مسلسل کوشش سے انہیں اس رب سے جوڑ دیا جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی، جو اس کی جانب بڑھنے والوں پر صبر انڈیل دیتا ہے ۔ وہ سارا دن سب کو وہی سبق پڑھاتی رہتیں۔
دن کی تھی ہاری جب وہ رات کو بستر میں آتیں تو ابراہیم چپکے سے انکے پاس سرک آتا، انکے کندھے دباتا، پیروں کی مالش کرتا، اور ہولے ہولے ان سے باتیں کئے جاتا، ماضی کی باتیں، اس گھر کی رونق بحال کرنے کے منصوبے اور مستقبل کے خواب! اسکی مضطرب نگاہوں اور ان کہے خطرے کو بھی وہ محسوس کر لیتیں، اور اسے سینے سے لگا کر بھینچ لیتیں، ابراہیم میرے بچے، میرے سعد کی امانت، تم سب کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاو¿ں گی، اب تو لاہور بھول گیا ہے مجھے۔
اور اس سمے انہیں میدانِ عرفات میں بیٹھے دو نفوس یاد آ جاتے جن میں سے ایک نے اک خواہش کا اظہار کیا تھا، اور دوسرا ہچکچا گیا تھا، اسے اپنا بیٹا بہت پیارا تھا۔۔ اور کسے معلوم تھا کہ ایک کی خواہش قبولیت پا جائے گی، اور دوسرے کے لئے رب کا ایک اور ہی فیصلہ ہو گا، جس بیٹے کی محبت نے اس لمحے انہیں جکڑ لیا تھا، وہ بھی ایک حسین اور نازک موڑ پر ان سے جدا ہو کر رب کے حضور پہنچ جائے گا، اور اتنے برس بعد وہ پھر محبت کی ڈور میں بندھی پوتے پوتیوں اور بیٹی جیسی بہو کی دلداری میں لگی ہوں گی، اللہ کے اگلے فیصلے کی منتظر ۔۔
اور ہر حال میں اس سے راضی۔۔
اور اسے راضی کرنے کے لئے فکر مند!!
٭٭٭
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...