غلط کو غلط صحیح کو صحیح کہنا پڑے گا

جاوید چوہدری صاحب نے ایک سبق آموز قصہ سنایا تھا۔ بات دل میں ایسی اتر گئی کہ قارئین کو سناتے نہیں بنتی۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک بہت ہی ظالم اور جابر بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ وہ اپنے عوام پر ہر روز نت نئے مظالم توڑا کرتا تھا۔ اس کے ارد گرد جتنے بھی وزیر، مشیر اور خوشامدی تھے وہ اس سے کہیں بڑھ کو ظالم اور اذیت پسند تھے۔ باد شاہ جب خود کوئی ایسی ترکیب جس سے ملک کے عوام کو کوئی اذیت پہنچے اور وہ اس اذیت سے بلبلا نہ اٹھیں، نہیں سوچ پاتا تھا تو وہ اپنے ارد گرد جمع وزرا، مشیران اور خوش آمدیوں سے اذیت پہنچانے کی تراکیب طلب کیا کرتا۔ تڑپتے، چیختے، چلاتے اور بلبلاتے عوام اس کی اذیت پسندی کی تسکین کا سبب بنتے تھے اور اسے ان کو اس طرح ابتلاوآزمائش میں گرفتار دیکھنا بہت ہی اچھا لگتا تھا۔

ایک طویل عرصہ ظلم سہتے سہتے عوام بھی مظالم کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ بادشاہ اور اس کے حواریوں کی کسی بھی شرپسندی کے جواب میں کسی قسم کا شور مچانا، احتجاج کرنا، تڑپنا، رونا اور چلانا بند ہی کر دیا تھا اور یہ سمجھ لیا تھا کہ جو کچھ بھی ان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ان کا نصیب ہے۔

بادشاہ کے کانوں میں جب کافی عرصے تک کسی فریادی کی صدائے احتجاج نہیں گونجی تو اسے بہت تشویش ہوئی اور اذیت پسندانہ مزاج کو یہ بات نہایت گراں گزری تو اس نے تمام وزرا و مشیران کو طلب کر لیا اور ان سے نہایت غضب کے ساتھ دریافت کیا کہ کیا انھوں نے عوام الناس کو اذیت پہنچانا بند کر دیا ہے۔ سب نے بآوازِ بلند جواب دیا، نہیں آقا ہم ہر صبح عوام کیلئے کوئی نہ کوئی نیا عذاب توڑ کر آتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ کافی عرصے سے کسی فریادی نے ہمارے دربار کی زنجیر نہیں ہلائی اورجو ظلم، بقول آپ سب، روز آپ ان پر توڑ کر آتے ہیں، اس کی فریاد ہم سے آکر نہیں کی تو اس کا سبب کیا ہے؟۔ بڑے مشیر خاص نے سب کی جانب سے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ بادشاہ سلامت، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تمام آپ کے غلام روز رات کو مظالم کے منصوبے بناتے ہیں اور پھر عوام کے بیدار ہونے سے پہلے ہی اس منصوبے کے مطابق پورے ملک میں کسی فتنے کو جگا کر آجاتے ہیں لیکن جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ملک بھر کے عوام شاید اب ظلم و ستم کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ باوجود تڑپنے، چیخنے، چلانے اور بلبلانے کے ان کے منھ سے ہم نے کوئی صدائے احتجاج بلند ہوتے نہیں دیکھی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ خود ہی خاموش ہوجاتے ہیں اور اپنی اپنی مصروفیات میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

بادشاہ یہ سن کر حیران بھی ہوا اور پریشان بھی اس لئے کے اس کے منحوس کان کراہیں سننے اور اس کی آنکھیں عوام کے جسموں سے رستا خون دیکھنے کی اتنی عادی ہوچکی تھیں کہ اب ان کی پراسرار خاموشی خود اسے تڑپائے دے رہی تھی۔ اچانک وہ اپنے تخت سے اچھل کر درباریوں پر گرجا کہ شام تک کوئی ایسی نئی ترکیب ایجاد کی جائے جو اس کے مزاج کی تسکین کا سبب بنے ورنہ ممکن ہے کہ وہ یہاں موجود افراد میں سے روز کسی نہ کسی ایک کو اذیت میں مبتلا کرکے اپنے ذوق کی تسکین کی تکمیل کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

بات اب اس انتہاتک آن پہچی اور خود ظالم وزیروں اور مشیروں کے گریبانوں کو چھونے لگی تو شام سے کہیں پہلے ہی بادشاہ تک ایک مشورہ پہنچا۔ مشورہ یہ تھا کہ تمام شہر میں اعلان کیا جائے کہ اگلے دن کسی بھی کام کے آغاز سے قبل پورا شہر بادشاہ کے محل کے قریب حاضر ہوجایا کرے۔ ہر فرد کو دس دس جوتے مارے جائیں گے، جو جوتے کھاتا جائے جاتا جائے اور اپنے معمول کے کام میں مشغول ہو جائے۔ اگر کوئی ایک فرد بھی حاضر ہونے سے رہ گیا اسے قتل کردیا جائے گا۔ بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا چنانچہ پورا شہر جمع ہوتا، فرداً فرداً جوتے کھاتا اور چلا جاتا۔ باد شاہ کو حیرت تھی کہ کئی دن گزرجانے کے بعد بھی کسی نے کوئی فریاد کیوں نہیں کی۔ مشیروں سے حیرت کا اظہار کیا تو انھوں نے جوتے مارنے کی تعداد میں اضافہ کردیا لیکن پھر بھی پورا شہر خاموشی سے روز جوتے کھاتا اور اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتا۔ بادشاہ کی پریشانی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا کہ ایک دن دربار کی گھنٹی زور زور سے بجی۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ کچھ فریادی آئے ہیں اور آپ سے اپنی تکلیف کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر باد شاہ کی حالت مارے خوشی کے دیدنی ہو گئی۔ چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا اور آنکھوں میں شیطانیت ناچنے لگی۔ بادشاہ نے کہا بلاؤ فریادیوں کو تاکہ ہمیں ان کی چیخ و پکار سن کر سکون نصیب ہو۔ فریادی دربار میں حاضر کردیئے گئے۔ بادشاہ نے پوچھا کیسے آنا ہوا تو سب نے بیک زبان کہا کہ آپ کے حکم کے مطابق ہم ہرصبح اپنے کسی بھی کام کے آغاز سے پہلے یہاں حاضر ہوجاتے ہیں، جوتے کھانے کے بعد اپنے اپنے روز مرہ کے کاموں کیلئے روانہ ہوجاتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ جو فریاد کرنی ہے وہ بیان کرو۔ بادشاہ کو توقع تھی کہ فریادی اس اذیت سے نجات کیلئے روئیں گے، خوشامد کریں گے، چلائیں گے اور ناک رگڑیں گے لیکن وہ تو ان کی بات سن کر پریشان ہوگیا اس لئے کہ فریادیوں نے کہا کہ ہمیں جوتے کھانے میں اتنی دیر ہوجاتی ہے کہ ہمیں اپنے کام مکمل کرنے کا وقت نہیں مل پاتا کیونکہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اس لئے برائے مہربانی جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کردیا جائے تاکہ ہم اپنے اپنے گھروں کو جلد سے جلد لوٹ سکیں۔

خان پٹرول ایک لاکھ روپے لیٹر بھی کردے گا، گیس اور بجلی کا بل ساری تنخواہ سے بھی زیادہ کا ہوجائے گا تب بھی ہم خان ہی کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ یہ ہے وہ سوچ جس نے ایسے ایسے ظالم حکمرانوں کو ہم پر مسلط کرنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ کیا خان کو جن لوگوں نے ووٹ دیا تھا وہ اسی وعدے اور دعوے کی بنیاد پر دیا تھا کہ وہ ہر کام کے آغاز سے قبل ہر فرد کو مجبور کرے کہ وہ پہلے جوتے کھائے پھر کام پر جائے، پھر ہر آنے والے نئے دن اس کیلئے جوتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے اور وہ خاموشی سے کھاتا رہے اور اس پر بھی خان سے آکر ہر روز پڑنے والے جوتوں میں نرمی کی فریاد کرنے کی بجائے یہ کہے کہ جوتے مارنے کی تعداد بیشک بڑھادی جائے لیکن اتنی مہربانی کردی جائے کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کردیا جائے تاکہ انھیں اپنے باقی کام مکمل کرنے کا خاطر خواہ وقت مل سکے۔

دوسروں کا قرضہ بھیک لگ رہا تھا اور بھیک مانگنے سے بہتر خودکشی کر لینے کی باتیں کی جاتیں تھیں۔ 95 روپے کے ڈالر میں کرپشن تھی لیکن 152 روپے والا ڈالر ملک کی ترقی کی علامت ہے۔ 94 روپے پٹرول کا مطلب حکمرانوں کا چور ہونا تھا لیکن 116 روپے کے پٹرول کا مطلب فرشتہ صفتی ہے۔ جس کے قاتل نامعلوم ہوں اس کا قاتل وقت کا حکمران قرار دیا جارہا تھا لیکن پورے ملک میں نامعلوم افراد خون بہاتے پھر رہے ہیں مگر اس میں حاکم وقت کا کوئی قصور نہیں۔ حکومتی اخراجات زیادہ نظر آتے تھے لیکن اب حد سے زیادہ بھی کم نظر آرہے ہیں۔ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، گورنرز ہاؤسز اور وزرائے اعلیٰ کے عالی شان محل کالج، یونیورسٹیاں، لائییریریاں اور تفریح گاہیں بنائی جانی تھیں، وزیروں، صدر اور خود وزیر اعظم کا پروٹوکول ختم ہونا تھا، وزرا کی فوج ظفر موج کو چند لہروں میں تبدیل کیا جانا تھا، تعلیم کو اہمیت دینی تھی، دفاع کو مضبوط کرنا تھا اور نہ جانے کیا کیا سبز باغ تھے جو عوام کو دکھائے گئے تھے تو عوام میں ان کا کوئی مقام بناتھا لیکن ہرکام اس کے برعکس ہی نہیں ہوا بلکہ جس ملک کو “مدینہ” جیسی ریاست بنانے کا دعویٰ کیا جارہا تھا وہاں صحابہ کرام اور پیغبران اسلام کیلئے گستاخانہ لب و لہجہ اپنایا جارہا ہے اور کھلے عام اسلامی قدروں کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ مہناگائی آسمان کو چھونے لگے ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کی قدر و منزلت گرتی جارہی ہے۔ پاکستان دنیا میں بے وقار ہوتا جارہا ہے حد یہ ہے کہ چین جیسا دوست بھی پاکستان کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر بھرپور تنقید کر رہا ہے۔ ایک جانب یہ صورت حال ہے اور دوسری جانب “قوم یوتھ” اپنے آقا سے فرمارہی ہے کہ میرے آقا آپ مہربانی کریں، ہم پر جوتے بے شک برساتے رہیں بس اتنی مہربانی کریں کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کردیں۔

جب تک ہم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے اور ماننے کیلئے عادی نہیں بنیں گے اس وقت تک اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اپنی حالت بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ہماری کج فہمی ہے۔ حالات بدلنے ہیں تو ہم خواہ کسی بھی مذہب، مسلک یا سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، جو بات غلط ہو اسے غلط اور جو بات صحیح ہو اسے صحیح سمجھیں گے، پاکستان کے حالات کبھی نہیں بدل سکیں گے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

  1. اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    لکھنے والے کی عقل پر بھی سبحان اللہ
    عمران خان حارمی ہے اور باقی سب بھی حرامی ہیں اور جو اچھا ہے ہم کو بتا دے اس کو ہی ووٹ دےگے آپ بس نام لکھ کر بتا دے
    عمران نیازی. نواز شریف. شہباز شریف. حمزہ شریف. مریم شریف. زرداری شریف. بلاول شریف فضل الرحمن شریف وغیرہ سب چور ایک ساتھ مل گئے ہیں پہلے ایک دوسرے کو حرامی کہتے تھے. اب ایک دوسرے کو پاپا کہتے ہیں
    اس حرامی کا آپ نے لکھ دیا ان سب حرامیوں کا کون لکھے گا
    اس لئے آپ سے گزارش ہے جو سچ ہے وہ لکھو سب کے لیے بھی
    نہیں تو آپ ان سب حرامیوں وغیرہ سے بڑے حرامی ہو.

جواب چھوڑ دیں