“جنگل میں مور اور شہر میں چور ناچا “

باہر کی دنیا حسین، خو بصورت لوگ ،خوبصورت نظارے قدرتی حسن مال و دولت کی فرا وانی ، قیمتی اور حسین آراستہ مکانات اور ارد گرد حسین قدرتی مناظر جھیلیں ، لہلہاتے جنگل اور گھروں کے باہر با غیچے اند ر بھی در و دیوار سجے ہو ئے پھولوں اور آ را ئشی اشیاء سے آراستہ اس سے بھی زیادہ برینڈڈ ملبوسات اور گاڑیوں کی دستیابی لئے ہو ئے یہ لوگ واہ ! کیا شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں ! چند دنوں اور چند ہفتوں تک تو ٹھیک ہیں لیکن وہی بات کہ “سونے کو گھس کے دیکھ لو گوں کو پیس کے دیکھ” پتا چلا کہ ہر بندہ اتنا خو د کفیل ہے کہ اس کا اپنا دائرہ ہے جس میں وہ اتنا مست ہے کہ دوسرے کی خبر نہیں ، نہ ہی اسے دوسرے کی ضرورت ہے نہ خواہش ۔ بشر بشر سے بیراز مصنوعی زندگی مصنوعی اور بناوٹی تعلقات کب سکون دل فراہم کرسکتے ہیں؟۔ “جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ؟” مور کی مرضی جو چاہے کرے کوئی دیکھے نہ دیکھے ! مگر ہمارا کیا ! ہمیں کیوں ناچنا پڑ رہا ہے ؟ اگر فرض کریں بلکہ یقین کریں آپ نے سب کچھ حا صل کرلیا اور سمجھا کہ یہ میری محنت دن رات کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ یہ عیاشیاں اسی محنت کا نتیجہ ہیں تو اب دنیا کو دکھانے دنیا ہی کی انگلیوں پر ناچو ! کیوں ناچو؟ کیونکہ دنیا کیا کہے گی ؟ اس کو یہ نہیں آتا اس کو پہننے کا سلیقہ نہیں یہ پرا نا فیشن ہے، اب یہ نہیں چلتا ، ہمارے ہاں تو یہ ہوتا ہے ، یہ پہنا جا تا ہے ، یوں کھا یا جا تا ہے تو ٹھیک ہے آپ سب دنیا کو خوش کرنے میں لگے ہیں ۔ چاہے جل جل کر کریں مر مٹ کر کریں مگر لوگوں میں وا ہ واہ ہو نی ہے تو کرنا ہے اور کیوں نہ کریں یہ سب ہم شعوری طور پر کررہے ہیں اور بہت خوش ہے کیونکہ سب سے اعلیٰ و بالا ہیں ، سب کو حیران جو کرنا ہے !
دوسری طرف میرے شہر میں چور ہیں کچھ چور جو لا علمی دین کی کمی اور بے روزگاری اور بعض بدکاری میں ملوث ہو کر دن رات ناچ رہے ہیں اور لوگوں کا سکون چھنوا کر خود نا چ رہے ہیں مگر یہ بھی شعوری ہو رہا ہے اسے احساس ہے کہ غلط ہو رہا ہے اس امید پر کہ بڑھا پے میں معافی مانگ لیں گے اللہ کریم ہے یہ تو گناہ درگناہ ہے۔
مور تو جانور ہے وہ بھی جنگل میں ناچ رہا ہے ۔ ہم تو کیا ہیں ؟ نائب خلیفہ! ذمہ داریاں ہیں عقل سلیم لے کر آئے ہیں ایمان والے ہیں کس چیز کا سودا کر رہے ہیں ؟ اور اپنی کیا قیمت لگا رہے ہیں ۔ ہماری تو اپنی مووی بن رہی ہے ۔ اپنے ضمیر کے سامنے کئی بار چلتی بھی ہو گی مگر ہم نو ٹس نہیں لے رہے ۔ سب وقت سے فا ئدہ اٹھا جائیں گے صرف اور صرف زندگی کا وقت ہاتھ سے نکل کر ہمیں بے وقعت کر دیگا پھر میں کیا کرونگا ؟کہاں جا ؤنگا ؟ کیا دنیا دوبارہ ملے گی ؟ ہاں جو کچھ دانستہ یا ناد انستہ اللہ کے اور بندوں کے حقوق ادا کئے ہیں انہیں خوش کرنے اور دکھ بانٹنے کا انتظام کیا ہے اس کا اجر ضرور ملے گا ذرا بھر نیکی ضا ئع نہ ہو گی ۔ یہی رب کا فضل ہے کہ اس نے یہ کام ہم سے لے لیا ۔ بس اللہ اسے ہی ذریعہ بنا کر تھوڑے کا بڑا اجر دے دے اور دلوں کی تنگیوں کو کھول دے ۔ راہ ہدایت دے کر دل کی دنیا کو بدل دے ۔ تو دنیا کیلئے یہ محنت یہ کوشش عبادت بن کر میرے دل کو نچوا دے ۔ یہ ناچنا اللہ سب کو نصیب فرما ئے (آمین)۔ جس میں ابدی سکون ہو اور وہ حسین نظارے نسلوں تک چلتے رہیں جو روح کو معطر کردے ۔ ہم میں کسی چیز کی کمی نہیں الحمد للہ ہم مسلم ہیں تو پھر کیا ہونا چا ہیے ۔

” یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گر مادے جو روح کو تڑپا دے “

بس اس تمنا کے نظارے یہاں شامل ہو جائیں تو جنت کے نظارے اس دنیا میں موثر طور پر نظر آنے لگیں گے کوئی تشنگی نہ ہوگی نا؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں