امیر قلم سے ایک امیدشمع

آج کے اس پُر فتن معاشرے میں جہاں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں کسی کی اچھی نصیحت کو قبول کرنے اور اگر قبول کر لی جائے تو پھر اس پر عمل کرنے کا بہت فقدان پایا جا رہا ہے ،دینی یا دنیاوی کتب کا مطالعہ کرنے کا ذوق و شوق نہ ہونے کے برابرہوتا جارہا ہے،لائبریریوں کی صورت حال دیکھیں تو ان میں پڑی کتب نہ پڑھنے کی وجہ سے گردوغبار کی نذر ہو رہی ہیں،عبادت گاہوں کی خوبصورتی کو دیکھیں تو دل و دماغ خوشی کی وجہ سے باغ باغ ہو جاتے ہیں اور جب انہی عبادت گاہوں کو عبادات کے اوقات میں دیکھیں تو وہاں پرعبادت کے لیے آئے ہوئے افراد دیکھیں تو دل غمگین و پریشان ہو جاتے ہیں اور ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ زمین میں لوگوں کی کمی ہے یا لوگوں کو عبادات کے اوقات کا پتہ نہیں ہے؟وغیرہ۔ ایسے حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے ایک عربی شاعر کیا خوب کہتا ہے:’’ عالم اسلام کا حال ایک کٹے ہوئے درخت کے تنے کی طرح ہو گیا ہے، جس پر کفر کا غلبہ ہے ،ان کی مساجد کے مینارمرثیہ خواں ہیں اور ان کے بوسیدہ منبر شکوہ کناں ہیں‘‘۔
عقائد و اعمال ،افکار و خیالات اور اماکن مقدسہ ہر جگہ مخالفین اسلام کی دراندازی ہو رہی ہے۔نتیجے میں ہم مسلمانوں نے اپنے اسلاف کی میراث گنوادی ہے ،احکام دین کوکھو دیاہے۔جن علاقوں کو ہمارے اسلاف کرام نے اپنی محنت شاقہ سے حاصل کیاتھا،وہ ہم نے تن پروری اور اسلام بیزاری کے باعث گنوادیے ہیں۔
یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کسی چیز کا پتہ نہیں ہے بلکہ سب اچھائی، برائی، نفع اور نقصان کابخوبی پتہ ہونے کے باوجودصرف اور صرف ہٹ دھرمی اور لاپرواہی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ایسے ہی لالچ،طمع ،دھوکہ بازی، مطلب پرستی اور ایک دوسرے کو نیچا کرنا وغیرہ یہ سب بد ترین خصلتوں کو اپنائے ہوئے ہیں اور پھر یہ بری خصلتیں اپنے کمال عروج پر جارہی ہیں۔اکثر مقامات پر اللہ تعالیٰ اور پیارے رسول دونوں جہانوں کے سردار نبی کریم ﷺ کی مخالفت اور ان کے احکامات سے دوری بڑھتی جا رہی ہے حالانکہ دنیا و آخرت میں سب سے اعلیٰ اور قیمتی اگر کوئی چیز ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پیارے نبی کریم ﷺ کی اطاعت ہے اور یہی تکمیل ایمان کا ذریعہ ہے۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے،چھوٹوں پر شفقت اوربڑوں کا ادب و احترام کرنا بھی ایک خواب بنتا جارہا ہے،اسی طرح ہرطرف اور ہر وقت دین اسلام سے اعراض اور دوری بھی اپنے عروج پر ہے اور وہ اس قدر زیادہ کہ فرائض کی ادائیگی کرنا بھی لوگ چھوڑ رہے ہیں اور ساتھ مخالفت کرنا بھی معمول بنتاجارہا ہے۔
چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک سب حقیقی کامیابی کے بارے غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔جب ایسے حالات پیداہو جائیں تو پھر جو غور وفکر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کے دل میں کسی صورت چین نہیں آتا۔ تو بندہ ناچیز بھی غور وفکر کرنے والوں کی صف میں شامل ہوتے ہوئے اور حالات کا رخ درست جانب موڑنے کے لیے خاکسار نے اپنے اساتذہ کرام ،والدین ،بزرگوں اور دوستوں کی دعاؤں سے اپنے ہاتھ میں افادہ عام کے لیے قلم کو تھمام لیا اوراپنے نام کی مناسبت سے ’’امیر قلم ‘‘ کے زیر عنوان مضامین لکھ کر اپنے قلم کو حرکت دی اور اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قلم کے ذریعے بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے، اس کے ذریعے بھی کسی بے خبر کو خبردار کیا جاسکتا ہے اور اپنے دل و دماغ میں اس بات کو نقش کر لیا کہ اپنے حصے کی شمع جلانا بھی ضروری ہے اور کوئی تو میری جلائی گئی شمع سے روشنی پائے گا۔ یہ امید اپنے دل و دماغ میں سمائے کالم نگاروں کے دیس میں آباد ہو گیا اور ایسے ہی میں اپنے خدائے ذوالجلال سےُ پر امید ہوں کہ وہ میرے دل کی آواز اور میری امیدوں کو ضرور پورا کرتے ہوئے برکات کے دروازے کھولے گا ( ان شاء اللہ)۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں