فن لینڈ کا تعلیمی نصاب:۔فن لینڈ میں نصاب تعلیم بہت مختصر رکھا جاتا ہے۔فن لینڈ کے طلبہ دنیا کے ان خوش نصیبوں طلبہ میں شامل ہیں جنھیں دنیا میں سب سے کم ہوم ورک دیا جاتا ہے۔یومیہ ایک طالب علم کو زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے کا ہوم ورک کرنا ہوتاہے۔بچوں کی پوشیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا تعلیمی نصاب کا اہم مقصد ہوتا ہے۔کسی بچے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ۔ہر بچے کی عزت نفس کا بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے۔بچوں کو دیکھنے ،سوچنے ،سمجھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔دیکھے،سمجھے،سوچے اور سیکھے تجربات کو اپنے الفاظ میں پیش کرنا سیکھایا جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں بچے رٹے لگانے پر مجبور ہیں اگر کوئی طالب علم اپنے الفاظ میں کسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے تو اساتذہ کی طبیعت پر یہ بات بہت گرا ں گزرتی ہے اور طلبہ سے فرمانے لگتے ہیں ’’زیادہ عقلمندی دیکھنے کی کوشش مت کرو‘‘۔ہمیں اپنے نصاب کی تیاری اور تعلیمی پالیسی سازی کے وقت ایسے لوگوں سے رہنمائی اور مشاورت کرنی ضروری ہے جو اپنے اور دیگر ممالک کے تعلیمی نظام کا علم رکھتے ہوں۔فن لینڈ کے نصاب اور نظام تعلیم کے روشنی میں ہمارے تعلیمی نظام میں اصلاح کیسخت ضرورت ہے۔فن لینڈ کے اسکولوں میں امتحانات لینا یا دس منٹ سے زیادہ دورانیے کا ہوم ورک دینا ممنوع ہے۔فن لینڈ کے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ امتحانات لینا اور ضرورت سے زیادہ ہوم ورک دینے سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں۔فن لینڈ کی طرح جاپان نے بھی اپنے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ اور تعلیم کو دباؤ سے پاک بنانے کی بہترین کوشش کی ہے۔ابتدائی عمر میں بچے تعلیم کے دباؤ کا شکار نہیں ہوتے ہیں اور اپنے بچپن کے خوب مزے لیتے ہیں۔
جاپان کا نظام تعلیم:۔ ترقی یافتہ دنیا کے تعلیم نظام کا مجموعی طور پر جائزہ لیاجائے اور اس کا ہمارے ملک کے تعلیمی نظام سے تجزیہ و موازنہ کیا جائے تو یقیناہمارا تعلیمی نظام بچوں کے لئے ایک ناخوش گوار تجربے سے کم نہیں ہے ۔ روایتی تعلیم کی ہمارے ملک میں ابتدا ہوکر ایک سو پچیس سال سے بھی زیادہ عر صہ ہوچکا ہے لیکن آج بھی ہم اپنے تعلیمی نظام کا دیگر ممالک کے تعلیمی نظاموں سے تجزیہ و موازنہ کرنے سے قاصر ہیں ۔اپنے تعلیمی نظام کو بہتر اور طلبہ کے لئے آسان و مفید بنانے کے لئے ہمیں دیگر ممالک کے تعلیی تجربوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت درپیش ہے تاکہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر اور نئی نسل کے مستقبل کو روشن و محفوظ کر سکیں۔دوسری عالمی جنگ میں عبر ت ناک شکست اور ہولناک تباہی کے بعد جاپان نے دیگراقوام کے نظام تعلیم کے محاسن پر اپنی توجہ مرکوز کی اور بے مثال ترقی کی۔جاپانی مصنف کینزا بردادی جاپان کی تعمیری ارتقاء کے بارے میں رقم طراز ہے’’ہم مغربی ثقافت میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں لیکن ہم نے ایک چھوٹا بیج بویا تھا اور جس طرح بیج کی جڑیں زمین میں پیوست ہوتی ہیں اور وہ پھلتا پھولتا ہے اسی طرح ہم نے بھی خود کو از سر نو تخلیق کیا ہے۔‘‘جاپان کا تعلیمی سفر دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت بعد میں شروع ہوالیکن اس نے تعلیمی میدان میں دیگر ممالک کو بہت پیچھے چھوڑدیا ہے۔جاپان میں سوالات کے جوابات کی تیاری ،رٹہ بازی اور نہ ہی دانشورانہ پیمانے و فلسفیانہ ضابطے تعلیمی اساسیات کا حصہ ہیں۔امریکی مصنف پیٹرک اسمتھ(Patrick Smith) (1927-2014)اپنی کتاب جاپان،ایک نئی تفہیم(Japan,A Reinterpretaion)میں جاپانی اسکولوں کے اپنے تجربے اور مشاہدات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’میں جس اسکول میں بھی گیا ،وہاں سیکھنے کے لبرل اصول پر ہی عمل کیا جارہاتھا۔منامی مڈل اسکول چلانے والے تو شیوعجیما کا کہنا ہے کہ ’’سچائی فقط سائنسی حقیقت نہیں ہے۔اس کا مشاہد ہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی روز مرہ کی زندگی میں سچائی تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ فطرت میں مسائل تلاش کریں اور انھیں حل کریں‘‘اسکائی ایلمینٹری اسکول کے یوحسونو کا کہنا ہے کہ ’’میری ذمہ داری طلبہ کو ایسے بالغ افراد میں ڈھالنا ہے جو قوم کی مدد کرسکیںْمیرا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘فن لینڈ اور جاپانی نظام تعلیم کے تنا ظر میں دیکھا جائے تو کیا ہمارا تعلیم نظام شعور اجاگر کر رہاہے؟ہمارے ماہرین تعلیم جو نصاب تیار کررہے ہیں کیا یہ ایک باشعور معاشرے کی تعمیر و تکمیل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟جاپان کی تمام ترقی کا صرف ایک ہی لفظ میں احاطہ کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے تعلیم
جاپان میں تعلیم سے پہلے تہذیب (Manners before Knowledge)کے رجحان کو خاص اہمیتحاصل ہے۔یہاں بچے اپنے علمی سفر کا آغاز حروف کی رٹہ بازی کے بجائے بہتر تربیت سے کرتے ہیں۔جاپان میں بھی فن لینڈ کی طرح ابتدائی رسمی تعلیم(پرائمری ایجوکیشن) کا آغازسات سال کی عمر سیہوتا ہے۔رسمی اسکولی تعلیم سے پہلے بچے کنڈر گارٹنس میں زیر تربیت رہتے ہیں جہاں انھیں قوم کی خدمت کی اہمیت اور ذمہ داری کا در س اورتعلیم کے ذریعہ بحران پر کیسے قابو نا سکھایا جاتاہے۔جاپانی تعلیم کا راز صرف تین نکات میں پنہاں ہے (1)تعلیم کا مقصد تعمیر کردار(2)تعمیر ی شعبوں میں تعلیم و تخلیق(3)تعلیم بہ ذریعہ شراکت داری اور یہ وہ اہم نکتہ ہے جس کے ذریعے طلبہ نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو سکھاتے بھی ہیں۔اسکول سے بچوں کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جاپان نے اسی وجہ سے اپنے اسکولوں میں ایسے طریقہ درس و تدریس ا ور تعلیم و تربیت رائج کئے ہیں جو طلبہ میں ذہنی وسعت کے فروغ کے ساتھ ایک اچھا انسان بننے میں ان کی بھر پور مدد کرتے ہیں۔جاپان کا تعلیمی نظام دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔بچو ں کا اسکول میں داخلے کے چار سال بعد تک کوئی امتحان نہیں لیا جاتا۔ابتدائی چار سالوں میں اسکول بچوں کی کردار سازی پر توجہ دیتے ہیں۔بچوں کو والدین ،اساتذہ،ہمسایوں،ہم جماعت بچوں سے معاملات ،برتاؤ اور اخلاق سکھائے جاتے ہیں۔اپنے اسکول کے ابتدائی چار سالوں میں بچے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت اور انسانوں کا اکرام اور جانوروں سے صلہ رحمی کا سبق سیکھتے ہیں۔ جاپانی طلبہ اور اساتذہ کے درمیان گہرے روابط ہوتے ہیں اور ان کے درمیان بہت ہی کم فاصلہ ہوتا ہے۔ابتدائی تین سالوں تک طلبہ کو کوئی روایتی تعلیم نہیں دی جاتی۔بچے اپنے اسکول ،کمرۂ جماعت ،کینٹین اور بیت الخلاء کی خود صفائی کرتے ہیں۔اپنے اسکول کی صفائی کے ذریعے بچوں میں صفائی کی اہمیت جاگزیں ہوتی ہے اس کے علاوہ اپنے اور دوسروں کے کام کی عزت و قدر شناسی ان میں پیدا ہوتی ہے۔ جاپان میں ہرکمرۂ جماعت میں دویا اس سے زیادہ ٹیچرز بیک وقت موجود رہتے ہیں تاکہ بچوں پر خاص توجہ دی جاسکے۔ہر کمرۂ جماعت میں کم از کم ایک مددگار(اسسٹنٹ) ٹیچر ضرور ہوتا ہے۔بچوں کے اسکول بیگ میں صرف ایک آدھ کہانی (اسٹوری) کی کتاب یا ایک یا دو ورک شیٹس پائی جاتی ہے ۔تمام نوٹ بکس اور کاپیاں اسکول پر ہی رکھی رہتی ہیں۔ہر موضوع (ٹاپک) یا سرگرمی(ایکٹویٹی) کے بعد بچوں کی استعداد کی جانچ کے لئے کوئز جیسی چھوٹی جانچ (assessment)کا تصور پایا جاتا ہے۔ماہانہ ،سہ ماہی ،شش ماہی اور،سالانہ امتحانات نام کی کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی جس کی وجہ سے بچے دباؤ سے پاک ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔روایتی طرز تعلیم و تدریس کے لئے جاپان میں کوئی جگہ نہیں ہے جہاں کلاس میں بچے اپنی اپنی کتاب کھولے استاد کی اکتاہ دینی گفتگو سنتے جائیں ۔اس کے بجائے کوئی ویڈیو دکھاکر بچوں کی قوت فکر کو مہمیز کرنے والے سوالوں کے ذریعے ان کو سلف لرننگ کی راہ پر ڈالا جاتا ہے جہاں وہ اپنے ہر سوال کا جواب از خود دریافت کرلیتے ہیں۔روایتی تعلیم کے بجائے بحث و مباحثوں کے ذریعے بچوں میں کرو اور سیکھو کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ جاپان کا تعلیمی نظام اپنی خوبیوں کی وجہ سے معروف ضرور ہے لیکن اپنے طویل اسکولی دورانیہ کی وجہ سے ہدف تنقید بھی بنا ہوا ہے۔ فن لینڈ اورجاپان کے تعلیمی نظام سے ہمیں بہت کچھ درس و تدریس اور تعلیم وتربیت کے گر سیکھنے کو ملتے ہیں۔
تعلیم کو جبر اور اکتاہٹ سے پاک بنانے میں معاون تدابیر؛۔بچوں میں تعلیم و اکتساب سے دلچسپی پید ا کرنے کے لئے روایتی طرز تعلیم و طریقہ تدریس سے احتراز کی اشد ضرورت ہے۔اسکول کے اوقات کار میں تبدیلی نہ صرف طلبہ کے لئے معاون و مفید ثابت ہوگی بلکہ اساتذہ کی کارکردگی میں بھی دباؤ کی کمی کی وجہ سے نکھار پیدا ہوگا۔اسکول کے کھلنے کے اوقات میں انقلابی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے تاکہ بچے طوفانی انداز میں دن کا آغاز کرنے کے بجائے پر سکون انداز میں گھروں سے اسکول کے لئے رخصت ہو سکیں۔ اسکول کے کھلنے کے اوقات نوبجے سے ساڑھے نوبجے کے درمیان ہونا چاہئے۔ صبح میں مدارس کو ابتدائی اوقات میں کھول دینے کی وجہ سے طلبہ متعدد مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ غذائیت اور نیند کی کمی کاہے۔سوا آٹھ بجے اور ساڑھے آٹھ بجے اسکول پہنچنے کے لئے بچوں اور اساتذہ کو کم از کم ایک گھنٹہ سفر پر صرف کرنا پڑتا ہے اور ایک گھنٹہ نکلنے سے پہلے کی تیاری پر۔ تجربہ کار سینیئر اساتذہ جو اپنے علم و فن میں یکتا ہوتے ہیں لیکن بڑھتی عمر کی وجہ سے متعدد عوارض و مسائل کا شکار بھی رہتے ہیں یہ اوقات ان کے لئے بھی ایک سنگین مسئلہ کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔علی الصبح معصوم طلبہ تو کیا بڑی عمرکے لوگوں میں بھوک کی اشتبہا سر نہیں اٹھتی ہے تو پھر کس طرح یہ معصوم جانیں بغیر بھوک کے ناشتہ کھا پائیں گے۔ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ پر چند لقمے زہر مار لیتے ہیں۔نیند کی کمی سے مضمحل بچے جب اسکول پہنچتے ہیں تو پہلے اور دوسرے پیریڈ میں ہی ان کی توانیاں سلب ہوجاتی ہیں۔تعلیم و تدریس میں اپنی توجہ کھو بیٹھتے ہیں۔کمرۂ جماعت کے معمولات بھوک اور نیند کی کمی کے باعث ان کو اکتاہٹ کی جانب مائل کر نے لگتے ہیں۔ناشتے کی کمی کی وجہ سے تحریر (ہائینڈ رائٹنگ) خراب ہوجاتی ہے۔پنسل اور پین پر گرفت ٹھیک طور سے نہیں کر پاتے ہیں جس کے نتیجے میں تحریر خراب اور بھدی ہوجاتی ہے۔
بچوں کو اسکول میں داخل کرنے کی عمر میں اضافے کی اشد ضرورت ہے ۔یہ ایک ناقابل فراموش سچائی ہے کہ فہم ، ادراک اور شعور عمر کے ساتھ ترقی کرتے ہیں ۔بالکل اوائل عمری میں بچوں کو تعلیم میں جھونک دینے سے ان میں چند استعداد یں ضرور فروغ پاتی ہیں لیکن اکتساب کی صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں۔اوائل عمر ی میں بچوں کو روایتی و رسمی تعلیم کے بجائے نشست و برخواست کے آداب ،گفت و شنید کے اصول ،تہذیب و تمدن ،سماجی و معاشرتی اقدار کے فروغ کے سامان بہم پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ماحول اور فطرت پر غورو خوض کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے بعد روایتی و رسمی طرز تعلیم کی طرف رخ کیا جاسکتا ہے۔رسمی اسکولس سے پہلے کنڈرگارٹن اور پری اسکول کو نئی راہوں پر گامز ن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بچوں کو نوشت و خواند کے بجائے معاشرتی علوم کی آگہی اور فطرت میں فکر و تدبر کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں۔ کتابوں اور بستے کے بوجھ کو کم کرنے کے ساتھ ہوم ورک کی لعنت سے تعلیمی نظام کو پاک بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ پرائمری کی ابتدائی دو جماعتوں میں صرف ایک زبان (مادری زبان ہوتو بہتر ہے) اور دوسرا ریاضی کو نصاب کا جزو بنایا جائے۔تیسری جماعت سے مطالعہ ماحول کا مضمون شامل نصاب کیا جائے ۔چوتھی جماعت سے بین الااقوامی زبان(انگریزی) کی تدریس کااہتمام کیا جاسکتا ہے۔زبانوں کا علم یقیناًبہتر تعلقات کا نقیب ہوتا ہے لیکن بچوں کو جب تک ان کی مادری زبان پر عبور حاصل نہیں ہوپائے گا دیگر زبانیں ان کے لئے درد سر ،وبال جان اور کسی بوجھ سے کم نہیں ہوں گی۔پرائمری درجات کی تکمیل کے بعد اضافی زبان سیکھنے میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو چھٹویں جماعت سے مقامی زبان یا کوئی اور زبان کے انتخاب کی سہولت فراہم کی جانی چاہئے۔تین زبانوں کی تعلیم یقیناًطلبہ کے لئے بوجھ کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ہمارے نصاب سے زبانوں کے بوجھ کو کم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔بہتر فہم ،تفہیم و ادراک کی خاطر سرگرمیوں پر مبنی تدریس کی انجام دہی ضروری ہے۔روایتی تدریس کے بجائے روزانہ ورکشاپس طرز کے 50تا 60منٹ کے تین اور زیادہ سے زیادہ چار پیریڈس رکھے جائیں۔روزانہ کسی تین مضامین کی تدریس کا اہتمام کیا جائے۔مضامین کی تدریس میں بچوں کی شراکت داری(Involvement)ٹیچر سے زیادہ ہو۔کمرۂ جماعت میں استاد کم بولے ۔بچے کے لئے سرگرمیوں پر مبنی کام زیادہ ہوں۔سرگرمیوں کی انجام دہی کے دوران طلبہ کی مسلسل ہمت افزائی کی جائے۔ہر پیریڈ کے بعد 15تا20منٹ کا وقفہ فراہم کیا جائے۔ ہر روز بچوں کو مطالعہ کی عادت کے فروغ کے لئے بچوں کو سائنس اور فکشن وغیرہ مبنی رسائلفراہم کئے جائیں۔ غورو خوض اور بحث ومباحثے کے طریقے کو رواج دیا جائے۔ اسکول کے کل اوقات کنڈرگارٹن کے لئے تین تا ساڑھے تین گھنٹے،پرائمری جماعتوں کے لئے چار گھنٹے ،ثانوی درجات کے لئے چار تا ساڑھے چار گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونے چاہئے تاکہ اسکول سے رخصت کے بعد طلبہ ایک دو گھنٹے آرام کر سکیں۔شام میں ایک دو گھنٹے کھیل کود ورزش اور دیگر مشاغلوں میں صرف کر سکیں۔طلبہ کی ہمہ جہت ترقی و نشو ونما کے لئے اسکول کے اوقات کار میں تبدیلی بہت ضروری ہے۔
پرائمری درجات میں کسی بھی قسم کے امتحانات کے انعقاد سے گریز کیا جائے۔بچوں کی استعداد کی جانچ اور ان کے فروغ کے لئے سرگرمیوں کے ذریعہ ان کے اکتساب اور ذہنی ترقی کی پیمائش انجام دی جائے۔ ماہانہ ،سہ ماہی،شش ماہی یا سالانہ امتحانات کے بغیر ہی ہر بچے کی انفرادی جانچ کے اختراعی و تخلیقی اصول مرتب کیئے جائیں۔ جماعت میں درجہ اول دوم سوم کے اعلانات کے ذریعہ بچوں کو احساس کمتری و ذہنی دباؤ کا شکار نہ کیا جائے۔ماں باپ بچوں کے نشانات دیکھنے کے بجائے ان کے سیکھنے کی شرح پر نظر رکھیں۔والدین اگر ان کا بچہ کسی دوسرے بچے سے پیچھے رہ گیا ہو تو سوال نہ کریں گے بیٹا آپ اول کیوں نہیں آئے۔ والدین اپنا مزاج بدلیں بچوں سے سوال نہ کریں گے کہ وہ اول کیوں نہیں آیا ورنہ ان کا بچہ زندگی بھر اول درجے کے پیچھے لگا رہے گا۔بچوں کی قابلیت کو سراہیں۔ ان میں قدر شناسی کا جذبہ پیدا کریں۔ زیادہ نشانات حاصل کرنے سے زیادہ سیکھنے ،سمجھنے اور سیکھے سمجھے پر عمل کرنیپر بچوں کو مائل کریں۔ہمارے امتحانات کے نظام میں تبدیلی و اصلاح کی ضرورت ہے ۔موجودہ امتحانی طریقہ کار میں صرف یاداشت کا امتحان مقصود نظرآتا ہے۔طلبہ کی قابلیت ،ذہانت اور مضمون میں ان کی بصیرت و مہارت کا صحیح اندازہ موجوہ امتحان کے طریقہ کار سے نہیں لگا یا جاسکتا ۔ ہمارے امتحان کے نظام کی سب سے بڑی خراب یہ ہے کہ ایسے طلبہ کے بہتر نتائج دیکھنے میں آئے ہیں جنھوں نے امتحان سے عین دو چاردن پہلے اتفاقاً ایسے سوا ل پڑھ لئے جو امتحان میں بھی آگئے برخلاف اس کے وہ طلبہ جو سارا نصاب تو پڑھ چکے سوائے ان دو چار سوالات کے جو امتحان میں آگئے۔قابلیت ،صلاحیت ،استعداد کی جانچ کے بجائے یہ تو قسمت کی جانچ ہورہی ہے کہ دیکھیں کس کی قسمت ساتھ دیتی ہے اور کون مقدر کا سکندر ہے۔
اساتذہ کے بغیر تعلیمی نظام ادھورا وہ بے معنیٰ ہوکر رہ جاتاہے۔ہمارے نظام تعلیم اس وقت تک نہیں بدل سکتا ہے جب تک اساتذہ اپنے طریقہ ہائے تدریس میں خوش گوار تبدیلی نہ لائیں۔اساتذہ بچوں کو ڈرا دھمکاکر اور جبر و تشدد سے کتابوں کا حافظ تو بنا سکتے ہیں لیکن اس کے علمی لیاقت ،شعور و دانش کو ہرگز راہ نہیں دے سکتے۔تعلیمی نظام کی پسماندگی کے ازالے کے لئے اور طلبہ کی بہتری کے لئے اساتذہ کو جدید طریقہ ہائے تدریس کو اپنانا ہوگا ۔اسکولوں کے ذمہ داران اساتذہ کو جدید طریقہ ہائے تدریس سے روشناس کرنے کے لئے خصوصی تربیت(ٹرینگنس ) کا اہتمام کریں۔استاد کی اہم ذمہ داری ہے کہ نصابی کتب میں موجود ثقیل،بے کیف مواد و غیر فائدہ بخش فلسفے سے مفید معلومات کو چھان کر طلبہ کے سامنے آسان اور عام فہم انداز میں پیش کرے۔تدریسی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے علاوہ استاد اپنے طلبہ کا فکری رہبر ،رہنما اور مربی ہوتا ہے ۔وہ طلبہ میں اچھے عادات ،اصول اور قوانین کے احترام کا جذبہجاگزیں کرے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی پسماندگی کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں والدین،اسکول انتظامیہ اور اساتذہ میں کوئی ہمدردانہ جذبہ اشتراک موجود نہیں ہے۔اولیائے طلبہ اپنے نونہالوں کی اخلاقی بے راہ روی اور معیار تعلیم کی پستی کا ذمہ دار اساتذہ کو سمجھ کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔والدین اپنے فرائض منصبی سے سرموئے انحراف نہ کریں ورنہ اللہ کے پاس سخت باز پرس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تعلیمی ادارے طلبہ کو مناسب دوستانہ ماحول فراہم کریں۔اسکولوں کو قید خانوں اور پولس اسٹیشنوں میں تبدیل نہ کریں۔طلبہ کی عزت نفس کا خاص خیال رکھیں۔طلبہ کے مسائل اور تجاویز کو غور سے سنیں اور مناسب تجاویز پر عمل بھی کریں۔تعلیمی اداروں کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار مختلف پروگرامس کا انعقاد باقاعدگی سے عمل میں لائیں۔ تعلیمی ادارہ محض اینٹ ،پتھر اور کنکریٹ کے ڈھانچہ کا نام نہیں ہے بلکہ آدمی کو انسان بنانے والی کارگاہ کا نام ہے۔کسی بھی اسکول ،مدرسے،کالج اور یونیورسٹی کے لئے اس کے پاس سے نکلنے والے ڈاکٹر ،انجینئر اور دیگر پیشہ وار افراد کی تعداد فخر کاباعث نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ جب فخر کرسکتے ہیں جب ان اداروں سے نکلنے والے افراد معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ پیشکریں۔تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد پیشہ وار افراد کی تیاری نہیں ہے بلکہ ملک و معاشرے کی تعمیر ہے۔ایسے تعلیمی ادارے جو طلبہ میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کی کردار سازی کا کام انجام دیتے ہیں یقیناًانھیں انسانیت کی تعمیرگاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔اگر نظام تعلیم ناقص ہوتو ملک و قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بلا تامل ٹھوس و صحت مند بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل اور پوری قوم کو نقصان عظیم سے محفوظ رکھا جاسکے۔
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
بہترین مضمون ۔ جزاک اللہ ۔