“منزل”  

میرے امتحان ہونے والے ہیں،مجھے اچھی کوچنگ لینی ہے،میرا اچھے کالج میں ایڈمیشن ہوجاۓ،مجھے جاب کی ضرورت ہے،مجھے نئے ماڈل کا موبائل چاہیے۔مجھے پارٹی کے لیے کپڑے سلوانے ہیں،مجھے ٹی وی پر فلاں خاتون سےکوفتے سیکھنے ہیں، ویک اینڈ پر دعوت کرنی ہے،مجھے کاروبار اسٹیبلش کرنا ہے،کمائی کے لیے نئی جگہ انویسٹمنٹ کرنی ہے،گاڑی چاہیئے،اچھا اسٹیٹس چاہیئے،اثرورسوخ والوں سے تعلقات چاہیے، پوش علاقے میں بنگلہ چاہیے، بچوں کی بڑے خاندان میں شادی کرنی ہے، اولاد کو باہر بھیجنا ہے وغیرہ

 یہ وہ تمام جملے ہیں جو ہم اکثر اپنے ارد گرد کے ماحول میں سنتے اور محسوس کرتے ہیں ۔ یہ وہ  ترجیحات اورفکریں ہیں جو ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق رکھتا ہے۔ ان فکروں پر غور کیا جاۓ تو ان میں یہ بات یکساں ہے کہ ایسے معاشرے میں رہتا ہر فرد صرف اپنے حد تک محدود  ہوتا ہے اور صرف اپنا نام کمانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر کوئی طالبعلم ہے تو وہ پڑھائی کے  لیے ایسے فکر مند ہے جیسے زندگی موت کے فیصلے کی بات! جوانی کے دور میں پیسا کمانے کی فکر!خاتون کے رویہ پر غور کریں تو وہ فیشن کی دلدادہ ہیں یا مختلف ذائقے بنانے میں مصروف! مرد اپنے کاروبار کو مزید سے مزید بڑھانا چاہتا ہے پھر بچوں کے کیریئر اورانکی شادیوں کی فکر!  اس طرح ہر کوئی ایک ہی مدار کے گرد چکر لگا رہا ہے وہ ہے “میں” !! نہ اسے پڑوسیوں کے دکھ کی فکر ہے نہ رشتےداروں کے غم کا خیال، نہ اسے اپنے ملک کو کچھ دینے کا جذبہ ہے نہ اسے امتی ہونے کے فریضے سے کوئی سروکار!  بس فکر ہے  تو صرف اس دنیا کو بہتر بنانے کی!!

                اس معاشرے کی اگر اخلاقی حالت پر غور کریں تو وہی “میں” کا مسئلہ سامنے اور معاش حالت کی بات کی جاۓ تو “میں” کی ضروریات ہی پوری نہیں ہوتیں سماجی حالت پر نظر ڈالی جاۓ تو “میں” کے پاس وقت نہیں!!

        ان سب ردّ عمل کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اپنی مشترکہ اور  عظیم منزل کو بھلا بیٹھے ہیں۔ جہاں ہمیں اچھا گھر بھی ملے گا ،اچھا کھانا بھی،اچھا پڑوسی بھی،اچھا ساتھی بھی۔عزت بھی، شہرت بھی، وہ سب جو ہمیں چاہیے۔۔۔ وہ بھی بغیر کسی روک ٹوک کے۔۔۔!  مگر وہ منزل سستی نہیں، وہ منزل آسان نہیں، ہر ایک کا مقدّر نہیں۔۔۔ اس منزل کے  لیے قربانی چاہیے، اس منزل کے لیےجدّوجہد چاہیے ،اس منزل کے لیے صبر چاہیے، اس کے لیے ہمّت چاہیے ،حوصلہ چاہیے،اسکے لیے دنیا کی حقیر خواہشات کا رد کرنا پڑتا ہے۔۔۔ اپنے دل پر قابو کرنا پڑتا ہے اور اپنے عمل کو صرف اس مقصد کے لیے سرانجام دینا ہوتا ہے

      یہ منزل ہوئی نا پھر بہت مہنگی !! مگر جو اس کو پالے وہی اصل کامیاب، وہی عزت والا،وہی خوش نصیب، وہی غنی، وہ منزل ميرے رب کا عظیم انعام يعنی “جنّت” ہے۔۔!

حصہ

جواب چھوڑ دیں