چھ گلے پڑ جائیں گے

الیکشن کے دن قریب آنے والے ہیں۔ چلو چلو سب کراچی کی جانب دوڑلگاؤ۔ میدان صاف ہے۔ ایم کیو ایم ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ اس کو ووٹ پڑیں گے بھی اور بہت بڑی تعداد میں نہیں بھی پڑیں گے۔ جس کا فیگر بھی آٹھ دس ہزار میں آگیا وہ پار لگ جائے گا۔ ساراکچرا صاف کردیا گیا ہے۔ نہ جانے کتنے اندر ہیں اور کتنے اوپر پہنچا دیئے گئے ہیں۔ جو باہر ہیں یا باہر نکالے گئے ہیں انھیں دھلائی مشینوں میں ڈال دیا گیا۔

یہ تھاایک شوروغوغا۔ جس کو دیکھو وہ کراچی کی جانب دوڑ پڑا تھا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دوڑلگاکر بھاک کر آنے والوں میں کچھ کا نصیب جاگا اور کچھ بدنصیب کے بدنصیب ہی رہے۔ جاگنے والوں کے نصیب جاگے لیکن جو شہر آنے والے کے نصیب جگا گیا وہ ایک مرتبہ پھر اس کو دھوکا دے گئے۔ یہ شہر دھوکے پر دھوکا کھانے والا ایک بد نصیب شہر ہے۔ یہاں کے باسی ہر امید دلانے والے کے پیچھے دوڑ دوڑ کر جاتے ہیں۔ کیا بھٹو، کیا اصغر خان، کیا جنرل نیازی، کیا ضیا، کیا بی بی اورکیا میاں۔ اس شہر کے باسی دوڑ دوڑ کر اپنے پھیپھڑے تباہ کر بیٹھے۔ کوئی ایک قدم بڑھاتا ہے وہ سو قدم اس کی جانب لپکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک شخص چند قدم کراچی کی جانب بڑھا۔ کراچی والوں نے دوڑلگادی۔ اس کو چوما چاٹا۔ اپنی ہزاروں کی رائے اس کی جھولی میں ڈال دی۔ اس امید پر کہ شاید کراچی پاکستان کی تاریخ میں تخت سلطانی پر متمکن نظر آئے لیکن معلوم ہوا کہ وہ تو بھونرا تھا۔ سب رس چوس کر اڑتا بنا۔ اپنی نشست خالی کرگیا۔ جھولی میں پڑے محبتوں اور عقیدتوں کے سارے گلاب و سمن جھاڑ دیئے۔

لکیر کو کیا پیٹنا۔ لکیر پیٹنے کا فائدہ بھی کیا ہے۔ لکیرڈال کر جانے والے سے گلا کریں بھی تو کیا اس لئے کہ قسمت میں یہی کچھ لکھ دیا گیا ہے اور وہ بھی پتھر کی لکیروں کی طرح۔ سیاہی بھی انمٹ لگائی گئی ہے کہ مٹائی نہ جاسکے۔ اگر کوئی شکایت ہے تو فقط یہ ہے کہ جاتے جاتے کراچی کو خود ہی قتل کرجاتا۔ محبوب کے ہاتھوں کون خوشی سے مرجانا پسند نہیں کرتا۔ ظلم تو یہ ہوا کہ جن قاتلوں سے نجات کیلئے کسی کو نجات دہندہ سمجھا وہی انھیں قاتلوں کے حوالے کرکے چلاگیا۔ لیکن کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

جو جلاتا ہے کسی کو خود بھی جلتا ہے ضرور

شمع بھی جلتی رہی پروانہ جل جانے کے بعد

کچھ ایسا ہی منظر سامنے نظر آرہا ہے۔ جس سے نجات کی خواہش تھی انھیں کو گلے لگانے والا بھی ان کی دسترس سے بچ نہ پائے گا۔ “نون” اور “پی پی” دو دو مرتبہ انھیں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچی ہیں۔ مگر کون گزرا وقت یاد رکھتا ہے۔ تاریخ سے کب کسی نے سبق سیکھا۔ 6 بھی 6 سو بن گئے ہیں۔ 25۔ 25 ہونے کے باوجود بھی زمین ان کیلئے اتنی زرخیز ثابت نہ ہو سکی جتنی ان 6 کیلئے ہے۔ اندر ہوں تو تخت باہر ہوں تو تختہ۔ واہ کیا بات ہے۔ کراچی میں بھاری اکثریت رکھنے والی “محبوب” کی پارٹی اب ان کے پنجہ طلسمات میں۔ جونہی کسی نے سر اٹھایا قدم باہر کی جانب۔ یونہی تو نہیں مانے ہونگے۔ بہت کچھ پر راضی ہوئے ہونگے۔ شرائط زبانی بھی نہیں تحریری ہیں۔

سیاست فریب در فریب کا نام ہے۔ یہ فریب دہی دو طرفہ ہوتی ہے۔ نہ یہ 6 بنا مفاد اور بنا اخلاص قریب ہوئے ہونگے اور نہ 115 والے خلوص و محبت کا پیکر ہیں۔ لیکن یہ تو طے ہے جو بادشاہ گر ہوتے ہیں وہ بادشاہ گر ہی ہوتے ہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ الیکشن کے جو نتائج ہیں اور خاص طور سے کراچی سے جاری شدہ نتائج، وہ ایک ایسا خواب ہیں جس کی تعبیر بالکل ایسی ہی ہے جیسے وہ خواب جو “علامہؒ” نے دیکھا تھا۔ کسی وقت بھی آنکھ کھلے گی وہ “خواب” ہی ثابت ہونگے۔ یہ بھی طے ہے کہ بہت سارے حلقوں کو ری اوپن کرنا “طے” کر لیا گیا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ اب تک 6 والوں کو سب ہی لولی پاپ دے کر یہ سمجھتے رہے ہیں کہ بہلادیا لیکن یہ لولی پاپ لیتے بھی رہے ہیں اور مزے لے لے کے چوستے بھی رہے ہیں لیکن “بہلے” کبھی نہیں۔ پھر ایسی صورت میں جب یہ بادشاہ گر بھی ہوں تو کیسے بہلایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی مانا کہ یہ اپنے اس قائد سے ہر نسبت توڑ چکے ہیں جن سے آپ نجات دلانا چاہتے تھے لیکن یہ بھی تو طے ہے کہ ہیں تو اسی کے تربیت یافتہ۔ کہتے ہیں رمضان میں شیطان قید کر دیا جاتا ہے تو کیا کوئی بدی بند ہو جاتی ہے؟۔ وہ قید ہونے سے پہلے کروڑوں کی تربیت کرجاتا ہے۔ ویسے تو آپ خود بھی کسی سے کم نہیں۔ آپ کو ان کی اور ان جیسوں کی ضرورت ہے اور وہ اور ان جیسے آپ کی تلاش میں ہی تو تھے۔ آپ کو وہ مل گئے اور وہ آپ سے گھل مل گئے۔ سب ایک دوسرے کی ضرورت ہیں لیکن ایسے سب ضرورت تو ہوتے ہیں لیکن ضرورت سے بڑھ کر اذیت ہوتے ہیں۔

جہاں جہاں بھی حلقے کھل رہے ہیں “حلقوم” کاٹ کر رکھے ہوئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق کراچی میں بھی ایسا ہی ہونا ہے۔ کھولیں گے تو بہت کچھ کھلے گا نہیں کھولیں گے تو پھر تخت کے تختہ ہونے کا ڈر۔ خریدوفروخت میں وفا و بیوفائی والی کہانی تو ہوتی نہیں مطلب براریاں ہوتی ہیں۔ کب مطلب پورا ہوجائے، کب مفادات بدل جائیں۔ کب کوئی اندر والا باہر اور باہر والا اندر ہو جائے۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔

جو بات سننے میں آرہی ہے اور جو ذرائع دکھا رہے ہیں وہ بھی عجب کہانیاں ہیں۔ جو جو آزاد ہیں خرید کرغلام بنائے جارہے ہیں۔ ان سے اسٹامپ پیپر پر غلامی قبول کرنے کے دستخط بھی کرائے جارہے ہیں لیکن 6 تو اپنی شرائط پر دستخط کرواگئے۔ دراصل وہ آزاد تو تھے نہیں۔ جن کے آپ پابند تھے وہ بھی انھیں کے غلام تھے۔ یس مین۔ آزادوں کو خرید کر غلام بنایا جاسکتا ہے۔ غلاموں کو مزید کیا غلام بنایا جاسکتا ہے وہ بھی دوسرے غلاموں کا۔ ادھر کچھ بھی پہلو تہی ہوئی ادھر بگڑ گئے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 6 کی ایسی ضرورت بھی نہیں ادھر جہاز بھی حاضر ہے اور ریم چارجروں کا ہجوم۔ پاؤں زمین پر ٹکنے ہی نہیں پاتے۔ جنکو 20 فٹ سے زیادہ گلیوں کی چوڑائی بڑی مشکل سے نظرآتی ہو ان کو بنی گالہ کا سیکڑوں ایکڑ پر بنا محل دکھایا جائے گا تو کیا کیا خیالات نہیں آئے جائیں گے۔ مگر وہاں جانے والے 35 سال سے ایسی ہزاروں پُر فضا فضائیں دیکھتے آئے ہیں اس لئے ان کی آنکھیں خیرہ نہیں ہو سکتیں۔ باقی باتیں تو چھوڑیں اگر کراچی کی “ہرجائی” والی سیٹ بھی ضمنی الیکشن میں ہاتھ سے نکل گئی تو؟ لیکن کون سوچتا ہے۔ انسان عجلت پسند ہے۔ یہ اللہ کہہ رہا ہے اس لئے عجلت کا تقاضہ ہے کہ جو سامنے ہے اسے کھینچو۔ بندہ ملے اسے کھینچو۔ کامیابی کی کوئی موہوم سی امید ملے اسے کھینچو۔ کرسی مل رہی ہو تو اسے کھینچو۔ مفادات نظر آرہے ہوں تو انھیں کھینچو المختصر جو جو بھی سامنے نظر آرہا ہو بس کھینچ لو۔ کل کی کل دیکھی جائے گی۔ 1947 سے یہی کھینچا کھینچی جاری ہے۔ پورا ہند نہیں تقسیم شدہ جو ملے اسے لے لو۔ بڑا پاکستان نہیں چھوٹا ہی لے لو۔ یہ بھی نظام ہاضمہ پر گراں ہو تو نصف سے بھی کم لے لو۔ باقی میں بھی کوئی دشواری ہے تو اسے دیکھ لیا جائے گا۔ کبھی سنجیدگی سے عجلت پسندی سے صرف نظر نہیں کیا۔ جب پورا ماضی “بس” جو مل جائے اسے لے لو والی تربیت وراثت میں ملی ہو تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس مرتبہ بھی “سامنے” کی بجائے وہ نعمتیں جو بعد میں بھی بشرط نصیب مل سکتی ہوں اس کا انتظار کیا جاتا اورراندہ درگاہ والوں کو اوج ثریا تک پہنچایا جاتا۔

“ہرجائی” صاحب! میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے ڈیش ڈیش پال لئے ہیں اور وہ بھی دو دو اور وہ بھی اپنی آستینوں میں۔ ایک 6 اور دوسرا علامہ۔ یہ 6 شاید ڈسنے میں کچھ رعایت کر جائے کہ انھیں کچھ “بٹورلینے” پر راضی کیا جاسکتا ہے لیکن علامہ تو پاگل بھی ہے اور پاگل کا کچھ بھروسہ نہیں ہوتا۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو خلط ملط کرکے رکھ دے اسے کسی بندے کی “بے عزتی” کی کیا پروہ ہو سکتی ہے۔

موجودہ الیکشن کے بعد بھی آپ کی کراچی کی سیاست پر نظر کمزور ہی نظر آرہی ہے۔ تحریک انصاف بے شک یہاں سے سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن کیا آپ کو اندازہ نہیں کہ وہ اپنے ووٹ بینک میں کسی قسم کا کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کر سکی۔ گویا اس کے ووٹ وہی ہیں جو 2013 میں تھے جبکہ 6 والے بمشکل 2 لاکھ ووٹ لے سکے۔ کس کا ووٹر خاموش ہوا اور کسی کیلئے نہیں بولا؟۔ غور طلب بات ہے۔ ایسے میں آپ 6 کو آسمان پر لے گئے۔ ایک تو حلقے کھولنے پر بات حلقوم میں پھنس سکتی ہے اور حاصل شدہ ووٹ کے ڈھول کا پول کھل سکتا ہے دوسرے یہ کہ خاموش رائے دہندگان کب جاگ جائیں۔ ایسے میں باگ دور 6 کو پکڑا دینا خود آپ کے اپنے منتخب ممبران کیلئے کیونکر خوش کن ہو سکتی ہے۔

سورج کو چراغ دکھانا اور مجھ جیسے چھوٹے منھ والے کا بڑی بات کہنا گو کہ کوئی عقلمندی نہیں لیکن میں کونسا بقراط ہوں اس لئے کہے دیتا ہوں کہ آپ کا 6 کو گلے لگانا بہت ہی مہنگا پڑے گا۔

کوئی ایک پریشانی کو پال بیٹھے ہوں تو پھر بھی مداوے کا امکان ہوتا ہے۔ سہارے یا تو عادت بن جاتے ہیں یا مصیبت۔ عادت بن جائے تو لات سہاروں کی اوپر ہوجاتی ہے اور سہارے کی نہ مانی جائے تو وہ قیامت بن جاتے ہیں۔ سوچتے ہونگے کروں تو کیا کروں۔ کوئی کیا گیا فیصلہ “کفیل” رد کردیتا ہے اور کوئی “استخارہ”۔ ان سب سے نکلوں تو “جہاز” گولہ و بارود سے بھرا نظر انے لگتا ہے کیا معلوم کب بنی گالہ پر خود کش حملہ ہو جائے۔ جہاز کی مانوں تو “مخدومینوں” کا جان کو آجانے کا خوف دل کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ جب سارے اولادیں “جھولے” والوں سے لی جائیں گی تو “اصیل” کی کہانی کہاں سے معلوم ہوگی۔ بھان متی نے تو اینٹوں اور روڑھا جمع کرکے خاندان بنایا تھا۔ اینٹوں اور روڑھوں کی اصیل کا علم تو سب کو ہی ہوتا ہے لیکن “جھولے” والوں کا تو قیامت کے دن ہی معلوم ہو توہو۔ ایسے میں 6 اور۔

آپ نے تو کراچی والی چھوڑ ہی دی جس سے کراچی والے اور آپ جان چھڑانے کے متمنی تھے لیکن جاتے جاتے کراچی کو انھیں 6 کے حوالے کر گئے۔ ہماری خیر ہے، جو آپ کے ہیں ان کیلئے دعا گو رہیے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں