دنیا بھر میں تعلیم سیکھنے کا نام ہے۔ایک اچھے اسکول میں بچوں کوسوچنا اور تخلیق کر نا سیکھایا جا تا ہے۔اگر بچہ خیالات کا اظہا ر اپنے الفاظ میں اور دوسروں کے سامنے اعتماد کے سا تھ علمی گفتگو کر سکتا ہے توکہہ سکتے ہیں کہ اس نے سیکھا۔بورڈ سے کا پی کر نا،سوال جواب یا د کر نا اور امتحان میں سوالوں کا جواب دینا سیکھنانہیں ہوتا۔چند مضامین یاد کر کے امتحان میں ان کو تحریر کر دینا سیکھنانہیں کہلاتااور سیکھنے کا عمل اسی وقت رک جا تا ہے جب بچہ رٹنا شروع کرتا ہے۔جو بچے اسکول میں سیکھتے ہیں وہ عملی زندگی میں اکثر کامیاب ہو تے ہیں۔ بڑے بڑے منصب اور تنخواہ پا تے ہیں کمپنیاں ایسے افراد کی تلاش میں رہتی ہیں جنھو ں نے اسکول میں سیکھا ہو ایسے ہی لوگ بزنس میں کا میا ب ہوتے ہیں اس کے بر عکس وہ بچے جن کو اسکول میں رٹا یا گیاہو وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی نا کام ہو جا تے ہیں۔آج اسکولوں میں غور وفکر اور تدبیر و تدبر کی تعلیم نا پید ہو چکی ہے خواہ وہ کو ئی اعلی اسکول ہو یا معمولی فیس والا ایک چھوٹا اسکول یا پھر سر کاری مدرسہ۔بقول ڈاکٹر پرویز ہود بھائی “ما ہر ین تعلیم نے خود اپنے لئے آرام گاہیں بنا لی ہیں اور وہ نہیں چا ہتے کہ کوئی گستاخ طالب علم کوئی چبھتا ہوا سوال پوچھ کر انھیں بے آرام کر دے اور انھیں سوچنے اور مسائل کا حل ڈھونڈنے پر مجبور کر دے”۔ تعلیمی اداروں بالخصوص مسلمانوں کے اسکولوں کی زبوں حالی دیکھ کر آنکھ لہو روتی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں نے تعلیمی مقاصد کے بجائے روپے بٹورنے کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ تعلیمی ادارجات کے درمیان نا م اوردولت کمانے کے لئے ایک جنگ چھڑی ہے جو تعلیم کے بنیادی مقصد کو خاک آلود کر رہی ہے۔نسل نو کی صلاحیتوں کو صیقل کرنے میں تعلیمی اداروں کا نما یا ں رول ہو تا ہے لیکن اب مدارس طلبہ میں پوشیدہ صلاحیتوں کو فروغ دینے کے بجائے رٹ مارنے کے طریقہ کو رواج دے چکے ہیں جس کی بنا ء پر طلبہ وقتی طورپر بورڈ اور دیگر امتحا نات میں اچھے نمبر اور پوزیشن تو حا صل کر لیتے ہیں لیکن شعور علم اور تفہیم علم سے محروم ہو جا تے ہیں ان کو اپنے مضامین کابنیادی فہم بھی نہیں ہو تا۔
اسکول ایک ایسی جگہ کا نا م ہے جہا ں زندگی نمو پا تی ہے جان ڈیوی ڈیموکریسی اینڈ ایجوکیشن میں رقم طراز ہے’مدر سے کا اہم کام یہ ہے کہ وہ اپنے ما حول کو سماجی ما حول کی بہ نسبت زیادہ سادہ اور واضح بنائے مو جودہ سماجی نظام اس قدر وسیع اور پیچیدہ ہے کہ بچہ اس کو پورے طور پر تو کیا جزوی طور پر بھی نہیں سمجھ سکتا۔اس لئے مدرسہ کو ان عنا صر کا انتخاب کر نا ہوگا جو تر بیت کے لئے خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔مدرسہ کا نصاب اس طر ح مر تب کرنا ہوگا جو تربیت کے لئے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہو اور تمدنی زندگی کو سا دہ اور دلچسپ طر یقے سے پیش کر ے لیکن ہمارے اسکول طلبہ کی انفرادی صلاحیتوں کے فروغ اور ما حول سے مطابقت پیدا کر نے میں تقریبا ناکام دکھائی دیتے ہیں۔اسکولوں میں طلبہ کی خصوصی صلاحیتوں اور خوبیوں کو پر وان چڑھا نے کے لئے درکارعوامل کا فقدان پایا جا تا ہے۔اسکولوں کی کارگردگی کامعمولی علم رکھنے والا شخص بھی بلا کسی تذبذب و تامل کے کہہ سکتا ہے کہ مدارس بچوں میں صلاحیتوں کو ابھارنے کے بجائے ان کو فنا ء کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ بقول ایچ ۔جی ویلز ‘ ا گر تم محسوس کر نا چا ہتے ہو کہ پوری کی پوری نسلیں کس طرح بر بادی کی طرف دوڑ ری چلی جا رہی ہیں تو تم کسی پرائیوٹ اسکول کا ذرا غور سے معائنہ کر لو۔
آج بھی مسلما نوں کی زبوں حالی کے اسباب میں تعلیم سے غفلت کو اہم گردانا جا تا ہے۔ہم اپنے مر ض کی تشخیص میں تو کا میا ب ہو گئے ہیں لیکن ڈھونگی اطباء(تاجران تعلیم) کے ہا تھوں اپنی سادہ لوحی کے سبب ایک کھلونا بن چکے ہیں۔یہ تاجران تعلیم اخلاص اور تعمیرملت کے جذبہ سے عار ی ہیں۔ان کا مقصد تعلیمی تجارت ہے ااوریہ تعلیم کے نام پر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔اگر ان کی کوائف پرنظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ نہ صرف تعلیم کے مقصد سے نا آشنا ہیں بلکہ تعلیم سے بھی نا بلد ہیں۔ مر ض کی تشخیص کے با وجود امت مسلمہ اپنے تعلیمی استحصال کی وجہ سے علاج میں نا کام ہو گئی ہے۔ ہمارے مدارس اس معیار کے حا مل نہیں ہیں کہجن کی بنیادوں پر ہم اپنے کل (مستقبل ) کو تعمیر کر سکیں۔مدارس کے وقار، عظمت اور معیار کی بحالی کے لئے جامع حکمت عملی ،نئے طریقہ کار اورجدید تعلیمی جحانات کی تشکیل بے حد ضروری ہے۔ تعلیمی ما حول کی اصلاح کے لئے مثالی تعلیمی قیادت اور تحریک کی ضرورت ہے۔ایک اچھا اسکول انفرادی و سما جی نشو و نما کے لئے نہ صرف ساز گار ما حول فرا ہم کر تا ہے بلکہ صحت مند ما حول کے فر وغ میں رہنمائی بھی کر تا ہے۔ بچوں میں بہترین عادات ،خصائل،مہا رتوں ،استعدادوں،علوم ،دلچسپیوں اور ذہنی رویوں کی بناء ڈالتا ہے جو زندگی کے لئے نہایت مفید اور قیمتی ہو تے ہیں۔بچوں میں احتساب کے اعلی اقدار کو جا گزیں کر تا ہے جس سے بچے اپنے کردار کی از خود جا نچ کر تے ہیں۔ایک مثالی اسکول اپنی ذمہ داریوں سے اسی وقت عہدہ براء ہو سکتا ہے جب و ہ طلباء میں مختلف تعلیمی سرگرمیوں اور افعال کی مکمل انجام دہی کی مو ثر عادت ڈالیں۔جو اسکول ان مقاصد کے حصول میں اپنی قوتوں کو صرف کرتا ہے اس کے طلباء میں وہ توانائی بدرجہ اتم نظر آتیہے ۔ طلباء اقدار کی پا سداری و دلجمعی کے سبب علم، ذہانت اور مہارتوں کا مرقع بن جاتے ہیں۔ایک عمدہ اسکول تعلیمی مسرت کا سر چشمہ ہو تا ہے اور اس سے پھوٹنے والا ہر سوتہ ہر پل ہر گھڑی طلباء کو احساس دلاتا ہے کہ وہ صرف وہی کا م کر یں جنھیں ان کو کر نا ہے اور اسی طرح سے کر یں جس طرح سے انھیں انجام دینا ہے۔
کسی تعلیمی ادارے کی سرگرمیوں کی رہبری ونگرانی، انسانی و مادی وسائل کے موثر استعمال اورمبسوط منصوبہ بندی کے لئے انتظامیہ کوسخت محنت کی ضرورت ہو تی ہے۔تعلیم و تربیت کے مناسب بندو بست میں مدارس کومتعدد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمارے مدارس میں جہاں موزوں اساتذہ کا عدم وجود قابل تشویش پہلو ہے وہیں بہت کم بر سر خدمت اساتذہ فن تعلیم و تر بیت سے آگاہ ہیں۔ مدرسہ کو قوم و ملت کی تعمیر کا شرف حا صل ہے۔کسی بھی اسکول کی کار گردگی کا جا ئزہ لینے کے لئے سب سے پہلے اس کے معیار پر توجہ کی جا تی ہے معیار تعلیم کو اطمینان بخش بنانے میں اسکول کے اسا تذہ،انتظامیہ اور طلباء کا کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن ان تمام کو سازگار ماحول اور وسائل کی فراہمی کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔اگر کسی اسکول کا تعلیمی معیار پست ہوگا تو اسکول انتظامیہ کو ہی اس کا قصودار ما نا جا ئے گا۔کیونکہ انتظامیہ ہی اساتذہ کے انتخاب کاذمہ دار ہو تاہے اور نصاب کی تدوین اور تدریس کے لائحہ عمل کو مرتب کر نااور تعلیمی مقاصد کاتعین بھی انتظامیہ کا کام ہو تا ہے۔سماج میں نمایا ں مقام و مر تبہ کے طلب گار تعلیمی ادارے کا عام اداروں کے معیار سے بلند ہو نا ضروری ہے۔ادارے کی کامیابی انتظامیہ کے اخلاص اور نیک نیتی پر منحصر ہوتی ہے۔اگر اسکول کا انتظامیہ اخلاص سے عاری ہوگا تو اس ادارے کی نیک نا می اور شہرت متا ثر ہو گی۔اسکول کے اپنے مقاصد اور نظریات کا تعین بے حد ضروری ہے۔اولیائے طلبہ کے لئے اسکولوں کے اسا سی نظریات و مقاصد سے آگاہی اہم ہو تی ہے جس سے وہ اسکول کے معیار کا اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔عوام مدارس کے بلند بانگ دعوؤں اور نظریات سے مر عوب ہو جا تے ہیں۔اولیائے طلبہ بچوں کو مدارس میں داخل کروانے سے قبل ان تعلیمی اداروں کی شفافیت سے متعلق معلومات حا صل کر لیں ان کے دلفریب گمراہ کن اشتہارات کا وہ شکار نہ ہوں۔اسکول انتظامیہ کے ا پنے نظریات اور مقاصد کے حصول میں نیک نیتی کاجائزہ لیں تاکہ وہ کسی تعلیمی استحصال کا شکار نہ ہو نے پائیں کیو نکہ قوم اب مزید دھوکوں کی متحمل نہیں ہے اس طر ح کا استحصال قوم کو مزید پستی اور ذلت کی تاریکیوں میں غرق کر دے گا۔تعلیمی مقاصد کے تعین میں ناکامی کے با عث تعلیمی ادارے متضاد سمت میں گردش کر رہے ہیں ہے اور اس بے معنی گردش میں تعلیم و تربیت کا جو ہر خا ص فوت ہو کر رہ گیا ہے۔بے مقصد تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کر وانا ان کو ہلاک کر نے کے مترادف ہے۔ بے مقصد ادارے وقت اور پیسے کے زیاں کا سبب بنے ہیں۔
ایک آئیڈیل (مثالی) مدرسے کے لئے لازمی ہے کہ وہ اولیائے طلبہ،طلبہ اور صالح سماجی کاز سے جوڑے افراد سے ربط و ضبط قائم رکھیں۔ مدرسہ کی تر قی و طلبہ کی تعمیر و تربیت میں ان کا تعاون حا صل کریں۔ تعمیر ی کا ز کے لئے ایک تشویش کا سبب یہ بھی ہے کہ عوا می تعاون انھیں اداروں کو حا صل ہو تا ہے جن کی سما ج میں بہتر ساکھ ہے لیکن یہ نہایت ضروری ہے کہ اخلاص سے تعلیمی کا ز میں مصروف نو تشکیل شدہ چھوٹے اداروں کی بقاء اور ملی تعمیر کے لئے سماج اور عوام ان کا سہارا بنیں۔ مدرسے کی عمارت تعلیمی ما حول میں اہمیت کی حامل ہو تی ہے۔لیکن عمارت کا پختہ ہو نا یا عالیشان ہو نا اہم نہیں ہو تا۔مدرسہ عمارت سے نہیں بلکہ اساتذہ اور انتظامیہ کی سعی و کا وش سے بنتا ہے۔لیکن یہ ضروری ہے کہ مدرسے کی عما رت طلبہ کے تعلیمی ضروریا ت کی تکمیل کر ے۔روشن ،ہو ادار کمرہء جماعت ،صاف پینے کے پا نی کی سہولت، پیشاب ،پا خانے ، پانی اور صفائی کا منا سب بندوبست ضروری ہے۔مدرسے کی کار کردگی کوبہتر بنانے کے لئے تعلیمی ساز و سامان ،سائنسی آلات اور مناسب فرنیچر کی بھی ضرورت در پیش ہو تی ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کے استفادے کے لئے لائبریری لازمی ہوتی ہے ۔روز مرہ کے واقعات سے طلبہ کی آگہی کی خاطر دارالمطالعہ میں اخبارات ،رسائل اور جرائد کا ہونا ضروری ہے۔نصابی ،ہم نصابی سرگرمیوں کے علاوہ بچوں کی صلاحیتوں کے فر وغ کے لئے دیگر سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے ضروری ساز و سامان کی فرا ہمی بھی لازمی تصور کی جا تی ہے۔ذہنی نشوو نما کے علا وہ جسمانی صحت و نشوونما کے لئے کھیل کود کا انتظام بھی تعلیمی دلچسپیوں کو فروغ دینے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔کھیل کو د کے لئے کھلے میدان کا ہونا اور اگر زمین کی قلت ہو تو اندرون خانہ کھیلے جا نے والے کھیلوں کے سامان و جگہ کی فر اہمی ضروری ہوتی ہے۔ اسکول انتظامیہ اگر نظم و ضبط کا عا دی ہو تو لازما اس کے ملازمین اور طلباء بھی نظم و ضبط کے پا بند ہو ں گے۔وقت کی پا بند ی صرف طلبہ ہی نہیں بلکہ ادارے کے ہر فر د کے لئے لازمی ہو تی ہے۔
مدرسہ اور معاشر ے کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہو تا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مدرسے کا قیام صرف اور صرف علم کے حصول کے لئے کیا گیا تھا لیکن تغیرات زمانہ کے سا تھ یہ مقصد تعلیم کی تجارتی منڈیوں میں گم ہو گیا۔سماج اور مدرسے کی تر قی و تنزلی ایک دوسرے پر منحصر ہو تی ہے۔سماج کا اولین فرض ہے کہ وہ مدارس کا قیام عمل میں لائے اور مدارس کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ سما ج کے تقاضوں کی تکمیل کو ملحوظ خاطر رکھے۔لیکن یہ ایک افسوس نا ک حقیقت ہے کہ آج سما ج اور اسکول کے بیچ ایک نا قابل عبور گہر ی کھائی حائل ہو چکی ہے جس کی بنا مدرسہ کا ما حول بچے کی تعلیم و تربیت کے لئے سازگارنہیں رہا ۔اسکولوں میں صرف بچوں کو کرم کتابی بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بچے سما ج میں کوئی فعال کردار انجام دینے سے قاصر ہیں۔مدارس کوسما ج کی ضرورتوں کا کو ئی خیال نہیں رہا ۔مدرسے کو سماج کا ایک کارکرد جزو بنانے کے لئے مدر سے اور سماج کے بیچ حائل فاصلوں کو پاٹنا ہو گا۔اور اس فاصلہ کو طے کر نے میں نصاب کا انتخاب اہم ہے جو سماجی تقاضوں کی تکمیل میں معاون و مددگار ہو تا ہے۔تدوین نصاب میں پیچیدگیوں اور مشکلات کو دور کرتے ہوئے تعلیم برائے مسرت کے جذبے کو جگہ دی جائے۔مدرسے کے معیا ر اور جواب دہی کے لئے انتظامی و تعلیمی امور کی فیصلہ سازی میں اولیائے طلبہ اور سماج کے دیانت دار معتبر افراد کو شامل کیا جائے۔عملی زندگی سے مدرسے کو قریب کر نے والے عملی پہلو پر خصوصی توجہ دی جائے۔والدین اور اساتذہ میں ذہنی ہم آہنگی کے لئے پیرنٹ ٹیچر میٹ کا اہتمام کیا جائے۔اسکول معاشرے کی توقعات کا مر کزہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں مدارس کی تو بہتات ہے لیکن فرا ئض کی انجام دہی میں اکثر کو تا ہی کا شکار ہیں اور جب یہ اپنی کو تا ہی کا تدارک کر لیں گے تو ایک مثبت تبدیلی کے نقیب اور اعلی قوم پیداکرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔قوم و ملت کی ترقی و تعمیر کا فریضہ بھی اسکول کے کندھوں پر ہوتا ہے۔اس دور پر آشوب میں صرف مدارس سے اصلاح حال کی امید یں وابستہ ہیں۔ ملت کے وقار کی بحالی کے لیے مدارس اپنی سر گر میوں کو تیز تر کردیں۔ تعلیمی ادارے محدود وسائل کے با عث متعدد مسائل اور دشوااریوں کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن ان اداروں کا انتظام و انصرام اگراو لو العزم و اعلی ہمت افراد کے ہا تھوں سونپ دیا جا ئے تو یقیناًملت کے سنہرے دن لوٹ سکتے ہیں۔
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...