عقیدتیں،صعوبتیں اورشہادتیں

ٖٖٖفردوس بریں کشمیر کی گل پوش وادیاں،روئی کے گالوں سے ڈھکی چٹانیں،ہنستے، مسکراتے، لہلہلاتے مرغزار، مہکتے،چمکتے اوردمکتے ہوئے سبزہ زار،سازبجاتی، گیت گنگناتی ندیاں اوررنگ وسرورمیں نہائے ہوئے نظاروں کی سرزمین دنیاکی یہ جنت آج انسانی خون سے تربترہے، جہاں موت ناچ رہی ہے ،ہر طرف آگ ہی آگ ہے ،گولہ بارودکی بو پھیلی ہوئی ہے،بموں کے دھوئیں سے ہر طرف گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں،ظلم و ستم کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں اوروہاں معصوم کلیوں،مسکراتی جوانیوں،غمزدہ بڑھاپوں کو موت کی اتھاہ تاریکیوں میں دھکیلاجارہاہے۔
آخرایساکیوں ہورہاہے ۔اس وادی رنگ ونور میں موت کاکھیل کیوں کھیلا جارہاہے۔اس جنت نظیر وادی کو لہورنگ میں تبدیل کردیا ہے،ظلم کی زنجیروں میں جکڑدیاہے،مظلوم کشمیریوں کواذیت ناک کراہوں میں تبدیل کردیاہے،ہرطرف سے کشمیریوں پربارود برسایاجارہاہے جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں ضائع کی جارہی ہیں،سینے چھلنی کیے جارہے ہیں اوروہاں کے رہنے والے باشندوں کے گھروں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیاجارہا ہے،ایساکیوں ہے؟کیااس لیے کہ یہ مظلوم کشمیری بھارتی سامراج سے اپناحق مانگتے ہیں؟،آزادی مانگتے ہیں؟اور وطن عزیز پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہوئے اس سے الحاق چاہتے ہیں؟،اس بات میں کسی قسم کاشک وشبہ نہیں ہے کہ کشمیری عوام بھارت کی سامراجی قوتوں کو تہس نہس کرنے اور اپنے مستقبل کو پیارے پاکستان سے وابستہ کرنے کے لیے بے شمار قربانیاں دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں کشمیری نوجوانوں کا اپنے حق خودارادیت کے لیے شہادتیں پیش کرنا،بھارتی سامراج قوتوں کے آگے سینہ سپر ہونا، کشمیر کی مساجدکے لاوڈاسپیکرز میں پاکستانی ترانہ لگانااور وہاں چوکوں،چوراہوں میں ملک پاکستان سے والہانہ عقیدت والفت کرتے ہوئے پاکستانی پرچم لہرانہ یہ سب جذبے،ولولے،عقیدتیں،صعوبتیں،شہادتیں یہ سب کچھ اس بات کاواضح ثبوت ہیں کہ کشمیر کے بہادر، غیور بچے،نوجوان،بوڑھے،جرأت منددلیرمائیں اور بہنیںیہ عہد،عزم مصمم کر چکے ہیں کہ جب تک وہ وادی کشمیر کوبھارت کے غاصبانہ قبضے سے چھڑانہیں لیتے ہیں وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
اب کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لارہی ہیں،وہ دن دور نہیں کہ کشمیر کے جیالے ،فرزندوں کے سرفروشانہ عزائم کی بدولت پاکستان اور کشمیر کے درمیان حائل ہونے والی تمام دیواریں(ان شاء اللہ)زمین بوس ہوجائیں گی۔یہ بات پوری دنیاجانتی ہے کہ پاکستان کی اور کشمیر کی جغرافیائی نوعیت ایک ہے ۔پاکستان اور کشمیر ایک ہی ثقافتی ڈھانچے کے دو جزو ہیں،کشمیر سے نکلنے والے دریاپاکستان میں سے ہو کر بہتے ہیں۔یہ جغرافیائی رابطہ اور تعلق اس قدر قدرتی ہے کہ اس کو کوئی غیر فطری تقسیم قطعاًختم نہیں کرسکتی ہے۔
گزشتہ روز بھارت کے آرمی چیف نے اپنی ایک گیدڑبھبھکی میں کہاکہ ہم کشمیر میں انہیں سبق سیکھانے کے لیے اپنی طاقت کااستعمال کررہے ہیں اورساتھ ہی وطن عزیز پاکستان کوللکارتے ہوئے کہتاہے پاکستان میں کسی بھی اُکسانے والی کاروائی کامنہ توڑجواب دیں گے اور مزید کہاکہ اگر ہمیں مجبور کیاگیا توہم اس کاروائی کوبڑھابھی سکتے ہیں،یعنی ملک پاکستان میں بھی کاروائی کی دھمکی دی۔شاید بھارتی آرمی چیف ہمارے صبر کاامتحان لیناچاہتاہے اور وہ کافی امتحان لے چکاہے ۔شاید وہ نہیں جانتا کہ جب صبر کاپیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تواس میں سے ایک طوفان اٹھتاہے جو ہر چیز کو خس وشاک کی طرح بہا کراپنے ساتھ لے جاتا ہے، شایدکچھ ایساہی انجام بھارت اپنے ساتھ چاہتا ہے ،اسے پتہ ہوناچاہیے کہ پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں، دلیری ،بہادری اور دفاعی طاقت کو پوری دنیاروزروشن کی طرح جانتی اور اعتراف کرتی ہے،اسی طرح پاک فوج کے ساتھ پاکستانی عوام بھی اپنے وطن عزیزپاکستان کادفاع کرناجانتے ہیں اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ،بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے ’’پھرنہ کہناخبر نہ ہوئی‘‘۔
اب موجودہ حالات میں کشمیریوں کے صبر کاپیمانہ لبریز ہوچکاہے ،مقبوضہ کشمیر میںآزادی کی لہر اپنے عروج پر ہے ،وہ بھارتی سامراج کو تنکے کی طرح بہاکر اپنے ساتھ لے جائے گی،کشمیری اپنے حق خودارادی کو پہچان چکے ،ان کے جذبہ ایمان اور شہادت کی قوت دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی ہے اور بھارتی سامراج کاظلم وجبراور تشدد انہیں اپنے حق سے دستبردارکرنے میں کامیاب نہیں ہوسکاہے ،آج پوری دنیاکشمیر کے حالات واحوال دیکھ رہی ہے کہ آزادی کی تحریک اپنے پورے جوبن پر ہے ،کوئی گلی ،کوچہ ایسا نہیں ہوگاکہ جو کشمیر کی آزادی کے فلک شگاف نعروں سے گونج نہ رہا ہو، کشمیر کی مائیں،بہنیں،بیٹیاں تک اس جنگ آزادی میں شریک ہوچکی ہیں۔اب کشمیریوں کی آوازکو مزید دبایانہیں جاسکتا،وہ وقت دور نہیں،کہ کشمیری عوام کی زبانوں پر جو نعرہ ہے کہ ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہماراہے،پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ،حقیقی معنوں اس کی تکمیل کا وقت آن پہنچاہے۔اللہ تعالی کشمیریوں کے حال پر رحم فرمائے اور انہیں حوصلہ،ہمت اور استقامت نصیب فرمائے۔آمین۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں