یومِ پاکستان

یومِ پاکستان ملکی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن یعنی 23 مارچ 1940 کو قرارداد لاہور پیش کی گئی جس کو بعد ازاں قرارداد پاکستان کہا جانے لگا۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ نے برِصغیر کی اقلیت (مسلمانوں ) کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کی بدولت جداگانہ وطن کے لیے ایسی تحریک کا آغاز ہوا جو سات برس کے بعد الگ وطن کے مطالبے کے حصول میں کامیاب ہو گئی۔

مسلمانانِ ہند کو واقع ہی ایک آزاد مملکت کی ضرورت تھی۔ جہاں وہ اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اُس وقت کا یہ ایک واضح عزم اور اولین مقصد تھا کہ مسلمانوں کو بغیر کسی بیرونی مداخلت کے ایک آزاد ریاست مطلوب ہے۔

یہ ہی وہ دن تھا جس نے حریت و آزادی کے اس سفر کو جو بے شمار قربانیوں اور جانفشانیوں کے ساتھ طے ہو رہا تھا کو ایک بے مثال منزل کا پتا دے دیا تھا۔  ہندوستان جہاں ہندو مظالم اور برطانوی سامراج کی تاریک رات کی سیاہی پھیلی ہوئی تھی وہیں کہیں  یہ دن غلامی کی تاریکی کو دور کرنے والے سورج کی نوید دے رہا تھا۔اسی دن منظور ہونے والی قرارداد کی روشنی میں مسلمانوں کے عظیم رہنما محمد علی جناح  نے برصغیر کے مسلمانوں کی سسکتی تقدیر   کو امید کی مسکان بخشی اور مسلمانوں کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگایا۔

قائداعظم کی پُرامن اور قانون پسندانہ سیاسی قیادت میں مسلمانوں کی الگ مملکت کے حصول کی جدوجہد کے نتیجے میں برطانوی سامراج اس بات پر مجبور ہو گیا کہ اب ہندوستان کو آزادی دے دی جائے۔ اور اس طرح قیامِ پاکستان کا مطالبہ جو 23 مارچ 1940 کو کیا گیا تھا وہ 14 اگست 1947 کو  پورا ہوا اور یوں دنیا کے نقشے پر پاکستان جیسی عظیم  اسلامی ریاست ابھر آٸی۔ مگر افسوس آج ہمارا عالم کچھ ایسا ہے کہ ہم اپنے پُرکھوں کی مشقت سے کمائی ہوئی آزادی کو برباد کرنے پر تلے ہیں۔ اسلامیان برصغیر کی جس ڈولتی ناٶ کو بانی پاکستان نے کنارے لگایا تھا آج ہم اسی کشتی کو بھنور کے حوالے کر رہے  ہیں۔ ہم خود ہی بگاڑ کا سبب ہیں اور اب کسی معجزے کے انتظار میں ہیں جو ہمارے حالات بہتر کر دے۔ اس ملک کو اتنا نقصان پہنچایا جا چکا ہے کہ بہتری کے بارے میں اگر سوچا جائے تو غالب کا وہ شعر یاد آجاتا ہے،

کوئی امید بَر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

مگر چونکہ ناامیدی کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اقبال بھی تو اپنی کشتِ ویراں سے نا امید نہیں تھے۔ ہم بھی بہتری کی امید رکھتے ہیں مگر صرف امید سے کچھ نہ ہو گا کچھ عملی کردار بھی ادا کرنا ہو گا کیونکہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ وہ کبھی اس قوم کے حالات کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اس کے لیے تگ و دو نا کرے۔

اقبال کا کہنا بھی یہی ہے کہ

 خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ہمیں بھی پاکستان کی بہتری کے لیے اپنے حصے کی شمع جلانی ہو گی۔ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام ایمانداری کے ساتھ بہترین انداز میں کرنا ہو گا۔ اللہ رب العزت ہمارے پیارےپاکستان کو درپیش تمام مسائل سے رہائی دے اور اسے قیامت تک قائم و دائم رکھے۔  آمین

حصہ