نفاذِ اُردو کیوں؟

اردو کیوں ! کیونکہ، جب اردو کو قومی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے قانونی طور پر تسلیم کر لیا گیا، یہ مان لیا گیا کہ اردو ہی حق دار ہے کہ اسے باہمی رابطے، تعلیم اور ترقی کی شاہراہ سمجھا جائے توعقلی اور منطقی طور پر بھی اسے قومی و سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونا چاہیئے تھا کیونکہ مسلمانان پاکستان اک طویل جدوجہد کے بعد انگریزوں کے جال اور ہندوؤں کے تعصب اور دن بدن بڑھتی ہوئی بد نیتی سے 1947ء میں نجات حاصل کر پائے تھے، اور ایک بھاری جانی ،مالی اور جغرافیائی نقصان کے عوض یہ نظریاتی خطہ حاصل کر پائے تھے، لہٰذا اسلام کے نفاذ کی خواہش جیسے اس ملک میں بالکل بجا تھی اسی طرح اردو کے نفاذ کی تمنا بھی دراصل ایک دیرینہ خواب تھا جس کی تعبیر بہرحال ہم پر قرض تھی، ظاہری سی بات ہے انگریزی کے نفاذ کا مطلب انگریز کی چمچہ گیری تھا،اور یہ الزام بہرحال محب وطن اور مخلص پاکستانی اپنے اوپر لینے کے لئے ہر گز رضامند نہ تھے، لہٰذا 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں قائد نے واشگاف الفاظ میں پیغام دیا۔۔۔۔۔۔۔۔”میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں رہ سکتی.”

ریاست پاکستان کی ‘آئیڈیل’ ریاست ‘مدینہ’ ہی کو لے لیا جائے تو باوجود افرادی قوت کی کمی کے، اور باوجود وسائل حرب کی کمی اور معیشت کہ کمزوری کے، یہاں کے ‘شہنشاہ دوجہاں’ اپنی خارجہ پالیسی میں مضبوط مؤقف اپنایا اور سفارتی زبان ‘عربی’ کو ہی بنایا، یعنی برابری کی بنیاد پر اول دن معاملات کیے، ترقی یافتہ اور وقت کی متمدن ترین ریاستوں کی زبان میں پیغام پہنچانا زیادہ خیروبرکت اور ملک عرب کی ترقی کے لئے سودمند ہوتا تو لازمی طور پر قاصدوں کو خطوط عربی کی بجائے فارسی میں دے کر بھیجا جاتا، زبانوں کو سیکھنے کی جانب توجہ ضرور دلائی گئی لیکن احساس مرعوبیت کے تحت نہیں بلکہ اشاعت وتبلیغ اسلام کے ارفع مقصد کے حصول کے لئے۔ ایسا نہیں ہوا کہ پورے عرب میں فارسی یا عبرانی کو ذریعہ تعلیم

یا باہمی رابطے کی زبان بنا دینے کی کوشش بھی کی گئی ہو، ظاہری سی بات ہے اتنی فصیح و بلیغ زبان کو چھوڑ کر غیر زبان کو بین الاقوامی زبان کے طور پر اپنے ملک میں رائج کرنا کسی طور مناسب نہ تھا اور نہ ہی جنگی آلہ کار کے طور پر پوری قوم کی زبان بنانا عقلمندی تھی۔ لیکن آج ہم نجانے ‘انگریزی’ کو ہی تعمیر ترقی وطن کے لئے کیوں ضروری خیال کرتے ہیں، پوری قوم کو انگریزی سکھا کر انگریزوں کے مد مقابل تو نہیں لایا جا سکتا، البتہ انگریزی سکھا کر انگریزوں سے’ذہنی ہم آہنگی’ اور ‘قلبی ہم آہنگی’ کو ضرور فروغ دیا جا سکتا ہے۔

47ء سے تا حال عالمی دنیا میں انگریزی زبان کی بدولت پاکستانی فوج کی قدر میں اضافی ہوا نہ بیوروکریسی کی شان بڑھی، دفاتر، عدالتیں، تعلیمی ادارے بھی انگریزی راج کو فروغ دینے میں ہی معاون بنے، ذہنی غلامی میں بدترین اضافی ہوا، گلی محلے کے اسکولوں نے بھی انگریزی زبان کو اپنے اداروں میں لاگو کر دیا تا کہ تعمیر و ترقی وطن میں ان کی خدمات کو بھی سراہا جا سکے، الٹی گنگا میں اشنان کرنے کی بجائے اب ضروری ہے کہ اردو کی قانونی حیثیت کو عملی صورت میں ڈھالا جائے، اپنی زبان کو قابل فخر سمجھتے ہوئے بین الاقوامی زبان کا درجہ دلوانے کی طرف توجہ کی جائے، سوشل میڈیا پر بھی رومن کی بجائے اردو رسم الخط کو ترویج دی جائے، زندہ قومیں اپنی شناخت پر فخر کرتی ہیں اور اس پر کوئی آنچ آنے نہیں دیتیں، آئیے نفاذ اردو کی تحریک کا دست وبازو بن جائیے، تاکہ انگریزی راج کو توڑا جا سکے اور محب وطن، مخلص اور اہل قیادت کو سامنے لایا جا سکے، کتنے ہی ایسے ہیروں کو اردو کی بدولت شناخت ملے گی، جن کی چمک کو انگریزی نے زائل کر دیا ہے، ملک وملت کی فلاح کے لئے مخلص ہونا اور اردو کی حیثیت بحال کرنا ‘عوامی تحریک’ کی جائز اور قانونی خواہش ہے جس کی تکمیل اس تحریک کے ہمقدم ہونے سے مشروط ہے۔ آئیے آواز میں آواز ملائیے،

انگریزی زبان نا منظور

انگریزی راج نا منظور

اردو کو نافذ کرو

اہل علم کی قدر کرو