فلسطین میں ظلم وستم

روئے زمین پر فلسطین میں رہنے والی عوام نے نہ جانے ظلم و ستم کی کتنی داستانیں رقم کی ہیں، ہر روز ان پر آتش و آہن کا نیا کھیل کھیلا جاتا ہے، معصوم بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین پر زیادتی، قتل و غارت گری کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، گویا آلام و مصائب کی نا ختم ہونے والی شب ظلمت چھائی ہوئی ہے، جبکہ صبح نمودار ہونے اور دن کا اجالا بڑھنے کے باوجود فلسطینی عوام کی زندگیوں میں اندھیرے ہیں کوئی نہ کوئی زندگی کی آخری سانسیں پوری کررہا ہوتا ہے۔

ہر صبح ان کی زندگیوں میں خوشیوں کے بجائے افسردگی، پژ مردگی اور مایوسی کی نوید لیکر آتی ہے، اب تک نہ جانے کتنے افراد لقمہء اجل بن چکے ہیں۔ پوری دنیا میں جمہوری اقدار اور مضبوط انتخابی نظام کا ڈھنڈورہ پیٹنے والا اسرائیل کس قدر ظالم نسل پرست ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین دن تک فلسطینیوں پر بم برساتے جاتے رہے اور اس کارنامہ پر صہیونی حکمران اپنی پیٹھ تھپتھپاتے رہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے کئی ادارے اس سفاکانہ کارروائی کی مذمت کرچکے ہیں اور خود اسرائیل کے حکام نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے چند روز کی اس بمباری میں کئی بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسرائیل نے اس کو تکنیکی غلطی قرار دے کر دامن چھڑا لیا۔ مگر افسوس ! تمام عالمی طاقتوں نے بھی ایک مختصر سی کارروائی میں ڈیڑھ درجن سے زائد بچوں کی شہادت کی مذمت کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ اسرائیل کے عبوری وزیراعظم نے اپنی ریاست کی پوری فوجی طاقت کو استعمال کرکے اعلان کیا کہ وہ اس کارروائی میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

صہیونی ریاست کے نگراں حکمراں نے بالکل درست کہاہے کہ وہ فلسطینیوں کو ٹھکانے لگانے اور داخلی محاذ پر اپنے حریف بنجمن نتن یاہو سے سبقت لیجانے میں کامیاب رہے ہیں۔ بنجمن نتن یاہو سابقہ اسرائیلی حکومت اور وزیراعظم نفتالی بنڈ یک پر نکتہ چینی کرتے رہے تھے کہ سیکورٹی کے معاملہ میں ان کی حکومت ناکام رہی ہے۔ کیونکہ نفتالی ان کی دانست میں سیکورٹی امور میں ناتجربہ کار تھے۔ موجودہ کارگزار وزیراعظم یائر لیپڈنفتالی کی سابق حکومت میں وزیر خارجہ تھے اور انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد نفتالی بے دخل کردیے گئے تھے اور یائرلیپڈ کو عبوری وزیراعظم بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل میں یکم نومبر کو الیکشن ہونے ہیں اور گزشتہ 60-70 دن سے وہاں انتخابی مہم عروج پر چل رہی ہے۔ اس دوران غزہ پر حملہ کرکے انہوں نے جوبائیڈن کے دورے سے ملنے والی شہرت کو نہلے پر دہلا قرارکردیا۔ اپنے سب سے بڑے حریف ناقد کو خاموش کردیا جو ان کی سابقہ سرکار کو ’نااہل‘ قرار دیتا تھا۔ یاہو فلسطینیوں پر اپنی بربریت کے لیے پوری دنیا میں بدنام ہیں اور اندرون ملک وہ اس قومی کارروائیوں اور بربریت کو طرہ امتیاز سمجھتے تھے مگر اس مرتبہ یائر لیپڈ نے یہ کارنامہ انجام دے کر بازی مارلی۔ اسرائیل کے کئی ماہرین کا کہناہے کہ ’ اس جنگ کو چھیڑنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مگر غزہ پر تین دن کی کارروائی سے اسرائیل کی اندرونی سیاست کی بساط پلٹ گئی۔ اسرائیل کا جنگ پسند اور بربریت پسند طبقہ بائیر لیپڈ سے خوش ہے۔ تین دن کی ’ مختصر‘ کارروائی میں 49فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان شہدا میں غالب اکثریت معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کی تھی۔ اس سفاکانہ کارروائی میں سب سے بڑا نقصان 17معصوم بچو ں کی موت تھی۔

فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ کارروائی میں 360افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسلامک جہاد نے جو راکٹ داغے تھے اس سے 40اسرائیلی معمولی زخمی ہوئے تھے۔ جرمنی کے ایک دانشور کارلوون کلاوچ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی یہ جنگ اسرائیل کی اندرونی سیاست کا حصہ ہے اور اگر لیپڈوزیراعظم کے طور پر دوبارہ منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے تو وہ اپنے تمام پیش رو وزیراعظموں سے زیادہ خطرناک ہوں گے۔ گزشتہ سولہ برسوں سے غزہ پر ہر طرف سے حصار قائم کر رکھا ہے اور وہاں کی زندگیوں کو اسرائیل پورے طور پر کنٹرول کرتا ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر نہ تو کوئی شخص یا سامان اندر جا سکتا ہے اور نہ ہی باہر آسکتا ہے۔ جگہ بہ جگہ اسرائیلی چیک پوسٹ قائم ہیں جہاں سے گزرنا اور روز مرہ کے معمولی کام تک انجام دینا فلسطینیوں کے لئے ایک مشکل مہم سمجھا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تقریباً ہر روز اسرائیل کی بے رحم فوج اور پولیس کی چھاپہ ماری چلتی رہتی ہے جس میں فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کیا جاتا ہے۔ ان کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کرکے ان میں اسرائیلی صہیونیوں کو آباد کیا جا رہا ہے ۔

ظلم کی حد تو یہ ہے کہ جن فلسطینیوں کے گھر مسمار کئے جاتے ہیں ان سے ہی مسماری کی قیمت بھی وصول کی جاتی ہے۔ جہاں تک عالمی برادری کے کردار کا مسئلہ ہے تو ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ کی حمایت میں اسرائیل پھلتا پھولتا رہا ہے اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ خود بائیڈن کو وسط مدتی الیکشن کا سامنا کرنا ہے جہاں یہودی لابی کی سخت ضرورت ہوگی اس لئے وہ بھلا اسرائیل پر دباوکیوں بنائیں گے؟۔ جہاں تک پڑوسی عرب ممالک کا تعلق ہے تو وہاں اس بات کی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون سب سے پہلے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرے گا۔ ایسے میں عرب دنیا سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟۔ فلسطین میں اس وقت تک سلامتی نہیں آسکتی جب تک اہل فلسطین پر ظالمانہ معاہدے ٹھونسے جاتے رہیں گے۔ ان کے حقوق سلب ہوتے رہیں اور اس کے اصل باشندے مہاجرت کی زندگی گزاریں ایسے ظالمانہ معاہدوں کو برابری پر قائم معاہدوں کا نعم البدل کہہ کر وقتی سیاسی مقاصد تو حاصل کیے جاسکتے ہیں اس لیے کہ وہاں کے شہریوں کو کمزور اور ضعیف سمجھ لیا گیا ہے لیکن ایسے معاہدوں سے فلسطین میں مستقل امن کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔