ڈھونگی عورت کے منہ پر طمانچہ‎‎

میں تمھارے بارے میں کیا کہوں ؟

میں تمھارے بارے میں کیا لکھوں؟

تمھاری شجاعت نے گنگ کردیا ہے،تمھاری ہمت نے زبان بند کر دی ہے،تمھاری عظمت کو سلام پیش کرنے کے لیے الفاظ ناکافی ہیں۔

ایک ایسے ملک میں کہ جو اندرونی و بیرونی خدوخال میں ہر طرح سے ہندوتوا کا علمبردار نظر آتا ہے،مگر نعرے سیکولر ہونے کے لگاتا ہے۔ جہاں ہر کچھ عرصے میں کوئی واقعہ کوئی سانحہ مسلم اُمہ کا مقدر بنتا ہے۔

جہاں مشہور شہروں کے نام اس لیے بھی بدل دیے جاتے ہیں کہ پرانے ناموں سے انھیں وہ مسلمان مسلمان سے لگتے ہیں اور شاید اپنا دور غلامی یاد آنے لگتا ہے۔ جہاں گائے کو ذبح کر نے پر انسان ذبح کردیے جاتے ہیں اور کالی ماتا کی بھینٹ چڑھادیے جاتے ہیں۔

ایک ایسے دور میں جب خود پاکستانی حکمران پنگ پانگ کھیل رہے ہیں، تمھارے ہاں تو ہے ہی دور چنگیزیت ۔ اور دنیا میں دور دور تک کوئی ہندوستان اور کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آواز اٹھانے والا بھی نہیں ہے۔ ان حالات میں، اتنے بھیڑیوں کے سامنے یہ تمھارا یہ قدم محض الفاظ سے داد و تحسین دے کر حق نہیں لے سکتا۔

البتہ اتنا ضرور کہوں گی کہ یہ ہر اس نام نہاد ڈھونگی عورت کے منہ پر طمانچہ ہے جو اپنی عزت رہن رکھوا کر دنیا کے فائدے حاصل کرتی ہے اور ملک و وقوم کے لیے ذلت کا باعث بنتی ہے۔

ملالہ، شرمین عبید چنائے، اقبال پارک والی عائشہ اور ایسے تمام کردار۔ ہاں تم ان سب کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ ہی تو ہو۔ اور تم نے انھیں بتایا ہے کہ جسے آبرو بچانا آتی ہے اسے آبرو خود بچالیتی ہے۔

ہندوستان اور پاکستان سے لے کر سارے عالم اسلام تک، منفی اور جھوٹے پروپیگنڈے کرنے والی دونمبر خواتین کو مسکان کی بہادری اور شجاعت اس وقت بڑی ہی طنزیہ مسکان لیے تک رہی ہے۔

میری بہن تمھیں اتنے سلام کہ میرے اور تمھارے بیچ کے فاصلے ختم ہوجائیں، یہ سرحدیں حائل نہ رہیں اور یہ سلام کسی صبح نو کی امید بنے۔ اس صبح جب تم اور میں مصافحہ اور معانقہ کرسکیں۔ شاد رہو آباد رہو ۔