قانونِ قصاص یا انصاف کا قتل؟

اس بازوئے قاتل کو چومو کس شان سے کاری وار کیا
معروف شاعر نعیم صدیقی نے یہ بات تو کسی اور پیرائے میں کہی تھی مگر اب معاملہ نہایت جدا ہے۔ بظاہرطاقتور سربلند اورقانون وانصاف سرجھکائے ہسپتالوں سے پانی کے نمونے تلاش کرتا پھر رہا ہے۔بابارحمت کسی چوک پہ سر ندامت سے جھکائے زمین کو گھور رہے ہیں کاشف نصیر بھائی بجا فرماتے ہیں کہ قانون دیت کے تحت شاہ رخ کیس کا فیصلہ درست ہے۔ اس میں کیا شک کہ مظلوم کے پسماندگان نے اخباری اطلاعات کے مطابق کوئی 270 ملین روپے۔ ڈی ایچ اے میں 500 گز کا بنگلہ اور آسٹریلیا میں ایک اپارٹمنٹ لے کر اللہ کی رضا کیلئے معاف کر دیا۔ مگر یہ کیس کئی ایک دیگرپہلو بھی رکھتا ہے ۔ اس کیس میں سول سوسائٹی کا تو پتہ نہیں البتہ معاشرہ مقتول کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کی پوری اخلاقی اور جذباتی حمایت ،مقتول کے خاندان کی پشت پہ تھی۔ ان کی دعائیں اور تمنائیں مقتول کی ماں کیلئے تھیں۔ ڈی ایس پی صاحب سے توقع رکھی جا رہی تھی کہ وہ معاشرے میں طاقتور طبقے کو کنٹرول کرنے کیلئے استقامت کا مظاہرہ کریں گے۔ مگر انہوں نے ثابت کیا کہ وہ DSP ہی رہے۔ عادت اور روایت کے خلاف تو اپنے بیٹے کے معاملے میں بھی نہیں گئے۔ اچھی ڈیل کی موصوف نے، اپنے ہی بیٹے کے خون کی۔
قاتل کے چہرے پہ روز اول سے سجی مسکراہٹیں۔ فتح کے نشان۔ بشاش چہرے۔ مڈل فنگر دکھاتے فوٹوز۔ اس کے ساتھیوں کی ہنسی اور مبارکبادیں۔ جناح ہسپتال میں برائے نام۔ نمائشی بطور مریض قیام۔ قانون کی دھجیاں اڑاتا پروٹوکول۔ اور واضح ڈیل معاشرے کے حساس طبقے کی بے بسی کی داستان ہے۔ جس سے یہ اہل دل لوگ شدید کرب کا شکار ہیں۔
قانونی طور پہ جو کچھ ہوا شاید درست ہو مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس صورت حال نے انصاف پہ یقین کم نہیں ختم کیا ہے۔قانون کو بالا دست سمجھنے والے آج اپنی کم مائیگی پہ نوحہ کناں ہیں۔ انصاف کے اس جنازے پہ مرثیہ خواں اور ماتم کناں ہیں۔دیت کے ساتھ ایک اور معاملہ توبہ استغفار اوراحساسِ ندامت کا بھی ہے۔ اس بات کے اظہار کا بھی ہے کہ خطا ہوئی ہے اور مجھ کو اپنے کیے پہ شرمساری بھی ہے۔ یہاں تو یہ معاملہ مفقود ہی نہیں بلکہ الٹ ہے ، اس لیے جذبات میں اشتعال مزید پایا جاتا ہے۔ کورس کی کتاب میں مدتوں پہلے پڑھا تھا کہ “آخر ت نہ ہوتی تو قدرت ظالم ہوتی”۔ یقیناً آخرت میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ مگر اگر دنیا میں ظلم و ستم اسی طرح بالا دست رہے گا تو قانون کی تعظیم ختم ہو جائے گی جو کسی بھی مہذب معاشرے کیلئے زہر قاتل ثابت ہو گا۔اللہ یقیناًظالموں کے ساتھ نہیں اپنے مظلوم بندوں کے ساتھ ہے۔ اس کا انتقام اور معاملہ نہایت عبرت انگیز ہے جو سوچنے والوں کیلئے درس عبرت بنتا ہے اور یہاں بھی ایسے ہی ہو گا۔ ان شاء اللہ

حصہ
mm
کاشف حفیظ صدیقی ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ کراچی کے مقامی روزنامے میں طویل عرصہ "منظر۔پس منظر" کے نام سے کالمز بھی لکھتے رہے ہیں ۔ 7 تحقیقی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں