ماہ صفر کے بارے میں غلط تصورات کا رد

آج گھر میں خوب ہلا گلا تھا ہر طرف چہل پہل تھی آج پھپھو چچا اور ان کے بچے ہمارے گھر آئے ہوئے تھے ایک دعوت کا سا سماع تھا ہم پاکستان اپنے ملک میں رہتے اور ہمارے چچا کی امریکا کی رہائش تھی اور آج چودہ سال بعد وہ اپنے ملک میں آئے تھے چچا یہاں اپنے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں آئے تھے۔

عید الا اضحی کا تیسرا روز تھا اور یہاں بار بی کیو کا انتظام بھی تھا اور ہمارے سب رشتہ دار عید ملنے  آئے تھے سب باتوں میں لگے تھے ایک دم چچا نے کہا” راحیل کی شادی کی ڈیٹ فکس کرتے ہیں کیا خیال ہے ہم نے لڑکی والوں کے جانا ہے پوچھنا تو ہم نے ان سے ہے لیکن آپ سب بھی مشورہ دیں ابھی ذوالحج چل رہا ہے میرا دل ہے دو مہینہ تک راحیل کی شادی کردیں لیکن صفر کا مہینہ آرہا ہے تو یہ مہینہ تو منحوس سمجھا جاتا ہے کیا کریں اگر دو مہینہ بعد شادی نہیں کرتے تو سال بعد کرنی پڑتی ہے کیوں کہ اس کا ٹرانسفر کینیڈہ ہوجائے گا بار بار تو پاکستان نہیں آیا جاسکتا ” یہ سن کر ابو بہت حیران ہوئے کہ تم بھی ان توہمات کو مانتے ہو اور صفر کے مہینے کو منحوس سجھتے ہو اور شادی بیاہ کو معیوب سمجھتے ایسا نہیں سوچتے”چچا یہ سن کر بولے دیکھو اس مہینے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت پریشانیاں آئیں تھیں کہیں ایسا نہ ہو کسی بڑی مصیبت میں پڑ جائیں”پھپھو نے سن کر ہاں میں ہاں ملائی اور ابو بولے “ارے بھائی صاحب اس مہینے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نکاہ  بھی ہوا  ہے حضرت زینب بنت خزیمہ کا نکاہ ہوا حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنھا کا نکاہ ہوا اور بھی بہت سے خیر کے کام ہوئے ہیں کوئی وہم میں نہ پڑیں اور اس مہینہ اللہ کا نام لے کر  تاریخ طے کرا لیے گا۔

ہماری پھپھو یہ سب  سن کر بولیں”بھائی صاحب اس مہینے تو سنا ہے بیماریاں بھی بڑھ جاتی ہیں”اور چچی بولیں “بھوت پریت بھی نکل آتے میں نے بھی سنا ہے۔”ارے نہیں ماریہ اور  بھابھی  ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ماہ صفر میں بیماری نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا” مسلم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا بدشگونی اور ماہ صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں” بخاری شریف میری مانیں تو بسم اللہ کر کے دو مہینے بعد صفر میں ہی راحیل اور سونیہ کی شادی کردیں” ۔

” جی جی بلکل میں اور ہمارے  سارے کزنز مل کر ہم آواز ہو کر بولے” چچا چچی اور پھپھو امی اور ابو کی باتوں کو غور سے سن رہے تھے اور بولے ” جی بھائی صاحب بھابھی آپ کہہ تو صحیح رہے ہیں آپ کی باتیں ہمارے دل کو لگ رہی ہیں اللہ پاک آپ کو اجر دے آپ نے ہم کو اچھی طرح سمجھایا ” اور یوں یہ طے پایا کہ شادی ہم اپنے بیٹے کی صفر کے مہینے میں ہی کریں گے ابھی یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں کہ ہمارے بڑے تایا نے مزاحیہ انداز میں کہا چلو اب بھوک لگ رہی ہے اب تکہ اور شیخ کباب بنانے کی تیاری نہ کر لیں شیخوں میں تیل اور لگائیں اور کوئلہ انگیٹھی میں رکھیں آگ دھکائیں چلیں بھئ پارٹی شروع کریں” سب تایا کی بات سن کر ہنس دیۓ اور بار بی کیو کی تیاری شروع کی اور میں سوچ رہی تھی کہ آج کے زمانے بھی صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں چلو شکر چچا چچی پھپھو نے بات کو سمجھا امی ابو کی بات پر قائل ہوگئے اللہ تعالی تو فرماتے ہیں “تمہاری نحوستیں تو تمہارے اعمال کی وجہ سے ہیں” “بھئ آجاؤ آجاؤ سب کھانا لگ گیا” آجائیں امی نے آواز لگائی اور میں اپنی سوچ سے اک دم باہر آئی اور سب کے مل کر بیٹھ کھانا شروع کیا آج کی پاڑٹی بہت یاد گار تھی کہ سب اتنے دنوں بعد ایک ساتھ اجتمائیت میں جڑے تھے کہ اجتمائیت میں برکت ہے۔