میں اپنی پہچان آپ ہوں

”طلب کرنا علم کا، ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے-”

(مشکوٰۃ شریف)

کہا جاتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ ماں ایک بہتر نسل پروان چڑھا سکتی ہے- اگر عورت با شعور ہو تو اسکی گود میں پلنے والی اولاد بھی یقیناً باشعور ہوگی- کسی بھی معاشرے کی ترقی میں عورت اور مرد دونوں کا شانہ بشانہ چلنا ضروری ہے- عورت مرد کا نصف بہتر ہے تو معاشرے کی ترقی تبھی ممکن ہے جب یہ نصف بہتر بھی اتنی ہی فعال ہو- فعال ہونے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ عورت کو نہ چاہتے ہوئے بھی گھر سے باہر جا کر کوئی نوکری کرنی پڑے- جب عورت اور مرد کی برابری کی بات ہوتی ہے تو اسکا اطلاق ہر طرح کی خواتین پر ہوتا ہے،خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتی ہوں- نوکری پیشہ ہوں یا گھریلو خواتین

پاکستان کی دو سو ملین آبادی میں سے 5.22 ملین بچے سرکاری سکول ناکافی ہونے کی وجہ سے سکول نہیں جاتے- جن میں سے اکثریت لڑکیوں کی ہے- بتیس فیصد پرائمری لیول کی بچیاں سکول ہی نہیں جاتیں- وجوہات سرکاری سکولوں کی کمی، غربت؛

‘‘میں اپنی بیٹی کوروٹی دوں یا تعلیم!’’

صنفی امتیاز، غربت میں لڑکا تو تعلیم حاصل کر سکتا ہے لڑکی نہیں- اسکے علاوہ کم عمری میں شادی، جنسی ہراسگی، مزدوری (چائلڈ لیبر) اور عدم تحفظ جیسے سکولوں پر حملیتعلیم کی راہ میں بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں

ایک عورت اگر بہتر تعلیم یافتہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی اولاد کو بہتر تعلیم دینے کے قابل ہوگی- لیکن کیا تعلیم یافتہ عورت تب کوئی کردار ادا کر سکے گی جب بظاہر‘‘ماڈرن‘‘ لیکن ایک جاہل ذہنیت اسکو جسمانی اذیت سے دوچار کر رہا ہو، کیونکہ وہ عورت اسکے نکاح میں ہے اور وہ اب اسکا‘‘مالک‘‘ ہے- جن گھروں میں عورتوں کے حقوق غصب کئیے جاتے ہوں، انکی آواز دبائی جاتی ہو اور ان پر جسمانی اور ذہنی تشدد کی انتہا کر دی جاتی ہو- ایسی عورتیں نہ صرف جسمانی طور پر اذیت کا شکار ہوتی ہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں اور قوت اعتمادی کھو بیٹھتی ہیں

ایک رپورٹ کے مطابق ذیادہ تر 15 سے 49 سال کی عمر کی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں- اور اس مسلسل ذہنی اور جسمانی اذیت کو سہنے کی بڑی وجہ انکی خاموشی ہے جسکی پس پردہ انکا خوف اور معاشرے میں سبکی ہے- اس خاموشی کا نتیجہ نہ صرف خواتین پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ وہ بچے جو گھریلو جھگڑوں اور ماں کے ساتھ باپ کے ناروا برتاؤ کو دیکھتے ہیں, وہ نا صرف کند ذہن ہو جاتے ہیں بلکہ آگے چل کر اپنی ازدواجی ذندگی ذیادہ عرصہ برقرار نہیں رکھ پاتے-(طلاق کا رجحان عموماً ایسے جوڑوں میں نسبتاً ذیادہ ہے جو بچپن میں ایسے ماحول میں تربیت پاتے ہیں جہاں ماں باپ کے درمیان ناچاقی حد سے ذیادہ ہو)

یہاں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ عورت کا فرق مٹ جاتا ہے جب مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ایک ہی طرح کی ہراسگی کا شکار ہو رہی ہوں خواہ کسی پھل فروش، مزدور کی شریک حیات ہو یا کسی وکیل، بڑے سیاستدان یا‘‘ہائی کوالیفائیڈ‘‘ روشن خیال کی ذوجہ ہو- جب دونوں کے ساتھ گھر میں ایک ہی طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہو- دونوں کے حقوق یکساں طور پر سلب کئیے جا رہے ہوں-

اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں ایک عورت کو جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر کیا جاتا ہے-

افسوس کی بات یہ ہے اسلام نے عورت کے حقوق اور اسکے ساتھ سلوک کی بہترین تعلیمات دیں ہیں، یہ وہ واحد مذہب ہے جو عورت کے حقوق اتنی تفصیل سے بیان کرتا ہے –

اَ یَجْلِدُ أَحَدُکُمُ امْرَأَتَہُ ثُمَّ یُجَامِعُہَا فِی آخِرِ الیَوْمِ.

”تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو نہ پیٹے کہ پھر دن ختم ہو تو اس سے مجامعت کرنے بیٹھ جائے’’۔’’

بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب ما یکرہ من ضرب النساء وقول اللہ (واضربوہن) أی ضربا غیر مبرح، 5: 1997، رقم: 4908، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامۃ

فَاتَّقُوا اللہَ فِی النِّسَائِ، فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوہُنَّ بِأَمَانِ اللہِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللہِ، وَلَکُمْ عَلَیْہِنَّ أَنْ لَا یُوطِئْنَ فُرُشَکُمْ أَحَدًا تَکْرَہُونَہُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِکَ فَاضْرِبُوہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَہُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.

”تم لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم لوگوں نے ان کو اللہ تعالیٰ کی امان میں لیا ہے، تم نے اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے اوپر حلال کر لیا ہے، تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کو اس پر ایسی سزا دو جس سے چوٹ نہ لگے! اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق ان کو خوراک اور لباس فراہم کرو۔”

مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب حجۃ النبی، 2: 889-890، رقم: 1218، بیروت: دار إحیاء التراث العربی

ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کے لئیے سب سے غیر محفوظ جگہ ان کے اپنے‘‘گھر‘‘ کو بتایا گیا- لاک ڈاؤن کے دوران دنیا بھر میں خواتین پر اس ظلم کا اتنا اضافہ ہوا کہ کورونا وائرس کو اقوام متحدہ کے مطابق تاریک ترین وبا کا نام دیا گیا-

جسمانی تشدد کا شکار صرف شادی شدہ خواتین ہی نہیں بلکہ بہت سی خواتین خانہ کے ہاتھوں بری طرح ذدوکوب کی جانے ولی کم عمر گھریلو ملازمائیں بھی ہیں-

متعدد بار ایسے واقعات نظر سے گزرے جن میں گھریلو ملازمین بالخصوص کم عمر لڑکیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے- ایک واقعہ جس میں گھریلو ملازمہ کو پٹرول چھڑک کر ذندہ جلا دیا گیا- وجہ محض پچیس ہزار کی رقم جو ایڈوانس تنخواہ کے طور پر ادھار لی گئی تھی

 پاکستان گلوبل سلیوری انڈکس میں 167 ممالک میں سے آٹھویں نمبر پر ہے- یہاں گھریلو ملازمیں کی تعداد قریب قریب نوے لاکھ ہے- جن میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں- لیکن ذیادہ تر تشدد کا شکار ایسے کم عمر بچے ہوتے ہیں جن کے والدین کسی مجبوری کے تحت اپنے بچوں کو مالکان کے حوالے کر جاتے ہیں- یا تو کسی قرضے کی ادائیگی کے لئیے یا پھر گھریلا حالات اور غربت کی وجہ سے کم عمر بچیوں کو کام پر بھیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں-اب وہ دس سالہ طیبہ کسی جج کے گھر ملازمہ ہو یا سولہ سالہ عظمیٰ جو تشدد نہ سہہ سکی اور دنیا سے ہی رخصت ہو گئی یا رضیہ جسکے سر پر شیشے کی بوتل توڑی گئی، خود کو بچانے کی خاطر بازو آگے کیا تو بازو اسی ٹوٹی ہوئی بوتل سے لہولہان کر دیا گیا- ان بچیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا- اسکے علاوہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بھی لاتعداد واقعات ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے- یا پھر والدین خوف کی وجہ سے زبان بند رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں –

غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ اسلام میں کیسا برتاؤ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے یہ یکسر بھلا دیا گیا ہے یا پھر‘‘ماڈرن کلاس‘‘ نے جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی-

’’وَاعْبُدُواْ اللہَ وَلاَ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْئاً وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً وَبِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْجَارِ ذِیْ الْقُرْبَی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ مَن کَانَ مُخْتَالاً فَخُورا.‘‘ (النساء:۶۳)

اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناو?، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاو? کرو،قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آو? اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے،پہلو کے ساتھی اور مسافروں سے اور ان لونڈیوں اور غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں،احسان کا معاملہ رکھو ،یقین جانو اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔”

جسمانی،جنسی یا نفسیاتی طور ہر ہراساں ہونے والی خواتین جب تک خود اپنی خاموشی نہیں توڑیں گی، خود اپنی آواز نہیں بنیں گی تب تک ان واقعات میں کمی نہیں آسکتی- معاشرے کو ایک عورت کے کم سے کم بنیادی حقوق دینے پڑیں گے- بحیثیت ایک انسان کے اپنے گھر میں، گھر سے باہر، کام کی جگہ یا سفر کے دوران ایک عورت کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہئیے- یہ کہہ کر نہیں بچا جا سکتا کہ‘‘یہ وقت باہر جانے کا نہیں‘‘ کسی بھی معاشرے کی بہتری میں جتنا فعال مر د ہے عورت بھی اتنی فعالی کے ساتھ اس کی ترقی و ترو یج میں ساتھ کھڑی ہے- ضروت اس امر کی ہے کہ اب وہ اپنی آواز خود بنے- خاموشی کی قلعے سے باہر نکل کر اپنے حق کے لئیے, اپنی پہچان کے لئیے خود کھڑی ہو- لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب معاشرہ اس صنف پر اپنی طاقت آزمانا بند کردے- اسے اسکا حق دے اور اسکی پہچان کو تسلیم کرے- وہ پہچان اور مرتبہ جو ساتویں صدی میں مذہب اسلام میں حاصل ہوا-