آخر دکھ تو سانجھے ہوتے ہیں‎

انسان کی زندگی نشیب و فراز کی گھاٹی کی مانند ہوتی ہے کبھی خوشی ، کبھی غم اسی تسلسل سے زندگی مانند برف پگھلتی رہتی ہے نہ چاہتے ھوۓ بھی انسان کبھی کبھا ر بہت پریشا ن تو  ہو  ہی  جاتا ہےپھر دنیا کی ساری حاصل شد ہ نعمت اس انسان کے لئے بے کار محسوس ہوتی ہیں سوچ کا اینگل رخ بدلتا ہے کچھ ما یو سی ڈیر ے ڈال لیتی ہے ہنستی مسکراتی زندگی کسی ایسے امتحان سے گزرنا شرو ع ھو جاتی ہے کہ کبھی کبھا ر انسان د عا ؤ ں ، امید و ں ، سہا رو ں کا محتاج ہو جاتا ہے۔

انسانی رویے ، غربت کا امتحان ، اولاد کی پروررش، روزگار ، اور ایسے بہت سے مسائل سے دو چار انسان پھر کسی ایسی دنیا کا ہم سفر ہو جاتا ہے کہ پھر زندگی کی کسی بہا ر کا جھونکا اس کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا جو اسے پہلے سے حاصل ہوتی تھیں حالات کی ایسی کش مکش اسے دوبارہ جینے ان گھٹا ٹوپ حالات سے چھٹکا رہ دلانے میں وه در بہ در کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیتا ہے دکھوں کا ایسا کڑوا جام نہ چاہتے ھوۓ بھی پینا پڑتا ہے انسان اپنی تمام تر کوشش کے باوجود موجود ہ حالات کے سامنے کمر بستہ ہونے کی بجائے ناکامی کی دلدل میں دھنس سا جاتا ہے

انسان کی زندگی غموں سے نڈ ھا ل کسی راہ نجات کی متمنی ھو جاتی ہے کسی پیارے عز یز کی دنیا سے رخصتی ھو ، بے روزگاری ھو ، دوستوں کے دئے دکھ ھوں ، یا دم توڑتی خوا ہشات ، سماجی انسانی رویے ھوں ، چاہے محبت کی نا کامی ، بزنس میں گھاٹہ ھو ، یا پھر کیریئر میں حائل رکا و ٹ الغرض پوری طرح انسان اس دنیا میں کچھ حاصل اور کچھ نہ حاصل کی جنگ و جد ل میں گزار دیتا ہے کہیں اپنو ں سے شکوے تو کہیں زندگی میں لئے گئے غلط فیصلے پر کڑ ھتا ، بڑ بڑا تا ، زندگی کا سفر طے کرتا رہتا ہے ویسے بھی مسافر آخر سفر سے کیسے راہ فرار اختیار کر سکتا ہے اسے جانا ہے آخر جانا ہے دنیا کی مست رنگین زندگی ، مزے ، مسر ت ، عیا شی ، سبھی کچھ چھو ڑ کر اسے چلے جانا ہے نہ وه یہاں مستقل آیا ہے نہ یہاں اسے مستقل رہنا ہے

ضرورت اس بات کی ہے کہ کیوں نہ سمجھ جائیں کہ ہم سب مسافر ہیں ہم سب نے جانا ہے کوئی یہاں رہنے والا نہیں حقیقت جب یہی ہے تو پھر اس سے وقتی انحرا ف کیسا ؟؟

جو زندگی خدا نے مجھے اور آپ کو عطا کی ہے اک جسم و روح کی طرح گزار لیں دوسروں کو تکلیف نہ دیں ، کسی کے آنسوؤں کو پونچھيں ، کسی کی دل آزاری نہ کریں ، کچھ حاصل نہیں تو اچھی سوچ ہی دے جائیں ، کسی کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھیے ، سہارا بن جائیں ، زخموں پر مرہم لگائیں ، خوشی بانٹیں ، گھل مل جائیں ، دوسروں کا  خیال کریں ۔

اور انکے ساتھ خدا کی ذات پر توكل کریں ، گلہ شکوہ نہیں ، اسکی عطا پر اپنی رضا کو قائم کریں ، صبر و شکر کریں ، اسی سے

جب ہے ہی سب اسکا تو  پھر ان چیزوں پر ناز کیسا؟ یہ خدا کا کنبہ ہے اسے معمولی مت سمجھنا

بس آج سے خوشی کو ضرب کریں اور غموں کو تقسيم کیوں کہ آخر دکھ تو سانجھے ہوتے ہیں ہاں سب دکھ تو سانجھے ہوتے ہی

مانگ لیں ، سب اسی کا ہے ، نہ تیرا ہے یہ سب نہ میرا ہے