میرا ڈوبتا آشیانہ

حالیہ مون سون بارشوں کے سلسلے کے نتیجے میں کراچی شدید طوفان اور سیلاب کی زد میں ہیں۔

تمام ہی عزیزوں کی خیریت مطلوب ہے۔۔ وہ جو پکے گھروں میں ہیں۔

اور وہ بھی جو کچی چھتوں اور دیواروں کے ساتھ کچی بستیوں میں ہیں۔۔

کتنے ہی لوگ اس آفتزدگی کا شکار ہو رہے ہیں۔۔۔۔کتنے لوگ راستوں میں پھنسے ہیں۔۔کتنے گھروں کے لوگ پانی بھر جانے کے باعث کہیں اور منتقل ہو جانے پہ مجبور ہیں۔۔کتنی ہی کچی بستیاں زمین بوس ہو چکی ہیں ۔۔کتنے ہی تجارتی املاک کا نقصان ہو چکا ہے ۔۔لوگوں کی گاڑیاں ان کی آنکھوں کے سامنے پانی میں ڈوبی کھڑی ہیں اور وہ بے بس ہیں۔۔کتنے ہی دیہاڑی دار مزدور بے روزگا ہیں۔۔۔ٹھیلے چھابڑے جو کسی کی روزی روٹی کا سامان تھے سب طوفان کی نظر ۔۔

 

ابھی کرونا کا شکنجہ ہلکا ہوا تھا کہ مزید جانی حادثات کا خطرہ …..اور اطلات۔۔

حب ڈیم ۔ملیر اور لیاری ندی میں طغیانی کا منظر ہے۔۔

حب ڈیم کے وہ سپل وے جو پچھلے 13 سال میں نہیں کھلے وہ مزید طوفان کی صورت میں کھول دینے کا امکان ہے ۔۔

اللہ اکبر……یا اللہ ….

ہمیں معاف فرمادے…

ہم بہت کمزور ہیں۔۔

بہت عاجز ہیں۔۔

ہم تیری رحمت سے امید لگائے بیٹھے ہیں ان حالات میں ہماری مدد فرما ۔۔

 

تو ہمارا رب ہے…

ہمیں صرف تیری مدد کا آسرا ہے…

یا اللہ۔ ہم تیری ناراصگی سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔۔

 یا اللہ ہم عافیت کے چلے جانے سے پناہ چاھتے ہیں تیری۔۔

 یا اللہ  ہم نعمتوں کے زوال  سے پناہ چاہتے ہیں تیری۔

یا اللہ ہم سے راضی ہو جا، ہم تیری مدد اور تیری رحمت کے ہر حال میں طلب گار ہیں۔۔

اس سخت گھڑی میں اہل شہر کا جذبہ ایثار دیدنی ہے ۔۔

سوشل میڈیا اور ہر طرف سے یہ پیغامات وصول ہورہے ہیں ۔

کوئی راستے مین پھنس گیا۔۔فلاں جگہ کے پھنسنے والے فلاں نمبر پہ رابطہ کریں۔۔جن جگہوں پہ لوگوں کو کھانا میسر نہیں فلاں جگہ قریب ہے وہاں رابطہ کریں۔۔گاڑیاں پھنسی ہیں تو ٹو کرنے والے اپنے نمبر فی سبیل اللہ دے رہے ہیں۔تمام ہی فلاحی تنظیمیں پوری طرح سے مدد گار ثابت ہورہی ہیں۔۔

 

لیکن…لیکن….لیکن پورا شہر اپنی مدد آپ پر ہے۔۔

کراچی جو ایشیاء کے بڑے تجارتی شہروں میں شامل ہے اس کی کوئی نہیں….. جسے کہتے ہیں…disaster management

اگر ہے تو بس یہ کہ ہنگامی حالات میں شہر فوج اور رہینجرز کے حوالے کردیا جائے۔۔

کیوں کہ شہر کے اہل امین تو اس وقت اپنے محلوں سے نکلیں گے شہر کی خبر گیری کرنے جب غریب اپنے تباہ حالی کے آنسو خشک کر کے دل پہ پتھر رکھ کر ایک بار پھر زندگی کی گاڑی چلانے میں مگن ہو جائے گا۔

 

ایسے ہر ہنگامے کے بعد اہل شہر کے سامنے سوال یہ اٹھتا ہے کہ شاید اہل امانت حکمران نہیں رہے یا عوام اہل بصیرت نہیں رہے کہ وہ اہل امانت کو ڈھونڈ سکیں…. خدا کرے کوئی تو حوش میں آئے حکمران یا عوام!!!

ورنہ……..یوں ہی مصیبتیں نازل ہوتی رہیں گی….اللہ ہم پر رحم فرمائے۔

جواب چھوڑ دیں