ابو یحییٰ صاحب سے معذرت کے ساتھ

ہم جو کچھ لکھتے ہیں،کہتے ہیں وہ ہماری فکر کا عکاس ہوتا ہے۔

ہمارے دل کی زمین پر پھوٹنے والے شگوفوں میں ہماری خواہشات کی کلیاں کھلتی ہیں۔خواہشات کی یہ کلیاں ہماری ترجمان ہوتی ہیں کہ ہم زندگی سے کیا چاہتے ہیں۔

حال ہی میں ابو یحیی صاحب کا ایک مضمون ڈرامہ” ارطغرل “کے بارے میں پڑھا۔

ابو یحیی صاحب نے اپنے مخصوص علمی اور فکری انداز میں اپنا پیغام عوام الناس تک پہنچانے کی سعی کی ہے جن سے کہیں ہمیں اتفاق ہے تو بصد احترام بہت سا اختلاف بھی ہے۔

ابو یحیی صاحب سے میری گزارش ہے کہ اس اختلاف کو میری آزادانہ رائے کا حق اور موقف سمجھا جائے مخالفت نہیں۔

ہمیں جن باتوں پر اختلاف ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی چیز کی اہمیت سے یکسر انکار نہیں کر سکتے۔نہ ہی کسی بھی چیز کو مکمل منفیت کے دائرے میں لا سکتے ہیں۔

آپ نے چند چیزوں کے حسن کی تعریف کھل کر کی ہے، بجا کی ہے ہم مانتے ہیں۔

لیکن مرکزیت کو بالکل نظر انداز کر کے اس کے قبح کو بیان کیا ہے۔

ہم بھی مانتے ہیں کہ یہ دنیا علم کی دنیا ہے اس میں آگے بڑھے بغیر کفار کو مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔

اور کیوں نہ مانیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہی یہی ہے کہ

طلب العلم فریضتہ علی کل مسلم۔

اس کے لیے وہ لوگ محنت کر رہے ہیں جو امت مسلمہ کا جھکا ہوا سر اٹھانا چاہتے ہیں آپ ان کو دیکھیے بھی اور ان پر بات بھی کیجیے۔

“ارطغرل “ڈرامہ فکشن پر مبنی ہے ہم بھی مانتے ہیں مگر مکمل طور پر نہیں۔ یہاں مرکزی خیال کو حقیقت تسلیم کرنا ہوگا،اور اس نکتے کو سمجھنا ہوگا کہ لوگوں تک حقیقت پہنچانے کے لیے اگر اسے فکشن میں تبدیل کر کے پیش کیا جائے تو اس مین فکشن کا عنصر ہونا بہت ضروری ہے یہ ضرورت کے ساتھ صنف کا حصہ بھی ہے۔

اور ان ڈراموں اور فلموں سے کیا یہ بہتر نہیں جو قوم کو افیون کی گولیاں بن کر سلا رہے ہیں۔

اگر آپ بات کرتے ہیں کہ سازشیں اور ریشہ دوانیاں دکھا کر قوم کو یہ میسج دیا جا رہا ہے کہ بس ساری دنیا میں مسلمانوں  کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں ہی ہورہی ہیں تو محترم بھائ آپ تو بہت اپنے وسیع علم کے باوجود بہت معصوم ہیں کہ ہماری تاریخ اپنے اور پرایوں کی سازشوں سے بھری نہیں پڑی ؟

رہی بات یہ ہیرو ازم کی  کہ ہم آج بھی غفلت کا شکار اور اس آس میں ہیں کہ کوئ لیڈر آئے گا اور ہمارے زوال کو عروج سے بدل دے گا۔

ایسا نہیں ہے کہ سب ہی ایسے خوش گمان ہیں اور ایسی خیالی جنت کے خوابوں میں گم ہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا اور زخموں پر مرہم رکھ کر شفا کی نوید سنادے گا۔

جہاں امت کے زخم بہت بڑھ چکے ہیں وہیں امت کا ایک بڑا حصہ بیدار ہو رہا ہے۔اسلام کو جتنا دبایا جا رہا ہے وہ اتنا ہی ابھر رہا اس کی جھلکیاں ہم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر کچھ لوگ ہیں جن کی سازشوں سے ہمیں نمٹنا ہے جن کی خواہشوں سے ٹکرانا ہے کہ وہ امت کے زخموں کو ہرا ہی رکھنا چاہتے ہیں۔

اور ایک لیڈر کو ایسی جدوجہد کے نتیجے میں آنا ہی ہوتا ہے آپ نے خود طیب ایردوان کی مثال پیش کی ہے۔مگر وہ لیڈر کبھی خود بھی یہ نہیں کہتا کہ میں ہی سب کچھ کروں گا لیڈر شپ کی اہمیت سے کوئی  انکار کر ہی نہیں سکتا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کامل قائد ہیں۔

ہم “ارطغرل غازی”کو ماضی کے فریب میں گم ہونے کی داستان کے طور پر نہیں لے رہے۔

نہ ہم کسی ایسے رومانس میں مبتلا ہورہے ہیں کہ جو ہمیں خواب غفلت کی نیند سلادے۔یاد رکھیے!یہ ڈرامہ طیب ایردوان کے دیس ترکی میں بنا ہے جہاں آج آیا صوفیہ میں حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔

لہذا ہم اسے ایک ایسی داستان کے روپ میں لے رہے ہیں جسے ہر خاص و عام کے لیے یکساں دلچسپی کا باعث بنانے کے لیے حقیقت میں فکشن تو شامل کیا گیا ہے مگر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اب اٹھ کھڑے ہونے کا وقت آگیا ہے اگر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے۔

اگر بدر کی داستانوں کو دہرانا ہے تو اللہ پر یقین کامل رکھنا اور محمد صلی  اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہے۔

اپنے گھوڑوں کو تیار رکھنے کا حکم ہمیں قرآن میں رب نے دیا ہے اور اس کی تشریح آپ جیسی علمی شخصیت کو سمجھانا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے۔

تو اس وقت عالم اسلام پر امریکہ، بھارت اسرائیل اور ان کے گماشتوں نے جو ستم برپا کر رکھا ہے وہاں سازشوں کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اسی طرح آیا صوفیہ میں ہونے والی اذانیں بیداری کی جس لہر کی گواہ ہیں اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

میری آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ بھی “ارطغرل” کو سبق سیکھنے کے طور پر لیں نہ کہ ایک رومانس کے طور پر۔

جواب چھوڑ دیں