کرونا وبا ۔۔ تعلیم کے میدان میں نئے امکانات (دوسری قسط)

کرونا وبا ۔۔ تعلیم کے میدان میں نئے امکانات ۔۔ دوسری قسط

آن لائن ایجوکیشن کے  عملی فائدے

 پہلی قسط میں ہم نے ان لاین ایجوکیشن کے مسائل کے بارے میں گفتگو کی تھی اور ارادہ تھا کہ اس قسط میں ہوم اسکولنگ پر پر بات چیت کی جاۓ لیکن اکثر احباب کی تجویز تھی کہ ان لاین ایجوکیشن کے فائدے اپنے تجربے کی روشنی میں بیان کریں تو ان کی راے کے پیش نظر مختصرا اپنے اسکول کے تجربات میں شریک کرہا ہوں –

آن لاین ایجوکیشن میں جہاں مختلف قسم کے مسائل اور دشواریاں کا  سامنا ہوا وہاں پر سیکھنے کے بے شمار امکانات بھی نظر آے ۔ اس نظام سے منسلک ہر فرد نے اپنی معلومات اور مہارتوں میں اضافہ کیا ۔ جب ہم نےاس نظام کا آغاز کیا تو والدین کو شک تھا کہ بچے اس نظام کو کیسے استعمال کریں گے ؟ میرا نقطہ نظر ان سے مختلف تھا مجھے بچوں کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالی نے جینیاتی طور پر ان بچوں کو موجودہ عہد کی ضروریات کے ساتھ  ( احسن تقویم) پیدا کیا ہے جس کی مثال یہ ہے کہ ایک سال کا بچہ بھی اسمارٹ فون  سے یو ٹیوب  پر موجود اپنی پسند کا کارٹون کو کھول کر ا سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔ آج کل کے بچوں کا پسندیدہ کھلونا ہی اسمارٹفون ہے ۔ اگر ان کے سامنے عام موبائل اور اسمارٹ موبائل رکھے جایئں تو وہ اسمارٹ موبائل کو منتخب کرتے ہیں  یعنی ان کو علم  ہے کہ ان کے کام کا کون سا موبائل ہے۔  لہزا آج کے بچے ٹکنالوجی سے سیکھنا چاہتے ہیں، بہت سی ایسی مہارتیں جو روایئتی نظام تعلیم کا جزو لا ینفک ہیں  ان کو نیا نظام ہڑپ کرتا جارہا ہے ۔ مثلا اب بچے لکھنا نہیں چاہتے وہ ٹایپنگ کرنا یا اسکرین شاٹ پر  درسی مواد جمع کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کمپیوٹرٹائیپنگ میں آسانی اپنے مضمون یا تحریر کو اپنی پسند کے مطابق آسانی سے ڈھالا جاسکتا ہے – بچون میں اب سمعی مہارت کی جگہ بصری مہارت  نے لے لی ہے کیونکہ ان کا اسکرین ٹائم بڑھ گیا ہے ۔

کل تک ہم بچوں  کو موبائل استعمال کرنے نہیں دیتے تھے ، اسکولوں میں موبائل کے استعمال پر پابندی تھی  کیونکہ ہمارا گمان تھا کہ بچے موبائل کے استعمال سے خراب ہو جایئں گے ۔ میرا اس وقت بھی نظریہ مختلف تھا ۔ میرا کہنا تھا کہ اگر بچوں کی رہنمائ کی جاے اور ان کو  ٹکنالوجی کے متعلق ایسے  مشاغل فراہم کیے جایئں جس سے وہ لطف اندوز بھی ہو ں اور  اس  سے ان کی  قابلیت اور تعلیم سے جڑے جملہ مقاصد کی نشونما بھی ہو تو وہ ان کا منفی استعمال نہیں کریں گے مثلا کمپیوٹر گیمنگ کا شوقین بچہ یا نوجوان گھنٹوں  گیم تو ضرور کھیلتا ہے لیکن وہ ممنوع سائٹ پر نہیں جاتا کیونکہ اس کی مسرت کا سامان تو گیم میں موجود ہے اس لیے اگر بچوں کو  ڈیجیٹل ٹکنالوجی کے ایسے مشاغل فراہم کیے جایئں جس سے ان کی ذہنی اور جذباتی ترقی کی رفتارکا تعین مثبت سمت میں ہو جاے تو ہمیں فکر کی کوئ بات نہیں – تعلیم کا بنیادی مقصد  صرف غلط اور درست کی تمیز ہی سکھانا نہیں ہے بلکہ بچوں کو درست سمت کاتعین کرنے اور اس پر سفر جاری رکھنے کے لیے زاد راہ بھی فراہم کرنا ہے ۔ لیکن اکثر اساتذہ ، والدین اور اسکول انتظامیہ کا موقف ٹکنالوجی  کے استعمال کی مخالفت میں تھا۔ جب ہم نے اپنے اسکول می چار سال پہلے  پروجیکٹ بیسڈ لرننگ شروع کی تو بچوں کو ایم ایس آفس کا استعمال کرنے کا بھرپور موقع ملا اور انہوں نے اپنی پریزینٹیشن اور وڈیوز کے ذریعے سکھاے گئے مواد کا عملی اطلاق کیا جس سے ان کے اندر غور و فکر اور تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں کی نشونما ہوئ اور وہ ایک ٹھوس شکل میں بھی سامنے آیئں  جس سے ان کی پیمایئش بھی آسانی سے ہو گیئں۔

 ہمارا مقصد بچوں کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ  کے لیے ضروری  مہارتوں اور علم سے آراستہ  کرنا تھا اس کے لیے ان بچوں کو صرف لگے بندھے نصاب کے ذریعے  جماعتوں میں کامیاب کروانا اور نمبر حاصل کروانا  نہیں تھا  بلکہ  ہمارا وژن بچے کی آیندہ پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی  کے لیے تیاری تھا –  ہمارے نزدیک نصاب  مقصد کے حصول کاایک وسیلہ ہے نہ کہ بزات خود مقصد۔ اس لیے ہم نے مروجہ امتحانی نظام  سے ہٹ کر بچوں کو زند گی کے امتحان میں کامیابی کے لیے تیار کیا اس کے لیے مروجہ نظام امتحان  میں اصلاحات کیں جس نے رٹنے کے رواج کو ختم کیا ۔  ہمارے بچے ٹکنالوجی اور کتاب سے باہر کے نصاب سے پڑھنے کے عادی تھے اوروہ مجبور و محض طالب علم نہیں تھے وہ خود آموز طالب علم  تھے۔ اس لیے جب ہم نے آن لاٰئن نظام شروع کیا تو ہمارے طالب علم اس کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار تھےوہ والدین جو روایتی تعلیم کے حامی تھے اور صرف نوٹس کا رٹا لگانے پر زور دیتے تھے ۔ اور ہماری تعلیمی نظام میں اصطلاحات کے سخت مخالف تھے آج وہ مطمئن ہیں کہ ہم نے ان کے بچوں کو قبل از وقت اس مشکل وقت کے لیے تیار کردیا تھا۔

 یہ وہ وجوہات تھیں جس نے ہمارے اسکول میں آن لاین نظام کو کامیاب ہونے میں مدد دی۔ کرونا کی برکات سے موبائل فون جو شجر ممنوع کا درجہ رکھتا تھا آج وہ سیکھنے اور سکھانے کا برا وسیلہ بن گیا ہے اب آن لائن ایجوکیشن سے جڑی اصطلاحات ہمارے بچوں کی زبان پر آگئی ہیں وہ ٹرن ان ، ہنڈڈ ان  جیسے الفاظ کا استعمال اپنی عام گفتگو میں کررہے ہیں یعنی آن لاین ایجوکیشن نے بچوں کی  زبان کی لغت اور اس کے استعمال میں بتدریج اضا فہ کیا ہے ۔

والدین کے شکوک و شبہات کا بھی کسی حد تک ازالہ ہو گیا ہے کہ ان کا بچہ موبائلفون کے استعمال سے خراب ہو جاے گا ۔ عجیب بات یہ تھی کہ بچوں کے پاس موبائل فون بھی موجود ہے ان کے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بھی موجود ہیں لیکن تعلیم کے لیے اس کو استعمال کرنے پر نہ جانے کیوں ہچکچاہٹ تھی۔ آج اللہ کا شکر ہے جو بچے چھپ کر اور گناہ سمجھ کر اس کا استعمال کر رہے تھے اب ان کے لیے حلال ہو گیا ہے۔

والدین کی اکثیریت  کمرہ جماعت میں ہونے والے تدریسی عمل سے ناواقف تھی آن لاین ایجوکیشن نے  اس کی پیچیدگی اور اساتذہ کی محنت و مشقت کو بھی واضح کر دیا ہے۔ دوم ان کی ڈیجیٹل آلات سے واقفیت کے بعد اپنے بچوں سے گفتگو کرنے میں آسانی اور ان کے مشاغل کے بارے میں بھی واقفیت بھی ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں  والدین اور بچوں کے جنریشن گیپ میں کمی آجاے گی-

ہم نے آن لاین ایجوکیشن کے اصل جوہر کو اپنے نظام میں قائم رکھا  جبکہ اکثر اسکولوں نےاس نظام کو روایتی نظام کے طور پر لیا ہے وہ مسلسل چار گھنٹے کی کلاسیں لے رہے ہیں ، اور بچوں کو اسپون فیڈنگ کرا رہے ہیں ، حاضری کا نظام بھی بنایا ہے جبکہ ہم نے اپنے بچوں کو پابند نہیں کیا  وہ کلاس لیتے ہوۓ ناشتہ بھی کر رہے ہوتے ہیں ، اپنی پسند کا لباس بھی پہنے ہوۓ ہوتے ہیں اور اپنی پسند کے مطابق نشست و برخواست بھی کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ ورزش بھی کرتے ہیں اور رول پلے کے ذریعے اپنے تصورات کو بھی واضح کرتے ہیں ان کے لیے آن لاین کلاسیں ایک جبر نہیں ہے بلکہ مسرت کا سامان ہے ، گوگل کلاس میں زوم کلاس کا تدریسی مواد جمع کردیا جاتا ہے  اور جو بچے کسی وجہ سے زوم کلاس نہیں لے پاتے وہ  وہاں سے استفادہ کر لیتےہیں۔ اس طرح سے ان کو بلا وجہ پریشانیوں سے نجات دی ہے کیونکہ آن لاین  ایجوکیشن کا مقصد ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو روایتی نظام کا حصہ ہیں ۔

ہم یہاں پر بچوں کو اپنی آموزش کا خود ذمہ دار بنارہے ہیں – وہ اپنے نظم و ضبط کو خود ریگولیٹ کر رہے ہیں ، استاد  اور طالبعلموں کے باہمی مکالمہ کو مرکزی جگہ دی گئی ہے بجاۓ اس کہ استاد اپنا کورس ختم کرواے اور بچے گم سم ہو کر اس کی بات کو سنیں ۔ ہمارے یہاں بچے ہنستے بھی ہیں اپنی بنائ ہوئ چیزوں کو دکھاتے بھی ہیں اورایک ہمہ جہتی آموزشی ماحول تخلیق کرتے ہیں جہاں وہ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھتے ہیں اس طرح سے ہم نے سیکھنے کےعمل روایتی تصور جو یک طرفہ یعنی استاد سے بچوں کی طرف ہوتا ہے اس کو ختم کر  کے کثیرالسمتی کردیا ہے جس میں بچے زیادہ  حصہ لیتے ہیں اور استاد ایک سہولت کار اورآموزشی رہنما کا کرادا ادا کرتا ہے ۔  اس مقصد کے لیے ہم نے ہر جماعت میں بچوں کی تعداد محدود کر دی ہے اور ہر جماعت کے فریق کو علیحدہ رکھا ہے –جس نے ان کے درمیان باہمی مباحثے میں شرکت کے زیادہ مواقع فراہم کر دیے ہیں-

حآضری کے نظام کو ہم نے بچوں کے اسائینمنٹ کے جمع کرانے اور کویز میں شرکت سے مشروط کردیا ہے اس طرح ہم روزانہ حاضری لینے سے بھی بھی بچ گئے ہیں۔

آخری بات یہ کہ آن لاین ایجوکیشن ذہانت کے کثیرالجہتی  نظریہ کی ترویج میں اہم کردار ادا کرہا ہے وہ استاد اور طالب علم جو  اپنی ذات میں گم رہتے تھے ۔ ٹکنالوجی نے ان کی صلاحیتوں کو نمایا ں کرنے کا موقع فراہم کیا ہے اسی طرح وہ طالب علم جن کی زبان پر گرفت کم تھی وہ گرافک اور وڈیوز کے ذریعے اپنی ذہانت  اور تخلیقی  صلاحیت کا اظہار کر رہے ہیں ۔ موضوعی اور معروضی آزمایشوں  اور پر جیکٹ کی سرگرمیوں کے ان کی شخصیت کے مختلف النوع  زاویوں کی جانچ  میں مدد مل رہی ہے۔ اس نظام نے ہر فرد کو اپنے  خفیہ جوہر کو نمایاں کرنے کا موقع دیا ہے اور ان کی خود اعتمادی میں اضافہ کیا ہے۔

ہمارے اسکول میں یہ نظام ابھی ارتقاء پزیر ہے لیکن تمام فریقین نے اس نظام کو کرونا کے بعد بھی روایتی  نظام تعلیم کے ساتھ  ساتھ چلانے کے لیے اتفاق کیا ہے۔ مشترکہ نظام کا اطلاق ایک چیلنگ سے کم نہیں ہے لیکن مسقبل کے ایک امکان  طور پر اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا-

جواب چھوڑ دیں