حسد

اللہ  کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” حسد سے بچو  کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتاہے کہ جیسے آگ  لکڑیوں کو کھا جا تی ہے ”  حسد ایسی  بیماری ہے جس میں مبتلا ہوکر انسان اپنی قیمتی متاع  یعنی نیکیوں کو تباہ کرلیتاہے اور انسان کو پتہ بھی نہیں لگتا اس کے علاوہ وہ  اپنی دنیا کا بھی نقصان کرتاہے جس میں اس کی  روحانی،ذہنی اور جسمانی  نقصان بھی شامل ہے ۔اس بیماری کا شکار  مرد اور خواتین یکساں ہوتے ہیں۔

حسد اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر کسی انسان کو دوسرے انسان سے ہوجاتی ہے ۔مثال کے طور پر کوئی فرد  جس کو اللہ نے ایک خوبصور ت  گھر عطاکیا ہے  کوئی دوسرا فرد جس کے پاس رہائش  کے لیے گھر نہ ہو تو وہ اپنے دل کے اندر یہ  چاہیے کہ  اُس کے پاس رہائش کے لیے گھر ہے اور میں اس سے محروم ہوں۔ وہ شخص اگر ویسی ہی رہائش بنانے کی جائز حدود میں رہ کرکوشش کرے تو یہ حسد نہ ہوگا۔

گر تو یہ فر د اللہ کی اس تقسیم پر راضی ہوجائے اور اپنے پاس اللہ کی بے شمار نعمتوں کی عطا پر شکر گزاری کا  رویہ اختیارکرے تو یہ شکرگزاری اس کے لیے بہتر ہے اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہوگا  اور اگر اس محرومی کو اپنے دل کے اندر جگہ دے دل کے اندر جلن اور حسد اپنے اندر پروان چڑھاتا چلا جائے کہ  یہ اللہ کی نعمت  فلاں شخص کے بجائے میرے پاس ہویا یہ کہ اس آدمی سے یہ نعمت  چھن جائے اور میں اس کو  حاصل کرلوں یا یہ کہ اگر مجھے یہ اللہ کی نعمت حاصل نہیں تو اُس کے پاس سے بھی چھن جائے ۔

اس طرح یہ شخص  اللہ کی  تقیسم پر اعتراض کا مجرم بھی بنتا ہے ۔یہ جذبہ (بیماری ) جب دل کے اندر پیدا ہوجائے تو یہ محظ دل کے اندر ہی نہیں رہتا بلکہ  اس کے اثرات سے پہلے حاسد خود اور پھراس سے معاشرے کے دوسرے افراد  متاثر ہوتے  ہیں اور نقصانات کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔اس وجہ سے ارشاد  باری تعالٰی ہے  کہ” اورہر حسد کرنے والے  کے شرسے جب وہ حسد کرے” (سورہ الفلق ) کسی    انسان کے اندر کب حسد پیدا ہوجائے اس کا علم  دوسرےانسان کو  ابتدا میں نہیں ہوتا ۔ اور حاسد  اس کو کیا نقصان پہنچانے  کی تدا بیر اپنے دل میں سوچ رہا ہے اس سے بھی محسود لاعلم ہوتاہے اس لیے اللہ تبارک تعالٰی نے  سورہ الفلق میں  یہ تعلیم دی ہے کہ  اللہ سے پناہ طلب کرنا چاہیے   حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔حسد انسان کو اللہ تعالٰی سے بدگمانی مبتلا  کردیتا ہے۔

گویا وہ اللہ کی نعمتوں  کو دوسرے انسان کے پاس دیکھ کر  ناخوش ہوتاہے اور اللہ کی اس تقسیم پر ناخوش ہوتاہے  وہ چاہتاہے اور یہ کہ وہ اللہ تعالٰی  کے کہ یہ نعمت دوسرے فرد کے بجائے  میرے پاس ہونا چاہئے میں اس کا زیادہ حقدار ہوں  اس کی یہ سوچ اللہ تعالٰی کی آزمائشی اسکیم سے لاعلمی کی وجہ سے بھی پروان چڑھتی ہے۔ہر وقت اس کو ایسی فکریں لاحق رہتی ہیں  ۔ اور شیطان اس  کے اس احساس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتاہے  اس طرح وہ  اپنی ذہنی  صحت کو تباہ کرلیتاہے  اور کی روح  مجروح  ہوجاتی ہے ۔ حاسد  کا مقصد دوسروں سے نعمتوں کو چھین کر حاصل کرنا یا پھر کم از کم دوسروں کو اس نعمت سے محروم کردینا ہوتاہے  اس کے لیے وہ  اپنی صلاحیت  ، اپنی دولت  اوراپنی طاقت  اپنے شر انگیز  مقصد کے لیے جھونکتاہے ۔ جس کی وجہ سے اس کی دنیا بھی تباہ ہوجاتی ہے ۔

جب ایسے لوداد معاشرے میں بڑ ھ جاتی ہے  تو معاشرے کا  امن تباہ ہوجا تاہے ۔ اس  اخلاقی بیماری میں مبتلا ہوکر انسان اپنے لیے ہی مشکل کھڑی کرتاہے ۔آج  کل کے نمود نمائش کے  بڑھتے ہوئے رجحان نے  اس حسد کی بیماری کو مزید بڑھایاہے  اور اس پہ سونے پر سہاگہ  میڈیا نے کردیاہے اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ  جو  بھی نعمت اللہ تعالٰی  نے دی اس کو دوسروں  شیئر   کرنا  اس کو اسٹیٹس پر لگا نا اس کی تصاویر   پبلک کرنا ۔ یہ ان اسباب میں اضافے کا باعث ہیں جن سے  انسان کے دل میں حسد پیدا ہوتاہے ۔

حسد سے بچنے کے لیے   انسان کو چاہیئے  کہ قرآن اور سیرت کا مطالعہ کرے اس کو اپنی زندگی میں اپنائے  ۔اللہ تعالٰی  کے اس آزمائشی  منصوبے پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ  نعمتیں دیے کر بھی آزماتاہے اور نعمتیں  لے کر بھی آزماتاہے ۔ اور یہ کہ جو کچھ نعمتیں بھی کسی کو دنیا میں حاصل ہیں وہ  عارضی ہیں ۔جب بھی ایسی کیفیت  پیدا ہو تو اس کو چاہیے کہ اللہ کے ان بندوں کی طرف  نظر کرے جن کو اللہ تعالٰی نے اس سے بھی کم نعمتیں عطا کی ہیں۔اس طرح اس کے دل میں شکر گزار ی کا جذبہ پیدا ہوگا ۔

جواب چھوڑ دیں