“کرونہ جرثومہ” نشانہ چین کی معیشت

کرونا وائرس کا نام لکھنے سے بھی خوف آ رہا ہے ، شاید اسکی وجہ میڈیا کا وہ شور شرابا ہے جو ساری دنیا میں مچایا گیا ہے ۔ چین نے گزشتہ کچھ سالوں میں دنیا کی معیشت کو تقریباً اپنے قابو میں کرہی لیا تھا کہ اور دنیا کی سپرپاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا ۔ چین نے بغیر تخریب کاری کیے بغیر، کسی کو ڈرا ئے دھمکائے بغیر، کسی کی سرحدوں کو عبور کیے اور بغیر کسی کو جمہوریت کا طوق پہنائے اپنی معیشت کو مستحکم کیا ۔ چین کی مصنوعات دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں پھیل گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے چین نے ساری دنیا پر اپنی مصنوعات کی چھاپ لگادی ۔

حالات و واقعات سے دیکھائی دیتا ہے کہ امریکا یقیناً چین کو اپنے ہم عصروں میں نہیں گن رہا تھا ۔ جبکہ چین نے بھی کسی کو اپنے مقابلے میں قریب بھی نہیں آنے دیا ۔ دنیا کو اپنے طرز پر چلانے کا خواہشمند امریکہ، چین سے یہاں مارکھا گیا ۔ چین نے دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا، چین نے چھوٹی بڑی180 صنعتوں کا جال بچھادیا اور اپنی مصنوعات دوسروں سے کم قیمیت میں دنیا میں متعارف کروادیں ۔

پاکستان کو اپنی معیشت میں بہتری کیلیے چین کا بھرپور ساتھ دینا پڑا جس کا چین نے خوب فائدہ اٹھا یا بلکہ اٹھا ہی رہا ہے ۔ جنوری ۲۰۱۸میں امریکا نے درآمدات پر محصولا ت میں اضافہ کیا تو بھی پوشیدہ طور پر نشانہ چین کو ہی بنانا تھا کیونکہ اب امریکا کی منڈیوں میں بھی چین نے اپنی بھرپور جگہ بنا لی ہے، گوکہ محصولات کے اضافے کو چین نے بھی برابری کی بنیاد پر نمٹایا اور اسی سال اپریل میں امریکی مصنوعات پر محصولات میں پندرہ سے پچیس فیصد اضافہ کردیا ۔ اب یہ بھی سمجھ لیں کہ محصولات سے اضافے میں جس ملک میں آمد ہورہی ہوتی ہے اسے فائدہ ہوتا ہے اور جہاں سے رسد آرہی ہوتی ہے اسے کسی حد تک خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس طرح سے چین نے اپنی اہمیت کو اور اجاگر کیا۔

ابھی یہ کھیل ختم نہیں ہوا چین امریکا سے محصولات میں بتدریج اضافہ کرتا چلا گیا جبکہ دنیا کے دوسرے ممالک سے محصولات قدرے کم کردئیے گئے ۔ بہترین حکمت عملی اور معاشی استحکام نے چین کو ایساکرنے کی اجازت دی ۔ امریکا ، چین کی بالادستی کو اتنی خاموشی سے کیسے برداشت کرسکتا تھا امریکا نے ہواوے پر پابندی لگادی گوکہ یہ چین کی ایک کمپنی ہے اور دنیا کو مواصلات کی مصنوعات فراہم کر رہی ہے ، چین نے ایک بار پھر بہت ذہانت سے امریکا کے ایپل پر چین میں ایسی پابندی لگائی کہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایپل کی مصنوعات چین کی سڑکوں پر پھینک دیں ۔

چین دنیا کی سب سے بڑی آبادی کا ملک اور وہ اگر کسی مصنوعات کا استعمال ترک کریں تو ادارے کا دوالیہ ہونا حتمی ہے ۔ امریکا کو ایک بار پھر منہ کی کھانی پڑی ۔ امریکا نے پاکستان پر مختلف طریقوں سے دباؤو ڈالنے کی کوشش کی لیکن موجودہ حکومت واضح طور پر یہ کہتی آرہی ہے کہ اب ہم کسی کی جنگ میں ٹانگ نہیں اڑائینگے اور نا ہی ساتھ دینگے ۔ امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ اس خطے میں بغیر پاکستان کی حمایت کے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے گوکہ امریکا ، بھارت کا اچھا دوست ہے لیکن پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے خطے میں خاص مقام رکھتا ہے ۔

پاکستان پر امریکا نے سی پیک کے حوالے سے بھی کئی سوال اٹھائے کہ اس سے حاصل ہونے والے فائدے سے انہیں بھی حصہ دیا جائے لیکن پاکستان نے کبھی بھی سی پیک کے معاملے پر امریکا کو خاطر میں نہیں رکھا اور یہی بات پاکستان کی چین کیلیے قابل تعریف ہے ۔ یوں امریکا اس خطے میں اپنے مقاصد کیلیے ٹکریں مارتا ہوا محسوس کیا جا رہا ہے ۔ پھر امریکی صدر کو جہاں بہت سارے خود ساختہ مسائل کا سامنا ہے وہیں دنیا کی طرف سے بڑھتا ہوا کشمیر کے لیے دباؤ بھی اپنی اہمیت منواتا جا رہا ہے ۔

چین میں اس وقت کرونہ نامی جرثومے نے قیامت برپا کر رکھی ہے ، چین نے اپنی تمام تر توجہ اس جرثومے سے نمٹنے پر لگائی ہوئی ہے جوکہ اتنا بے قابو ہوچکا ہے کہ تقریباً ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں سیکڑوں لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں جوکہ اس جراثیم سے متاثر ہیں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ چین نے ایسے ہنگامی حالات میں بھی تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے جب انہوں نے صرف دس دنوں میں ایک وسیع و عریض ہسپتال خاص اس مرض کیلیے تیار کیاہے ۔

دنیا نے چین سے اپنے ہر طرح کے تعلقات محدود کررکھے ہیں جس کی وجہ اس جرثومے کی منتقلی کا خوف ہے ۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی ساری دنیا میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر رکھا ہے ۔ ایسے جذباتی مناظر سماجی میڈیا کے توسط سے موصول ہورہے ہیں کہ جن میں بچے اپنے والدین سے اور اسی طرح سے لوگ ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے گریزاں ہیں ، بازار سڑکیں گلی کوچے، تعلیمی ادارے ہر جگہ سناٹا ہے جہاں کشمیر بھارتی تسلط کی وجہ سے گزشتہ ۵۹۱ دنوں سے جیل بنا ہوا ہے بالکل اسی طرح سے کرونہ جرثومے نے پورے چین کو محصور کر کے رکھ دیا ہے ۔ چین کی معیشت کو جوکہ بھرپور پھل پھول رہی تھی زبردست مندی کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر یہ نقصان ہوتا ہی چلا جا رہا ہے ۔

عام لوگوں کا خیال ہے کہ امریکا کو آنے والے وقتوں میں جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ اس حوالے سے فلم بناتا ہے تاکہ دنیا میں رائے عامہ ہموار کرسکے اور لوگوں کے ذہنوں میں اپنی برتری کا ٹیکہ لگادیں اور سمجھانے کی کوشش کریں کہ کچھ بھی ہوسکنے کیلیے تیار رہیں ، گوکہ اکثر فلمیں تو بہت زیادہ ہی حدوں سے باہر ہوتی ہیں ۔ فلموں پر گہری نظر رکھنے والے زیادہ ان باتوں پر روشنی ڈال سکتے ہیں ۔ ۲۰۱۱ ء میں ہالی وڈ میں ایک فلم شائع ہوئی جس نے تقریباً ریکارڈ ساز کاروبار کیا اور ۲۰۲۰ء میں ایک بار یہ فلم پہلی دس دیکھی جانی فلموں میں شامل ہے ۔

اس کی وجہ بھی یہ کرونہ جراثیم ہے جس پر یہ فلم بنائی گئی اور جس طرح سے یہ بنائی گئی بالکل حالات وواقعات رونما ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ لکھنے والوں نے اسے حسن اتفاق کہہ دیا ہے لیکن کیا ایک عملی کارنامے کو صرف اتفاق کہا جا سکتا ہے ;238; اور وہ بھی ایسی صورتحال میں جب چین امریکہ کے گلے تک پہنچ چکا تھا ۔ چین ہی وہ واحد ملک ہے جو معیشت کے استحکام کی بدولت دنیا میں امریکہ کہ بعد دوسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے ۔ امریکہ میں بیٹھے ہوئے اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھنے والے بھلا کیسے چین کو دنیا میں اپنے سے اوپر دیکھ سکتے ہیں ۔

بہت ممکن ہے مذکورہ بالا سارے اندازے ابہام ہوں ، لیکن ہمیشہ پہل امریکا نے کی ہے اور پھر بھرپور جوابی کارروائی چین نے کی ہے ۔ ہ میں یقین ہے چین بغیر کسی بیرونی مدد کہ اس بحران سے نمٹ لے گا ،پاکستان نے اپنی ہر ممکن معاونت کا یقین دلا رکھا ہے اور چین نے پاکستان کے اقدامات پر شکریہ و اطمنان کا بھی خوب اظہار کیا ہے ۔ چین اپنے طور سے یہ جاننے کی ہر ممکن کوشش کرے گا کہ مذکورہ فلم سے اس جرثومے کا کہیں کوئی تعلق تو نہیں ہے اور اگر انہیں کہیں سے کچھ ثبوت میسر آگئے تو پھر جوابی کارروائی میں امریکا کو اپنا منہ چھپانا پڑا ہے ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں