بے پردگی معاشرے کا بیگاڑ

سب سے بڑی نیکی کیا ہو سکتی ہے آج سمجھ آیا کہ اپنے شرسے دوسروں کو بچائیں۔ بظاہر یہ کوئی کام نظر نہیں آرہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شر شر ہے۔ یعنی اپنی ذات دوسروں کے لیے باعث تکلیف نہ ہو یا با لکل بے ضرر ہو جب ہی تو دوسرے آپ پر اعتماد کرینگے آپ کی موجودگی میں تحفظ محسوس کرینگے۔ ہم خود اپنی جان، مال عزت بچاکر ہی دوسروں کو تحفظ دے سکتے ہیں۔ ہم خود دوسروں کے لیے تماشا بن جائیں لوگوں کو بد اعمالی کا موقع دیں، حیا کا جنازہ نکال کربھی معصوم مطمئن رہیں کہ کچھ کیا ہی نہیں تو یہ بے غیرتی، بے حسی اور بے ایمانی ہے۔

پچھلے دنوں سات نمبر کے امتیاز جانے کا اتفاق ہوا میں تقریباً دس ماہ بعد گئی تھی۔اس سے پہلے میں نے صرف چھ سات امتیاز میں کام کرنے والی لڑکیوں کو فل میک اپ اورکچھ گھٹیا سے لباس میں دیکھا تھا۔ میک اپ کے اسٹال پر ایک فیشن گرلزکی مطلب سیل گرلز کی ٹیم آئی ہوئی تھی جو انتہائی مصنوعی آئوٹ ڈریس اور آف حلیوں میں میک اپ سے اتنی لدی پھندی تھیں کہ شایدلوگ خریداری کم اور تماشا زیادہ دیکھ رہے تھے۔ میں نے ان سے حکمت کے ساتھ کہا کہ ساتھیوں یہ کیا ہو رہا ہے؟ ایسے تو خواتین کی حرمت نہ کرو۔لباس کے تقاضے توپورے کرو تو بلا جھجک بولیں مجبوری ہے نوکری تو کرنی ہے!میں کیا کہتی ؟۔سوائے اس کے کہ بہن نوکری حلال محنت سے کمائی کا نام ہے اپنا آپ جائزہ لیں شر نہ پھیلائیںاللہ آپ کو راہ ہدایت عطا فرمائے ماشا اللہ آپ کافی سمجھدار اور ذہین ہیں سمجھ سکتی ہیں۔ اس میں سے ایک لڑکی نے کہا شکریہ باجی اور سب ایسے گھورنے لگے میں واپس آگئی۔

مگر مجھے خیال آتا رہا کہ کیسے ہیں میرے مرد حضرات؟ بھائی ،بیٹے، باپ، اور شوہر جو ان جواں سال لڑکیوں کو یوں بازاروں میں آنے کی اجا زت دیتے ہیں۔ بس وہی دین کی کمی اور ہر بندے کا شر۔ اللہ کی پناہ !بہر حال آج اس دعا کے ساتھ جارہی تھی کہ حالات سدھرگئے ہونگے ۔

مگر کیا کروں سیڑ ھیوں سے ہی مجھے مصنوعی اداکارائیں، فلمی ستاروں سے زیادہ میک اپ کو ہان جیسے بالوں پر معمولی اسکارف مزید حسن کے لئے باقی گہرے رنگوں کے موزے نما ٹرا ئوزر اور شرٹ زیب تن کیے نظر آنی شروع ہو گئی ایک نہیں دو نہیں جگہ جگہ یہی رنگین ٹیوب لائٹس دعوت حسن دے رہی تھیں۔ میں استغفار پڑھتی اپنی مطلوبہ چیز تین عدد موزے اور تین کھلونے لیکر کاونٹر پرگئی ۔ کچھ دوائیاں لیں جن کی پیمنٹ وہیںکردیں۔کائونٹر پر ایک موٹی سیدھی سادی لڑکی بلا میک اپ مناسب حلیے میں تھی، جس کا بنا عبائے کے بھی جسم کورڈ تھا۔ سلجھی ہوئی اخلاق سے پیش آئی ۔ مہذب شائستہ دھیمی آواز دیکھ کر دل خوش ہوا۔ اللہ اس کو مزید ہدایت عطا فرمائے ۔

وہ جو کہا ہے نہ کہ ایک عورت چار مردوں کو جہنم میں لے کر جائے گی۔ ناز نخرے اور بے حیائی دکھا کر مطلب اپنے باپ، بھائی بیٹے اور شوہر کو اس کے علاوہ ڈھیروں بد نظری کرنے والے خود بھی گنہگار ہوئے جبکہ محرک وہی فتنہ ٹھہری۔ بازار ہی کیا میں تو کہوں آپ کسی شادی کی تقریب میں چلے جائیں۔ہر طرف شر تو کیا شرارے ہی نظر آئیں گے کیسے بچائو گے دوزخ کاایندھن بننے اور بنانے سے؟

آج کل تو بازار میں بھی دوکان دار سبزی والے،اسپتالوں میں موجودعملہ عجیب عجیب طرح سے لوگوں کو تنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ لوفر زبان استعمال کرتے ہیں۔چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں رکھتے۔ بعض دفعہ تو بڑے بھی بہت ہی برا سلوک کرتے ہیں صحیح طرح گائیڈ بھی نہیں کرتے الٹا گرمی دکھا تے ہیں۔میں ابھی ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ قریب سے ایک ماں بیٹی گزریں جنہیں دیکھ کر میں حیران رہ گئی فل حجاب میں بچی بھی طریقے کے کپڑے پہنے ہوئے سمیٹ سمیٹ کر بچتی بچاتی کنارے کنارے جا رہی تھیں۔جن کو لوگ خود عزت سے راستہ دے رہے تھے ناکہ گھور گھور کر دیکھ رہے تھے ۔مجھے اتنا اچھا لگا واقعی مستورات قابل احترام جب ہی ہیں کہ اپنے شر سے دوسروں کو بچائیں ۔ کسی کو کوئی تکلیف نہ دیں یو ں ساری زندگی دوسروں کے لئے نفع بخش رہیں ۔ اپنی برائی سے دوسروں کو بچانا ہی تو سب سے بڑی نیکی ہے بلکہ صدقہ ہے اور اس کام کے لئے اپنی ذات کو ہی پہلے سامنے لائیے ۔

“تمہارا چہرہ ہر دم حجاب مانگتا ہے

ہر لمحے کا تم سے حساب مانگتا ہے ـ”

بالکل کوئی بات کرنے سے پہلے کسی کو طنز کرکے طعنہ دینے سے پہلے یا کسی سے شکوہ شکایت کرنے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس سے شر تو نہ ہوگا ، فساد تو نہ ہوگا ؟الفاظ کا ، انداز کا ، ٹون کا ہر لحا ظ سے خیال رکھا جا ئے ۔ بڑے چھوٹے موقع محل کا لحاظ رکھ کر بات کی جائے ۔

اس لئے آج ہمارے معاشرے کو جس چیز کی ضرورت سب سے زیادہ ہے وہ خود اپنے شر سے دوسروں کو بچانے ، گھروں کو سدھارنے اور امن پھیلانے انسانیت کو فروغ دینے کے لئے بہت زیادہ ضروری ہے ۔ یہ فسادات لڑائی جھگڑے ، گھریلو ناچاقیاں اور ان گنت طلاقیں ، رشتوں کی پامالی یہ سب شر کا نتیجہ ہے۔ ہر بندہ خود کو معصوم اور دو سرے کو فتنہ قر ار دیتا ہے کہ فلاں ہی نے شر ڈالا اس نے ہی شرارت کی ، وہی شریر تھا میں نے تو کچھ نہ کیا ۔ مومن تو مومن کا آئینہ ہے ۔ آئینے کی طرح اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ کر اپنی خامیاں دور کرتا رہتا ہے۔ آج میڈیا میں آنے والے زیادہ تر ٹاک شوز فساد اور شر پھیلانے والے ہوتے ہیں ۔ لوگوں کو بلاوجہ لڑوا کر گھروں میں شر پیدا کروادیتے ہیں۔ ہر چینل سے حکومت اور اپوزیشن مخالف پارٹیز کے لوگ وہ شر پھیلا تے ہیں جو نفرتوں کی آگ کو جنم دیتے ہیں گلے شکوے کرنے سے پہلے ایک دوسرے پر طعنہ مارنے سے پہلے ہی ہر شخص کو سوچنا چاہئے اور اپنے شر کی آگ سے بچانا چاہئے ماحول کو گرم کرنے کا موقع نہیں آنے دینا چاہئے ۔

“اپنے سینوں میں جو نفرت کو پنہاں رکھتے ہیں

جانے وہ لوگ محبت کو کہاں رکھتے ہیں”

شر ایک طرح کا فتنہ تو ہے اسی لئے اس سے پناہ مانگی گئی ، اولاد فتنہ ہے ، بڑھاپا فتنہ ہے ، دولت فتنہ ہے ۔ ان فتنوں کے شر سے بچنے کی ہر دم دعا اور کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہمارا رب کریم ہمیں اپنے عذاب سے ہمیشہ بچائے رکھے۔ آمین

جواب چھوڑ دیں