قصہ ایک کفن چور کا

پرانا قصہ ہے۔ کہتے ہیں کسی قبرستان کا کوئی گورکن تھا وہ لوگوں کے کفن چوری کیا کرتا تھا، جب انتقال کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور وصیت کی کہ؛ “بیٹا! دیکھ تیرے باپ نے ساری زندگی لوگوں کے کفن چوری کیے ہیں، میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد کوئی کام ضرور ایسا کرنا کہ لوگ تیرے باپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں”۔

 بیٹے نے باپ کی وصیت کو پلے باندھ لیا۔ باپ کے انتقال کے بعد بیٹے نے بھی کفن چوری کرنا شروع کر دیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اب وہ مردوں کی بے حرمتی بھی کرنے لگا، لوگ تنگ آگئے اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ “تجھ سے اچھا تو تیرا باپ تھا کم ازکم کفن ہی چوری کیا کرتا تھا مردوں کی بے حرمتی تو نہیں کرتا تھا”۔ اور اس طرح اس نے اپنے باپ کو اچھے الفاظ میں یاد کروا لیا۔

 آپ یقین کریں اس وقت پوری قوم کا یہی حال ہے۔ لوگ پچھلے کفن چور کو یاد کرکے دعائیں دے رہے ہیں کہ جیسا بھی تھا کم از کم مردے ضرور اس کی بے حرمتی سے بچے ہوئے تھے۔ آپ المیہ ملاحظہ کریں حکومت ٹیکس ریکوری میں  بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ 400 سرکاری ادارے نجکاری کی طرف جارہے ہیں، حکومت سے حکومت چل نہیں رہی ہے ادارے کیا خاک چلیں گے۔ وزیر ریلوے کو ریل کے علاوہ، وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ اور کابینہ میں موجود ہر شخص کو اپنے کاموں اور وزارتوں کے علاوہ سارے جہان کی خبر اور فکر ہے۔

پچھلے پندرہ مہینوں میں وزیراعظم کے پاس سوائے تقریروں کے اور کوئی بھی دوسری “اچیومنٹ “نہیں ہے۔ حکومت کے ابتدائی دنوں میں ان کو یہ احساس ہوا تھا کہ شاید وہ کنٹینر سے اتر کر اب واقعی وزیراعظم پاکستان بن گئے ہیں لیکن پچھلے پندرہ مہینوں میں یہ احساس جاتا رہا ہے اور اب وہ خود کو دوبارہ کنٹینر پر ہی محسوس کررہے ہیں، ان کو یہ بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ “سنجیدہ تقریر” کرنے اور “سنجیدہ کام” کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس لیے انہوں نے اب دوبارہ سے اپنا پرانا محاذ سنبھال لیا ہے۔ تقریروں میں وہی “لچرپن، چھچورپن، بے ہودگی اور بدگوئی” کے علاوہ کوئی دوسری بات موجود نہیں ہوتی۔ اگر واقعی تقریروں سے کچھ ہو سکتا تو یقین کریں کراچی کب کا “جناح پور” بن چکا ہوتا یا کم ازکم علیحدہ صوبہ ضرور بن گیا ہوتا۔ مہاجروں کو الگ شناخت مل چکی ہوتی، بہاری واپس آ چکے ہوتے اور کوٹہ سسٹم کب  کا ختم ہوچکا ہوتا۔

 آپ  ظلم کی انتہا دیکھئے۔ حکومت غریب آدمی، تنخواہ دار ملازم اور ٹیکس دینے والوں پر ہی ٹیکس بڑھائے چلی جارہی ہے۔ سی – ڈی 70چلانے والے اور ستر پچھتر لاکھ کی گاڑی رکھنے والے پیٹرول پر ایک ہی ٹیکس دے رہے ہیں، 60  گز کے مکان میں رہنے والے اور 600 گز کے بنگلے میں عیاشی کرنے والا بجلی پر ایک جیسا ٹیکس دے رہا ہے  اورمساجد تک بجلی کے بلوں میں ٹی وی کا ٹیکس بھرنے پر مجبور ہیں۔

ہندوستان چھوٹے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، ان کے لئے راستے آسان کر رہا ہے، ٹیکس میں چھوٹ دے رہا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان کم سرمایہ اور زیادہ مواقعوں کے ساتھ کاروبار کر سکیں۔ نریندرمودی مسلسل اپنے نوجوانوں کو جاب فائنڈر سے زیادہ جاب کریٹر بننے پر راغب کر رہا ہے اور ہم ٹیکس پر ٹیکس لگا کر کاروبار کرنے والوں اور نوکریاں فراہم کرنے والوں پر زمین تنگ کیے دے رہے ہیں۔

 کراچی پہلے ہی 30 ارب سے زیادہ کا ریونیو جنریٹ کر کے قومی حکومت کو بھجوا رہا ہے۔ اسلام آباد، لاہور، پشاور اور کوئٹہ ملاکر کراچی کا آدھا  ریونیو  تک  جنریٹ کرنے سے قاصر ہیں لیکن “وزیراعظم کراچی سے” کا نعرہ لگانے والوں  کے پاس کراچی کے لیے دو منٹ بھی نہیں ہیں۔

 بیوروکریسی کام کرنا چھوڑ چکی ہے۔ آج سے پندرہ مہینے پہلے جو کام جہاں رکا تھا آج تک وہیں رکا  ہوا  ہے۔  7دسمبر کو  الیکشن کمشنر کی مدت پوری ہونے والی اور حکومت کے پاس کوئی دوسرا نام تک موجود نہیں ہے، ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا “چیف جسٹس” وزیراعظم کو مخاطب کرکے ان کو ان کی “اداؤں” پر غور کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔

کم ظرف کے ہاتھوں میں “جام” آگیا ہے۔ اعلی ظرف تو خیر پہلے والے بھی نہیں تھے لیکن غرور، تکبر، بےحسی، غیر سنجیدگی اور اس پر ڈھٹائی اور بے شرمی بہرحال ان میں کم تھی۔

 شاید اسی لیے اللہ تعالی کو امیر شیخی بگھارنے والے سے زیادہ فقیر شیخی بگھارنے والا ناپسند ہے۔ مفہوم حدیث ہے کہ “اللہ کسی جھوٹے، متکبر اور شیخی بگھارنے والے انسان کو پسند نہیں کرتا”۔

 جب ہم چھوٹے تھے تو بے بس ہو کر دوسروں کی نقل اتارا کرتے تھے۔ ان کو چڑانے کا یہی واحد طریقہ تھا۔ ہم کر کچھ سکتے نہیں تھے۔ بے بس، لاچار اور مجبور تھے اس لئیے دل کی بھڑاس نکالنے کا یہی ایک راستہ تھا اور مجھے وہ بچپن والی جھلک اپنے وزیراعظم صاحب  میں نظر آ رہی ہے۔ ان کی بے بسی، بے اختیاری اور لاچاری کا اظہار ان کی تقریروں سے ہونے لگا ہے۔ ویسے بھی جو شخص بائیس سالوں میں 22 مخلص،دیانتدار اور قابل لوگ جمع نہ کر سکا، 5 سال صوبائی حکومت رکھ کر بھی اگلے پانچ سال کی پلاننگ کرنے اوررکھنے کا ہنر نہ جانتا ہو اس کے  پاس سوائے تقریروں کے “سرمائے” کے اور دوسری چیز بھلا ہوگی بھی تو کیا؟

 دھرنے کا ٹریلر دیکھ کر حکومت اور اس کے حواریوں کو یہ اندازہ بھی ضرور ہو گیا ہوگا کہ یہ ملک سیکولر، لبرل اور اسلامسٹ وغیرہ کا نہیں بلکہ  طاقت کا ہے۔ “اوپر” والے جب تھوڑی سی “نظر کرم” کرتے ہیں اور میڈیا کی ذراسی “اسپاٹ لائٹ” کسی کو بھی “لائم لائٹ” میں لے آتی ہے تو پورا ملک اسی کے لئے نعرے اور تالیاں بجانا شروع ہوجاتا ہے اور پھر “جب آئے گا عمران” کے بجائے “مولانا آگئے” کی دھوم اور شور مچنا شروع ہوجاتا ہے۔

 اللہ نے آپ کو وقت دیاہے، موقع دیا ہے اور سب سے بڑی بات آپ دو تہائی اکثریت نہ رکھ کر بھی اس سے زیادہ طاقت رکھنے والی پارٹی ہیں۔ آپ یقین کریں خان صاحب اگر اپنے کیے ہوئے وعدوں کا صرف 10 فیصد بھی پورا کرتے ہیں تو شاید عوام کے اندر خاموش ہوتی امیدیں دوبارہ جی اٹھیں لیکن مجھ سمیت سینکڑوں نوجوانوں، بزرگوں، عورتوں اور بچوں کی آخری امید اتنی بودی اور کمزور نکلے گی اس کا بہرحال مجھے اندازہ نہیں تھا۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں