سب کچھ دکھتا ہے

 

جی ہاں یہ کوئی اشتہار کا جملہ نہیں بلکہ بامقصد بات ہے اس کا مقصد ہے صاف شفاف نظر آنا سب کو جب ہم روڈوںپر سے گاڑیوں میں یا پیدل سفر کر رہے ہوتے ہیں تو اوور ہیڈ برجز بھی ہمیں دور سے ہی نظر آنے لگتے ہیں ۔ ابھی بعض جگہ نئے نئے بنیں ہیں لہٰذا گرلز سے نظر آجاتا ہے کہ کتنے لوگ گزر رہے ہیں ۔ اگر ان گرلز یا باڑوں پر مختلف طرح کے بے ہودہ ایڈز یا اشتہارات لگا دیئے جائیں بڑے بڑے کپڑے کے پردے اور ان پر عورتوں کی تصاویر یا کوئی بھی اشتہار لگا ہو تو تھوڑے سے فا ئدے کیلئے نہ صرف نظارے خراب ہو تے ہیں بلکہ آر پار نظر آنے والے مناظر اوجھل ہوجاتے ہیں ۔ ویسے بھی پلوں پر دس قدم پر وزن کی مشینیں لئے کمانے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اس سے کہیں زیادہ مرد عورتیں ہاتھ پھیلائے چادر بچھا کر چند سکے رکھ کر بھیک مانگنے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ کچھ زخمی اور کچھ سوتے بیمار مردہ نما بچوں کے ساتھ اللہ معاف کرے ۔ اتنے بیمار بچوں کو لیکر مستقل گھنٹوں کوئی کیسے بیٹھ سکتا ہے ؟ اصل والدین تو اپنے بچوں کو یوں تکلیف نہیں دے سکتے پھر یہ کیسے ؟ پبلک کو نظر آجاتا ہے کہ اندر کوئی ناخوشگوار واقعہ تو نہیں ہورہا ؟ واردات کرنے والوں کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام دیکھ رہی ہے۔ورنہ اگر ان اوور ہیڈ برجز کو اشتہارات سے ڈھانک کر بند گلی کی شکل دے دی جائے ۔تو چنددنوں میں وہ گندے میلے ہو کر پھٹ پھٹا کر نہ صرف بد نما لگتے ہیں۔ بلکہ اندرونی وارداتوںکا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فتنوں کے اس دور میں پلوں کو کراس کرنا بھی ایک مسئلہ لگتا ہے خاص کربچوں اور ضعیف لوگوں کیلئے جوہانپتے کانپتے اوپر چڑھتے ہیں۔ ایسے میں ان سے کوئی بدتمیزی کر کے کچھ چھین لے تو تحفظ مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ان پر بھی خصوصی سی ۔سی ۔ٹی۔وی کیمرے لگائے جائیں اور فوری ردعمل کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جتنی بلند وبالا عمارات بن رہی ہیں۔اُن پر اتنے بڑے بل بورڈ یا بے حیا ئی کو پھیلانے کے لئے لوفر قسم کے ایڈ ز لگانے کی قطعی ضرورت نہیں میڈیا کی بے حیائی سرے عام عورتوں کی بے تُکے انداز میں رونمائی قابل مذمت اور نا جائز ہے۔ اس کے بجا ئے سڑکوں کے کنارے اور منا سب جگہوںپراللہ کے مقدس نام اور مختصر احکامات الہیٰ اور احادیث واضح لگانا چاہیے۔ تا کہ ہر لمحے انسان کو اُس کا مقصد حیات اور انکی ذمہ داری یاد رہے نہ کہ دنیا پر ہی مر مٹے ۔ دئیے سے دیا جلائیں محبت ، محنت اور خلوص ، انسانیت کو فروغ دینے والی چیزیں ، اچھے نظارے قلبی ، سکون اور سرور کا باعث ہوتے ہیں ۔ جگہ جگہ چرسی موالی ، بندے ہر جانب بھیک مانگتے لوگ، کچرا ،کوڑا ، پان کی پیکیں ، صفائی ستھرائی سے بے بہرہ کب تک رہیں گے ؟ ہمارے ہاتھ ، پائوں ، آنکھیں اور دل رب کو کیا گوا ہی دینگے ؟ دعا تو ہم سب یہی مانگتے ہیں نہ کہ برے نظاروں ، بری آوازوں اور برے لوگوں سے اللہ ہمیں دور رکھے ۔ تو پھر ہمارا عمل اسکا تضا د کیوں؟

مسجدوں کے باہر مانگنے والیاں ، ہوٹلوں اوراسپتالوں کے باہر مانگنے والیاں ، ہر کسی کو تاکتے پیچھے پیچھے آنے تنگ کرنے ، یہاں تک کہ ہو ٹلوں سے نکلنے والے یا خریداری کرنے والے لوگوں کو بھی اتنا یہ لوگ تنگ کرتے ہیں کہ کیا بتا ئیں ۔ اوپر سے خواجہ سرا رکشو، چنگ چیوں میں منہ ڈال کر مانگتے ہیں یہ تمام مناظر سب کو نظر آتے ہیں سب کچھ دکھتا ہے مگر کوئی کچھ کرتا نہیں ۔ اسی لئے جگہ جگہ پر جب رب کے احکامات چند لفظوں پر مشتمل واضح طور پر لگے ہونگے ۔ سڑکوں کے کنارے بیوٹی پارلرز اور دلہنوں کے بجائے انسانیت اور ذمہ داریوں سے متعلق ہدایات اور احادیث لکھی ہونگی تو آنکھوں کے ذریعے خاموش پیغام دلوں میں اتر ے گا ۔ صفائی ستھرائی اور راستے کے آداب کے متعلق نہ صرف ہدایات چسپاں کریں بلکہ ان پر ادارے سختی سے عمل پیرا ہوں تو یقین جانئے ضرور عوام میں مثبت شعور پیدا ہو گا ۔ روزانہ راستوں میں رہنمائی لینے کا فائدہ ہو گا ۔ ان کی روحانی تر بیت ہوگی تو اخلاقیات خود بخود سدھرنے لگیں گی اور سمجھ آجائے گا کہ معاشرے میں کیا غلط ہورہا ہے ؟ اللہ ہی ہدایت دے ان مرد حضرات کو جو اپنی سستی اور کاہلی ، دین سے دوری کی بنا پر جرا ئم کو فروغ دیتے جا رہے ہیں اور لیکن جو لوگ تھوڑا بہت علم رکھتے ہیں وہ انہیں روکنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔حکومتی ادارے اتنے فعال نہیں اتنے متحرک نہیں جتنا ہونا چاہئے ۔

حیدری کی سڑکوں کو دیکھئے پہلے دکانیں پھر تجاوزات جو کہ پودے رکھ کر یا معمولی سا کوئی درخت لگا کر ملکیت بنا لیا گیا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی موٹر سائیکلوں کی باقاعدہ لائنیں دو دو، تین تین ، رکشہ گاڑیاں موٹر سائیکلیں توفٹ پاتھ تک چڑھی ہو ئی نظر آتی ہے۔

جواب چھوڑ دیں