سیاسی تحریک کا مذہبی رنگ  

   تحریر؛مرادعلی شاہدؔدوحہ قطر

ابن رشد نے کہا تھا کہ”اگر تم جاہلوں پر حکومت کرنا چاہتے ہو تو مذہب کا لبادہ اوڑھ لو“ دنیا کی سیاسی تحاریک کا اگر بنظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی تحریکیں ایسی ہیں جن کے آغاز کا منشور،نصب العین اور مقصد کچھ اور تھا مگر اسباب ایسے بنتے ہیں تحریک کا منطقی انجام وہ نہیں ہوتا جس کو مطمع نظر بنا کر سفر کا آغاز کیا جاتا رہا ہے،اگر بات کی جائے باستیل انقلاب کی تو یہ چند دوست قیدیوں نے جیل اصلاحات کے لئے ایک شعوری تحریک چلائی تھی جو بڑھتے بڑھتے ایک انقلاب کی صورت اختیار کر گئی،ایسے ہی اگر ”ٹی انقلاب“کی بات کی جائے تو اس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ انگلینڈ سے درآمد چائے کا استعمال نہیں کیا جائے گا،بندرگاہ پر کھڑے دو جہازوں میں بھری چائے کو چند دوستوں نے مل کر ضائع کردیا اور اس سے یہ تحریک چلتے چلتے ایک انقلاب کی داعی بن کر ابھری اور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

پاکستان میں بھی ایسا کئی بار ہو چکا ہے تاہم 1977 کے انتخابات کے نتائج کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے بھٹو کے خلاف قومی اتحاد بنایا جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں ہونے والے انتخابات دھاندلی زدہ ہیں لہذا نئے انتخابات کرائے جائیں،چند علاقوں میں ذوالفقارعلی بھٹو دوبارہ الیکشن کروانے کے لئے رضامند بھی ہو گئے لیکن اس وقت تک یہ تحریک سیاسی سے مذہبی رنگ اختیار کر چکی تھی اور اس تحریک کا نام تحریک نظام نفاذ مصطفی رکھ دیا گیا تھا یونہی اس سیاسی تحریک  نے مذہبی رنگ اختیار کیا ہر روز علی الصبح ایک نعرہ کے ساتھ عوام سڑکوں پر آجاتے کہ لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی،نہیں چلے گی،دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے پاکستان کی گلی کوچوں،قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پاکستان کے کچھ علاقوں میں فوج کو طلب کر لیا گیا،اور جزوی طور پر ملک ایک بار پھر مارشل لا کے نرغے میں آگیا،گویا ایک سیاسی تحریک جس کا آغاز ملک میں ہونے والے دھاندلی شدہ الیکشن سے ہوا،اس تحریک نے مذہبی رنگ اپنایا اور اس کا اختتام مارشل لا پر ہوا۔مارشل لا کے نفاذ سے ملک میں موجود مذہبی جماعتوں کے چراغ سے تیل کم ضرور ہوا لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوا جس کی بنا پر ان چراغوں میں روشنی باقی رہی۔

الیکشن 2002 میں مذہبی جماعتوں نے مل کر ایک سیاسی جماعت بنائی جس کا نام متحدہ مجلس عمل رکھا گیا،اس اتحاد کے بنانے میں کون سی طاقتیں کارفرما تھیں یہ ایک الگ موضوع ہے تاہم اس اتحاد نے کے پی کے اور بلوچستان میں اپنی حکومت بنائی،بلاشبہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مذہبی جماعتوں کے عروج کا زمانہ تھا۔کیونکہ اس سے قبل کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ایسے افراد جو مذہبی سیاستدان ہوں انہیں مکمل اقتدار نہیں ملا۔آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف کو بھی ان کی ضرورت تھی،شائد اسی لئے ان کو بنایا گیا اور زمام اقتدار بھی دیا گیا۔پھر اس کے بعد ان چراغوں میں روشنی نہ رہی۔حالیہ سیاسی صورت حال کا اگر ہم جائزہ لیں تومولانا فضل الرحمن واحد مذہبی سیاستدان ہیں جو حکومت وقت کے خلاف سڑکوں پر آنے یعنی آزادی مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کی وارننگ دینے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر اپنی مکمل رضاکارانہ فوج اور مدارس کے طلبا کے ساتھ 27اکتوبر کو اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے کو تیار ہیں۔اب جبکہ صرف مولانا کے پاس سٹریٹ پاور نظر آ رہی ہے تو دیگر بڑی سیاسی جماعتیں مولانا کے مارچ پروگرام کی تائید میں تو ہیں تاہم دھرنے میں ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں،کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر دھرنا کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کامیابی کا سہرا کس کے سر سجے گا۔خیال دیگر دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی کے پاس ابھی وہ عوامی طاقت بھی نہیں ہے جو کہ بھٹو اور نواز شریف کے ابتدائی دور میں ہوا کرتی تھی۔

آخر کیا وجہ ہے کہ مذہب کے نام پر حاصل کردہ ملک میں مذہبی جماعتیں یا مسلمان علما عوامی مقبولیت کیوں حاصل نہ کر سکے اور اگر عوامی شہرت کسی کو ملی بھی تو وہ باوجودیکہ اقتدار میں نہ آ سکے۔میرے علم اور تجربہ کے مطابق شائد ملک میں مذہبی جماعتوں کا وجود تو ہے مگر عملا مذہبی فرائض کی ادائیگی مفقود ہے،علما کی ایک کثیر تعداد ہر مکتبہ فکر کی موجود تو ہے مگر مذہبی فکر نہیں،تنظیم سازی تو ہے مگر منظم نہیں،مذہبی سیاسی افراد میں شائد تعلیم،تربیت اور تبلیغ میں اخلاص کا بھی فقدان نظر آتا ہے،اسی لئے شائد انہیں ووٹ ملیں نا ملیں سڑکیں کھلی ملتی ہیں،امداد کی بھی بھرمار ااور مدارس کے طلبا کا ایک ہجوم اور ان کا صرف سیاسی استعمال ان تمام جماعتوں کو ایک مذہبی سیاسی جماعت کی بجائے بطور ایک پریشر گروپ کے طور پر ڈیل کیا جاتا ہے اور حقیقت ہے بھی یہی کہ اب باقاعدہ مذہبی جماعتیں مذہب کی خدمت سرانجام دینے کی بجائے پریشر گروپ کا کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔گویا ان مذہبی جماعتوں نے بھی اپنے مقاصد سے کنارہ کشی اختیار کر لی جس کی وجہ سے آج عوام کا ان سے اعتبار اور اعتماد مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔یہ کھویا ہوا اعتبار واپس اسی صورت میں آسکتا ہے اگر سیاسی اقتدار کے حصول سے دستبردار ہو کر خالصتا مذہبی رنگ اختیار کر لیا جائے،جو موجودہ سیاسی صورت حال میں نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ مولانا صاحب اب منہ میں چھپکلی ڈال بیٹھے ہیں جنہیں نا کھایا جاسکتا ہے اور نہ ہی پھینکا جا سکتا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں