کاری گر کی ضرب

حضرت بلال ؓ  قریش کے ایک نامور سردار امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ انکا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نےشروع میں اسلام قبول کیا۔اور پھر ایک سخت آزمائس سے دوچار ہوئے۔ صحرائے عرب کی تپتی ریت روزانہ کی بنیاد پر ان کی میزبان تھی، عشق نبی سے بھر پور سینے پر بھاری بھرکم پتھرکا وزن اس آزمائش کی بھٹی میں حضرت بلال ؓ کوکندن بناتا تھا اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی رات ’احد، احد‘ کے سبق کو پختہ ترکرتی چلی جاتی تھی۔کوڑے مارنے والے تھک جاتے اور باریاں بدل لیتے تھے،کبھی امیہ بن خلف اور ابوجہل اور پھرکوئی اور لیکن حضرت بلال ؓ کی پشت سے دروں کی آشنائی دم توڑنے والے نہ تھی، کچھ لوگ ان سے کہتے۔

“اے بلال اس آزمائس کو کم کرنے کے لیے تم زبان سے کہ دو کہ میں اسلام سے ہٹ گیا۔ تمہارا دل تو اللہ جانتا ہے۔”

بلال رضی اللہ عنہ نے کہا۔

“نہیں۔ جس طرح ایک کاری گر اپنے مٹی کے برتنوں کو بنانے سے پہلے اسے مار مار کر چیک کرتا ہے کہ کہیں یہ کمزور تو نہیں، بیکار تو نہیں اسی طرح میرا اللہ مجھے چیک کررہا ہے کہ کہیں بلال بیکار تو نہیں۔”

میں نہیں جانتی کے مائیک تھامے وہ لڑکی کون تھی۔ لیکن اس کی باتیں ۔۔۔ میں چاہ کر بھی اپنے آنسوؤں کو نہیں روک پارہی تھی۔

گھر سے نکلتے وقت کتنے ہی ایسے خیالات تھے جو مجھے تکلیف دے رہے تھے۔

ہر انسان کے اپنے دکھ ، اپنی پریشانی ۔۔۔ لیکن کون جانتا کہ کسے اللہ پرکھ رہا ہے۔

وہ مزید کہ رہی تھی۔

” رسول اللہ ﷺ ان تمام مظالم سے آگاہ تھے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو فرمایا کیا کوئی ایسا نہیں جو بلال کو خرید کر آزاد کر دے؟ حضرت ابو بکر امیہ بن خلف کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ بلال کو کتنے میں بیچو گے؟ اس نے سونے کےدس سکوں کا مطالبہ کیا، حضرت ابو بکر رضی اللہ گھر آئے اور سونے کے دس سکے لے کر امیہ کو دئیے جس پر امیہ ہنس پڑا اور کہنے لگا، خدا کی قسم اگر آج تم ضد کرتے تو میں بلال کو سونے کے ایک سکے کے بدلے فروخت کر دیتا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ نے فرمایا، اگر آج تم ضد کرتے اور مجھ سے بلال کے بدلے سونے کے سو سکے بھی مانگتے تو میں وہ دیکر بھی بلال کو آزاد کر دیتا۔ حضرت بلال کو آزاد کرنے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ کہتے تھے بلال میرے آقا ہیں۔رسول اللہ ﷺ کی ہر مہم ہر غزوہ میں حضرت بلال آپﷺ کے ساتھ رہے، آپ رضی اللہ ان سات صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔ حضرت بلال ہمیشہ بات کرتے ہوئے یہی کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے وہ فرمایا، ان سے کوئی اور بات کی جاتی تو کچھ دیر وہ بات کرتے مگر پھر یہی کہتے نظر آتے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے وہ فرمایا۔ آپﷺ فرماتے تھے، بلال کوئی بھی بات مجھ سے منسوب کر کے کہیں تو اس کے بارے میں کسی شک میں مت پڑنا۔حضرت بلال ان اصحاب میں سے ہیں جن کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی اور یہ ایک وجہ ہی کافی تھی کہ لوگ ان کی بے پناہ عزت کرتے، ان کی تعریف کرتے اور جب ایسا ہوتا، حضرت بلال اپنے سر کو جھکا لیتے، جاننے والے جانتے تھے کہ ان کی تعریف کی جارہی ہے لیکن سر جھکا کر حضرت بلال کی آنکھوں سے اشک جاری ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے میں تمہیں بتاؤں میں کیا ہوں؟ میں ایک حبشی ہوں اور میں ایک غلام تھا اور ایک غلام ہوں، اللہ کا غلام۔”

پروگرام کب ختم ہوا ۔ خبر نہیں بس سارے راستے واپسی پر میں یہی سوچتی رہی کہ “کیا ہمارے اندر اتنا سا بھی حوصلہ نہیں کہ ہم کاری گر کی ضرب پر آہ کے بجائے صبر کرلیں ۔۔؟؟؟ کیا پتا کہ کس کا صبر اسے کس بلندی پر لے جائے ۔”

جواب چھوڑ دیں