ثالثی مگر کیوں؟

گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے دوران  جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مختلف ممالک کے سربراہان نے جن چند اہم نکات کی طرف عالم اقوام کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ان میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تغیرات، مسائل، گلوبل وارمنگ اور امن وامان شامل تھا کیونکہ جنگ اورکشیدگی کی صورت حال میں اقوام کبھی ترقی کی شاہراہ  پر گامزن نہیں ہو سکتیں۔ اقوام متحدہ میں ان نکات کی طرف اشارہ کرنا دراصل اس بات کی وضاحت تھی کہ دنیا کے امن وامان کو اس وقت خطرات لاحق ہیں۔خصوصا مسلم امہ کے ممالک امن وامان کی خطرناک صورت حال اور سیاسی تناؤ کے ساتھ حالت جنگ  کا شکار ہیں۔عالم اسلام کی اس وقت سیاسی، معاشی اور جنگی صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ ایک طرف ترکی اور شام میں بڑھتا ہوا تناؤ ہے تو دوسری جانب جنوبی ایشیا میں دوبڑی ایٹمی طاقتیں پاکستان اور انڈیا آمنے سامنے لڑنے اور مرنے کو تیار ہیں۔کشمیر پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان پوری دنیا کے سامنے ہے،سعودی عرب اور ایران مشرق وسطیٰ کے دو بڑے ممالک ہیں ان دو میں تعلقات عرصہ دراز سے کشیدہ چلے آرہے ہیں۔اور دونوں ممالک ہی اپنی جغرافیائی وسعت، سیاسی پس منظر اور اسلحہ کے وسیع ذخائر کی بنا پر خطے میں برتری اور بالادستی کے خواہاں ہیں۔ایران اور سعودی عرب کے تناؤ اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پاکستان ان دو ممالک کے درمیان تعلقات کی خوشگواری کے لیے ثالثی کا کردار اداکرنے کو تیار ہے۔ وہ اس لیے کہ پاکستان کی دونوں اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت دوستانہ ، برادرانہ اور مذہبی بنیادوں پر استوار اور مضبوط ہے۔نہ ایران کے ساتھ پاکستان کی کسی سیاسی ، معاشی مسئلہ پر ناراضگی اور کشیدگی ہے اور نہ ہی سعودی عرب کے ساتھ کسی قسم کا تناؤ ہے۔دونوں ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے بہ رضا و رغبت اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور اسی سلسلہ میں وہ آج کل ایران اور سعودی عرب کے دوروں پر ہیں۔

علاوہ ازیں عراقی وزیراعظم عبدالمہدی بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کے لیے کوشاں ہیں ۔عبدالمہدی ریاض کے دورہ کے بعد تہران کے دورہ کا بھی ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان اور ایرانی صدر حسن روحانی کے درمیان بغداد میں ایک ملاقات کا بندبست کیا جائے۔اس لیے کہ ایران کے صدر حسن روحانی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تقریر میں ان خیالات کا اظہار کر چکے ہیں کہ خلیجی ممالک میں امن صرف اور صرف بات چیت سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے دونوں اسلامی ممالک کے درمیان بڑھتے تناؤ میں اپنے آپ کو ثالثی کے لیے کیوں پیش کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں دونوں ممالک کے ساتھ پاکستان کے تاریخی حقائق اور تعلقات کی نوعیت کو بھی ذہن میں رکھنا ہے۔ایران اور پاکستان کے درمیان 900کلومیٹر  طویل سرحدہے،دونوں اسلامی ملک ہونے کی نسبت سے برادرانہ اور اچھے تعلقات رکھتے ہیں،پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان ایک معاہدہ جسے  RCD کہا جاتا ہے طے پایا تھا جس کا دائرہ کار بڑھا کر اب اس کا نامECO رکھ دیا گیا ہے۔ایران کی سرحد، افغانستان سے جب کہ  افغانستان سنٹرل ایشیا اور روس کا ہمسایہ ہے۔اس جیو سٹریٹجک ، جغرافیائی زمینی حقائق، برادرانہ و سیاسی تعلقات اور ہمسائیگی کو مدنظر رکھتے ہوئے، اور خطہ میں تمام ممالک کی سیاسی و معاشی اہمیت کے پیش نظر کچھ روز قبل ہی پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنا موقف ان الفاظ میں پیش کیا تھا کہ،ایران پاکستان افغانستان روس اور چین ایک دوسرے کے ساتھ سرحدیں ملنے کی وجہ سے اٹوٹ رشتہ میں بندھے ہوئے ہیں اور یہ ہماری خارجہ پالیسی کے اصولوں میں سے ایک اصول بھی ہے۔ اس لیے خطہ میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے ہم تمام ممالک کو اپنے تعلقات مضبوط اور مستحکم رکھنے چاہئے ۔

اسی طرح سعودی عرب کے ساتھ تعلقات صرف سیاسی نوعیت کے ہی نہیں ہیں بلکہ مذہبی اور عوامی مضبوطی پر استوار ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے سے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور پھر سعودی عرب نے پاکستان کو مشکلات میں کبھی تنہا نہیں چھوڑا ہے بلکہ پاکستان کی مشکلات کے حل میں معاونت کے لیے آنکھیں بند کر کے مدد کو ہمہ وقت تیار رہا ہے۔محمد بن سلمان کا حالیہ دورہ پاکستان اور بیس ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے معاہدات پر دستخط پاکستان اور سعودی عرب کی لازوال دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ایسی صورت حال میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی اور تناؤ میں پاکستان کا اپنے آپ کو بطور ثالث پیش کرنا حق دوستی ادا کرنے کے مترادف ہے ، وزیر اعظم عمران خان یہ کردار اس لیے ادا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس عمل سے خطہ کا امن،سیاسی استحکام، بے روزگاری کا خاتمہ اور جنگی صورت حال میں کمی واقع ہو سکتی ہے، کیونکہ جنگیں مسائل کا حل نہیں بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتی ہیں، جنگ یا جنگی ماحول اور تناؤ اقوام کو معاشی اور سیاسی لحاط سے کمزور کر دیتی ہیں۔اس لیے وزیراعظم چاہتے ہیں کہ تناؤ  کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کیا جائے تاکہ امن وامان کی صورت اور فضا قائم ہو سکے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں