پی ٹی آئی کی کنٹینر والی حکومت بہتر تھی

پاکستان بے پناہ قیمتی جانوں کے نذرانے کے بعد حاصل ہونے والا ایک ایساملک ہے جس پررب کائنات کا جتنا شکربجالائیں کم ہے۔ اللہ رب العزت نے پاکستان کو ایسی خاص خاص قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے جس کاعام پاکستانی تصور بھی نہیں کرسکتا۔پاکستان میں گرم پانی کا سمندر ہے جس کاحدودرقبہ 803,940اسکوائر کلومیٹر (310,403اسکوائر میل) 1875کلو میٹر (1165میل) کوسٹل لائن پر محیط ہے۔ سندھ میں یہ کراچی اورٹھٹھہ کی ساحلی پٹی اوربلوچستان میں گوادر کی ساحلی پٹی سے ملتا ہے۔سمندری بندرگاہیں اورگزرگاہیں پاکستان کی دفاعی لائن بھی کہلاتی ہیں۔دھاتی معدنیات کی بات کریں تو پاکستان ایلومینیم،کحل،زرنیخ،کرومائٹ،کوئلہ،تانبا،ڈولومیٹ (جسے عام زبان میں موتی بلوربھی کہاجاتا ہے)،سونا،خام لوہا،پیتل،آتشی مٹی،فلورائٹ،شیشہ بالو،لعل،گرینائٹ،گریفائٹ،جپسم،سیسہ، میگنیسائٹ، مینگنیز،ٹنگسٹن،خارصین اورباریٹ پر مشتمل ہے،جب کہ غیر دھاتی میں اسبسٹاس،کھاراپانی،کیلسائٹ،کاؤلینائٹ،لگنائٹ،لائمنائٹ،چونے کا پتھر،سنگ مرمر،ابرق،فاسفورائٹ، پوٹاش، چقہاق، تابکار معدنیات، پہاڑی نمک،ریت،سنگ صابون،گندھک اورسنگ دودی ہمارے ملک کو اللہ کی طرف سے تحفے میں ملے ہیں۔ سنگ جواہر میں زبرجد،نیلگو زبرجد،گلابی زبرجد،پکھراج،یاقوت،زمرد، بیسٹانسٹٹ،زینوٹائم،ٹیٹانائٹ،ترملین،صوان،اپیڈوٹ،کورینڈم،ٹائٹانائٹ،کلنوزویسائٹ،لعل،اسکاپولائٹ،زرکون،روٹائل صوان،آلووائل ڈائیوپسائڈ،پولو سائٹ،اپاٹائٹ،اسپانئل، پرگاسائٹ، زویسائٹ، یاقوت ارغوانی،شیلائٹ،سنگ لاجورد،برکائٹ،ایناٹیز،مرمرسبز،ایزورائٹ،اوبیسڈین،فلورائٹ،اراگونائٹ وغیرہ بھی رب کی طرف سے بے حد قیمتی تحفوں میں شامل ہیں۔
پاکستان کاشمار ان معدنیات اورگرم پانی کے باعث جہاں خوش قسمت ملکوں میں ہوتا ہے وہیں اس کے حکمرانوں کی بات کریں تو اس ملک کی بدقسمتی ایسی کہ اس کا شمار سوڈان اورصومالیہ جیسے ملکوں میں کیاجاتا ہے۔ وطن عزیز کو رب نے اپنی خاص نعمتوں سے تو نواز دیا مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم آج بھی اچھے برے کی تمیز کرنے کے قابل نہ بن سکے۔ کرپشن نے جہاں اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹا ہے وہیں احتساب کرنے والوں نے بھی اس ملک کی رہی سہی کسر پوری کررکھی ہے۔ ہرانتخابات کے دوران سیاسی ٹولہ قوم کے سامنے جھوٹے وعدوں اوردلائل کاکشکول لیے ووٹ کی بھیک مانگنے پہنچ جاتا ہے۔ پاکستان میں اسے بے شک جمہوریت،سیاسی مفادات یا کچھ بھی کہیں،تاہم مہذب دنیا میں اسے(کرپٹ پیپلز) کے طورپر جانا جاتا ہے۔ سیاسیات میں جو طالب علموں کو پڑھایا جاتا ہے حقیقی زندگی میں اس کا الٹ ہی سامنے آیا ہے۔ موجودہ سیاست،سیاہ ست سے تعبیر کی جائے تو کوئی شک نہ ہو۔
ہمارے وعدہ خلافی اورجھوٹی ڈگری یافتہ سیاستدان حضرت عمر ؓ کے دور کی بات تو اس طرح کرتے ہیں جیسے اس مدینہ کی ریاست میں اور آج کی پاکستانی ریاست میں کوئی فرق نہیں۔ ہم اکثر بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ پہلے جو لوگ جھوٹ بولا کرتے تھے وہ مرجایا کرتے تھے،لیکن آج لوگ جھوٹ بولتے ہیں تو انہیں پیناڈول کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارے اندر جھوٹ نے اپنی جگہ اس قدر مضبوط بنارکھی ہے کہ اب سچ ہمارے حلق سے نکلتا نہیں اور دماغ بھی اسے تسلیم نہیں کرنا چاہتا۔ 80ء اور90ء کی دہائی میں پاکستانی ڈراموں کو دنیا بھرمیں شہرت حاصل تھی،لیکن آج سیاسی ڈراموں نے ان کا ریکارڈ پاش پاش کردیا ہے۔ آج دنیا ہمیں 90ء کی دہائی کے ڈراموں سے نہیں بلکہ آج کے سیاسی ڈراموں سے جانتی ہے اور افسوس کہ اب یہ سیاسی ڈرامے ہماری پہچان بن چکے ہیں۔ ملک کی اسمبلی میں جو زیادہ شور مچائے وہ ہی عہدوں کا حقدار ٹھہرتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت نے ایسے شوریافتہ ارکان اسمبلی کو قومی خزانے کے منہ پر بٹھا ئے رکھااور ان کا جب دل چاہتا وہ اسے بے دریغ استعمال کرتے رہے۔
پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لے کر میدان میں اتری،خان صاحب کی 28سالہ جدوجہد کو عوام نے عملی جامہ پہنایا (کوئی کہتا ہے اسے وردی والوں نے عملی جامہ پہنایا ہے،مگر ہمیں اس سے کیا لینا دینا) اورعمران خان کو وزیراعظم کے منصب پر بٹھادیا۔ لیکن اگر غور کیاجائے تو عمران خان کے وزیراعظم بننے میں عوام کا کوئی کردار ہے ہی نہیں،عمران خان اسی پرانے کرپٹ نظام کے تحت وزیراعظم بنے ہیں جسے وہ لعنتیں دیاکرتے تھے۔ تبدیلی کی باتیں صرف کنٹینر تک محدود تھیں،لیکن جیسے ہی وزیراعظم کے منصب پر بیٹھ کر اسٹیئرنگ سنبھالا تو چند دنوں میں ہی پورے ملک میں عوام کی چیخیں نکال کر تبدیلی کا افتتاح کردیا۔ جس نظام کو گالیا ں دے دے کر نہیں تھکتے تھے آج اسی نظام کو بچانے کے لیے ایسے ایسے لوگوں سے ہاتھ ملایا جس کا وہ کنٹینر پر تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ خان صاحب کی حکومت آنے سے قبل خزانہ خالی تھا، خان صاحب کی حکومت آنے کے بعد بھی خزانہ خالی ہے اورخان صاحب کی حکومت جانے کے بعد بھی خزانہ خالی ہی رہے گا،یہ پشت درپشت سیاسی سلسلہ ہے جسے کوئی بھی ختم نہیں سکتا۔ اس نظام کو فارغ کرنے کی بات کرنے والے صرف بات کرتے ہیں درحقیقت اس کرپٹ نظام کے بغیر وزیراعظم جیسے اہم منصب تک پہنچاتو دور کی بات سیاہ ست بھی ناممکن ہے۔
حکومت کی ایک سالہ کارکردگی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے،جیسے ہم نے آج ہی پاکستان بنایا ہے جہاں ہر چیز باہر کی دنیا سے منگوائی جارہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے آنے سے قبل دس کلو آٹے کا تھیلا 300روپے میں عام دکانوں پر دستیاب تھا،خود کو غریبوں کی ہمدرد جماعت اورتبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت تحریک انصاف نے ایک سال میں ہی اپنی نااہلی کا پول اس طرح کھولا کہ بڑے سے بڑا رفوگر بھی اسے درست نہیں کرسکتا۔وزیراعظم کو معلوم ہی نہیں کہ آج دس کلوآٹے کے تھیلے پر 180روپے بڑھ چکے ہیں۔ ایک لیٹر پٹرول80روپے میں دستیاب تھا،آج ایک سو اٹھارہ روپے تک پہنچنانے اور پھر ساڑھے تین روپے کمی کے بعد پیٹرول فی لیٹر113روپے پر موجود ہے۔ گھی،تیل،دالیں،سبزی،جو غریب کی خوراک ہیں پر بنا سوچے سمجھے یہ کہہ کر ٹیکس عائد کردیاگیا کہ ملک کا قرض اتارنا ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیے سخت اقدامات کرنے پڑرہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ ایسا وعدہ بھی کردیا جو رہتی دنیا تک وفا نہیں ہوسکتا۔ہم وعدہ کرتے ہیں اس کا بوجھ غریب عوام پر نہیں آئے گا۔ یہ وہ وعدہ ہے جو پچھلے 75سالوں سے سن سن کرکان پک چکے ہیں لیکن ہر آنے والی حکومت کو علم ہی نہیں کہ اس کا سیدھا اثر ایک غریب پر پڑتا ہے۔ جس جس چیز پر ٹیکس عائد کیاگیا اشرفیہ نے اپنی جیب سے ٹیکس دینے کے بجائے ان اشیاء کی قیمتیں ڈبل کردیں،مثال کے طورپر دس کلو آٹے کے تھیلے پر دس روپے ٹیکس لگایاگیا،لیکن ریٹلرز نے اس کا یہ فائدہ اٹھا یا کہ فی کلو پر پانچ روپے اضافہ کردیا اوردس کلو پر پچاس روپے بڑھادیے گئے۔ اسی طرح چینی،دال،چاول اور ہر کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ لیکن حکومت بضد ہے کہ اس کا اثر غریب پر نہیں پڑا۔ (دل تو چاہتا ہے یہاں وہ الفاظ لکھوں جو عوام کی زبانی سنتا ہوں۔) مگر مجبوری ہے میں اسمبلی ممبر نہیں،ورنہ شاید مجھے روکنے ٹوکنے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔
پاکستان تحریک انصاف نے بھی چن چن کر امیر طبقہ اپنی پارٹی میں جمع کیا۔ جہانگیر ترین کے بعد واڈوا صاحب کو ہی دیکھ لیں۔ واڈوا صاحب نے گزشتہ دنوں اپنے حلقے بلدیہ ٹاؤن کا دور ہ کیا۔ اس گھن چکر کو دورہ تو نہیں کہاجاسکتا مگر کیا کریں جمہوری زبان کا اطلاق صرف ہم پر ہی ہوتا ہے،ورنہ تو سب مادرپدرآزاد ہیں۔ فیصل واڈوا نے اپنے پارٹی دوست ایم پی اے ملک شہزاد سے ملاقات کی اوراس کے بعد ان کے آفس گئے اورصحافیوں سے بات چیت کی،پھر وہاں سے اٹھیں سید ناصر حسین شاہ صوبائی وزیربلدیات کے آفس پہنچ گئے۔ پریس کانفرنس کی اور اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ عوام کو دیاگیا لالی پاپ یہ تھا کہ بلدیہ ٹاؤن اورکراچی کو سوئٹزلینڈ نہیں بناسکتا،مگر مسائل حل کرنے کے لیے اسلام آباد سے لوگ لایا ہوں جویہاں کے مسائل دیکھ کر اس کا مداوا کریں گے۔ اب واڈو ا صاحب کو کون سمجھائے کہ جب آپ منہ سے کہہ رہے ہیں کہ ایک رومال خریدنے کیلیے بھی قانون موجود ہے تو پھر اسلام آباد کے لوگ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں کام کریں گے تو کیاآپ کو قانون اجازت دے دیگا؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کراچی میں کام کے لوگ موجود نہیں؟ اگر ایسا ہے تو کھل کر بات کریں تاکہ عوام کو معلوم ہوسکے کہ کراچی میں کوئی ایسا شخص نہیں جو بلدیہ ٹاؤن کے مسائل حل کرسکے۔ اس لیے اسلام آباد سے لوگ امپورٹ کرائے گئے ہیں۔ خرم شیر زمان صاحب دو مرتبہ صوبائی ایوان کے مہمان بن چکے ہیں لیکن اگر ان کے حلقے کی طرف دیکھیں بندہ اپنا سر پکڑ لے۔ بہر حال خان صاحب اور ان کی ٹیم نے عوام کو ایسے گھن چکر میں ڈال رکھا ہے کہ جس سے وہ پانچ سال تک آزاد نہیں ہوسکتے۔ نہ ہی اس قابل چھوڑا کہ پانچ سے پہلے کوئی انہیں بھگا سکے،اور نہ ہی اس ملک میں کوئی ایسا قانون بنایاگیا ہے کہ عوام انہیں بھگا سکے۔ جس عوامی مینڈیٹ کی یہ بات کرتے ہیں اگر آج مڈٹرم انتخابات کی کال دی جائے تو یقین سے کہہ سکتا ہوں پاکستان تحریک انصاف کا وجود اسمبلی سے اس طرح غائب ہوجائے گا جیسے وہ کبھی دنیا میں وجود ہی نہ رکھتی ہو۔
مدینے کی ریاست کی بات کرنے والے وزیراعظم کوہر بات ٹی وی کے ذریعے معلوم ہوتی ہے۔ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں،اس بات کا علم بھی انہیں ٹی وی کے ذریعے ہی ہوتا ہے،اربوں روپے معاف کیے جارہے ہیں،ٹی وی سے معلوم ہوتا ہے،جب کوئی ٹیسٹنگ فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو پھر اس طرح کا بیان ہی داغا جاتا ہے۔ ملک میں ہر طرف غریب رو رہا ہے مگر یہ نہ ٹی وی والوں کو دکھانے کی اجازت ہے اور نہ ہی مدینہ کی ریاست کی بات کرنے والے کو یہ سب پسند ہے۔ لہذا چھوڑیے،جانے دیجیے۔
ریلیف کے نام پر ٹیکسز کا تحفہ دینے والی حکومت سے عوام کو تو اب کوئی امیدیں وابستہ نہیں،البتہ چاہنے والوں کی خیر ہو،وہ لوگ ہر فورم پر اس کا بھرپور دفاع کرنے کی تنخواہ وصول کررہے ہیں اور کرتے رہے گے وہ بھی عوام کے پیسوں سے۔ جیسے میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ رب العزت نے وطن عزیز کو بے پناہ قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے دماغ اتنے وسیع نہ ہوسکے کہ ہم کوئی بہتر فیصلہ کرسکیں۔ ہم 75سالوں سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی طرح جیتے آرہے ہیں اور اب اس طرح جینے کی عادت بھی ہوچکی ہے۔
فی امان اللہ

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں