قلب اور احساس کے رشتے

قرآبت داری کے رشتے کئی طرح کے ہوتے ہیں۔

 خون کے رشتے ۔ ذات برادری کے رشتے۔ پڑوسیوں سے تعلق کے رشتے۔ دوستی کے رشتے۔ مروت کے رشتے۔ قلب اور احساس کے رشتے۔  تمام رشتے اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ہماری کوشش بھی ہوتی ہے رشتوں کا مان اور احترام  قائم رہے۔  کسی بھی رشتے کو قائم رکھنے میں تین چیزیں ضروری ہیں ایک محبت اور خلوص کا ہونا۔ دوسرے رشتوں میں کسی بھی قسم کے نفع و نقصان کے لالچ  یا غرض سے پاک ہونا۔ تیسرے خیر خواہی عزت و احترام۔ یہ تینوں چیزیں نہ صرف رشتوں کو مضبوط اور مستحکم رکھتی ہیں بلکہ گھروں خاندانوں اور معاشرے کو بگاڑ سے بچا کر امن و سکون قائم رکھتی ہیں۔

 اب ذرا آتے ہیں قلب اور احساس  کے رشتوں کی طرف جسےانسانیت  بھی کہا جاتا ہے لیکن  یہ کون سے رشتے ہیں۔

ایک مسلمان کا مسلمان سے محبت یگانگت اور  بھائی چارے  کا رشتہ مسلم اخوت۔  ایک انسان کا دوسرے انسان مذہب ذات برادری اور وطن سے بالاتر ہوکر مشکل اور تکلیف میں دیکھ کر ظلم سہتا دیکھ کر دلی۔ اسکے لیے تکلیف اور احساس کا جاگنا انسانیت کا رشتہ۔  اس وقت دنیا بھر میں  اسی احساس اور قلب کے رشتے کی ضرورت  محسوس  ہورہی۔

مسلم اخوت کا رشتہ  اور انسانیت کا رشتہ۔ فلسطین میں کئی ماہ سے جاری اسرائیلی فوج کے مظالم مساجد گھر  دکانیں مال املاک  سب برباد ۔ خاندان کے خاندان اجڑ گئے لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔  بھوک پیاس سے نڈھال  کھلے آسمان کے نیچے ٹوٹے پھوٹے ناکافی خیموں میں زندگی گھسیٹتے بچے بوڑھے جوان۔ کیا عورت کیا مرد یہ سب کچھ سہہ رہے ہیں انہیں تنہا کردیا گیا ہے ان کے لیے بولنے والوں نے زبانوں کو قفل لگا رکھے ہیں۔

مٹھی بھرغیور  مسلمانوں اور کچھ انسانوں کی جانب سے انکے حق میں اٹھنے والی آوازیں  اللہ تعالیٰ  کے بعد انکی امید ہیں۔ وہ منتظر ہیں مدد کے اصحاب الفیل کی تباہی کرنے والے ابا بیلوں کے  آنے کے ۔ صلاح الدین ایوبی کے جانشینوں کے ساتھ کے۔  ہمارا دل تڑپتا ہے فلسطین کے بے بس مسلمانوں کے لیے روزانہ موصول ہونے والی نئی  ویڈیوز  پر  مظالم دیکھ دیکھ کر شاید ہم بے حس ہوتے جارہے ہیں عادی ہورہے ہیں احساس اور قلب کے رشتے کی گرمی مفقود ہوتی جارہی ہے عجب سی سرد مہری ہے۔

بقول علامہ  اقبال

 قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں

 کچھ پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں