کاش ہماری بھی عید ہوتی !۔

ثمن محلہ چاند نگر کی رہاٸشی تھی جس کی عمر دس برس تھی۔ ثمن کے والدین ایک حادثے میں وفات پا گٸے تھے اور تب سے ثمن اپنے جھوٹے بھاٸی عدیل کے ساتھ کسم پرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہی ہے ۔ ثمن کے والد کے انتقال کے بعد محلے کے چند تاجروں نے ان کے گھر کو فروخت کر دیا کہ اس کے والد نے ان سے کثیر تعداد میں قرض لیا تھا اور اس کی اداٸیگی اسی طرح ممکن ہو سکتی ہے ۔ ثمن کےوالد اس وقت وفات پا گٸے جب عدیل کی عمر چھ برس اور ثمن آٹھ برس کی تھی ۔ دو سال گزر گٸے مگر حالات بہتر نہ ہوٸے ۔ ثمن اپنے محلے کے مختلف گھروں میں برتن مانجھتی تھی، جس کے عوض کچھ رقم مل جاتی جس سے وہ اپنی اور عدیل کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتی تھی ۔ ثمن نے عدیل کو مدرسے میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے کا کہا جس پر وہ خوشی سے راضی ہوا ۔ ابتدا میں سب اچھا تھا مگر عدیل کے ظاہری حلیے کو دیکھ کر گاٶں کے بچے اس کا مذاق اڑاتے ۔ مولوی صاحب مگر اللہ والے تھے وہ عدیل اور ثمن کی نجی زندگی سے باخوبی واقف تھے اس لیے وہ عدیل کو حوصلہ بھی دیتے اور بغیر فیس کے پڑھاتے تھے ۔

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ آپہنچا ۔ چار سو خوشیاں ہی خوشیاں تھیں اور بچے بھی یہ سوچ کر خوش تھے کہ عید صرف تیس دن کی دوری پر ہے۔ رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی عدیل اور ثمن کی آنکھیں آنسوٶں سے تر تھیں ۔ ان کے والدین ان کے لیے سب کچھ تھے اور ان کی یاد ہمیشہ ان کو ستاتی تھی ۔ عدیل نے اس بار عہد کیا وہ مکمل روزے بھی رکھے گا اور قرآن پاک کی تلاوت کا بھی خاص اہتمام کرے گا ۔ ثمن نے ان شاء اللہ کہا اور اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے ۔ ثمن جہاں کام کرتی تھی وہیں سے ان کے گھر سے بچا ہوا کھانا ساتھ لے آتی مگر یہ اتنا زیادہ نہ تھا کہ دو وقت کھایا جا سکے اس لیے رات کو یہ والدین کو یاد کرتے ہوٸے اور اللہ پاک کی عبادت میں شب گزار دیتے اور جو کھانا تھا وہ بغیر گرم کیے سحری کے وقت کھاتے اور اللہ پاک کا شکر ادا کرتے تھے ۔ افطاری میں دو کھجوریں اور پانی کا استعمال کرتے تھے ۔

وقت گزرتا گیا اور رمضان المبارک کا آخری دن تھا ۔ محلہ چاند نگر میں سب بچے خوش تھے عدیل انہیں دیکھ کر خوش ہوتا اور دل ہی دل میں اس بات کا پچھتاوا بھی تھا کہ کاش ! اس کے والدین آج زندہ ہوتے ۔ وہ بھی ایسے ہی خوشیاں مناتا ۔ اچانک سے تین سے چار بچوں نے عدیل کو گھیر لیا اور طنزیہ اندازمیں اپنی اپنی عید کی شاپنگ کا تذکرہ کرنے لگے اور عدیل سے پوچھنے لگے اس بار آپ نے کیا لیا ہے ؟ آپ نے عید کی کیا تیاریاں کی ہیں یا پھر ۔۔۔۔۔؟ عدیل وہاں سے بھاگ نکلا اور روتے روتے ہوٸے اپنی رہاٸش گاہ پہنچا ۔ ثمن نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو گھبراٸی اور اس کو سہارا دیتے ہوٸے بولی میرے شہزادے کو کیا ہوا ؟ عدیل سرد لہجے میں بولا ” کاش ہماری بھی عید ہوتی ۔۔۔۔۔!“ ثمن کی آنکھوں میں بھی آنسو ستارے کی مانند چمک رہے تھے اور عدیل کو دلاسہ دے رہی تھی۔