میں فلسطین ہوں

اس نئی دنیا نے نئی ایجادات اور مادیت پرستی میں بہت ترقی کر لی ہے جہاں انسانیت زوال پذیر ہو چکی ہے۔

یہ کیسی ترقی ہے جس میں انسان کی کوئی اہمیت کوئی قدر نہیں بلکہ انسان کے بنائے ہوئے ساز و سامان کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ انسانیت اس کے نیچے دب چکی ہے۔

انسان کی ایجادات نے ترقی کر لی اور انسان نے انسانیت کو بہت پیچھے چھوڑ دیاہے۔

گو دوں میں بچوں کو اٹھائے ایک شاپر میں چند ضروری چیزیں پکڑے ہوئے ایک کندھے پر ہینڈ بیگ لٹکاے ہوئے وہ باحجاب مائیں اور بہنیں کسی محفوظ پناہ گاہوں کی طرف دوڑی چلی جا رہی ہیں۔ ان کے باپ اپنے بچوں کی میتوں کو ہاتھوں میں لیے عالمِ اسلام کو جھنجھوڑتے ہوئے، مدد کے لیے پکارتے، روتے ہوئے اس امداد کے منتظر ہیں جس کے باوجود مسلم حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

فلسطین کے مظلوم، لٹے پٹے، ٹوٹے پھوٹے زخمی حالت میں لوگوں کو دیکھتے ہوئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس دنیا میں ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک بھی موجود ہیں یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ یہاں جنگل کا قانون ہے کیونکہ جنگل میں بھی کوئی نہ کوئی قانون تو ہوتا ہی ہے۔ جانوروں کی آپس کی لڑائیوں کا بھی قانون ہوتا ہے۔ ان کی خوراک حاصل کرنے کا بھی قانون ہوتا ہے۔ ان کے علاقوں پر قابض ہونے کا قانون بھی ہوتا ہے۔ ان کے علاقوں کا تعین بھی ہوتا ہے مگر۔۔۔۔ فلسطین میں کوئی قانون موجود نہیں۔ اسرائیلی بربریت نے سب کچھ تہس نہس کر دیا ہے۔ وہ دہشت گردی کے اولین درجے پر موجود ہیں۔ ان کی دہشت گردی نے مسلم ممالک کے حکمرانوں کی کی قلعی کھول دی ہے۔ تمام مسلم حکومتوں اور عسکری طاقتوں کے بدنما چہرے واضح دکھائی دے رہے ہیں۔

دو سال پہلے کرونا کے وبائی مرض کو عذاب کہا گیا کہ اللہ ہم سے ناراض ہے۔ اس وبا سے چھٹکارا پانے کے لیے اللہ کو راضی کر لو دعائیں مانگو استغفار کرو۔ کیا صاحب اقتدار پھر کسی عذاب کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں۔

اقتدار والوں کا فلسطینیوں کو اس حالت میں دیکھ کر صرف نظر کر لینا اور رمضان المبارک کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹ لینے کے لیے۔۔۔ بڑی بڑی افطار پارٹیاں سجانا۔۔۔۔

کیونکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اگر ایک مسلمان کو اس دنیا میں کہیں بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دنیا کے تمام مسلمان اس کا درد محسوس کر سکتے ہیں ۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ درد صرف مسلم ممالک کی عوام ہی محسوس کیوں کر سکتی ہے وہاں کے حکمران کیوں محسوس نہیں کر سکتے ؟۔