اپنائیت کا احساس

ڈبے میں ڈبہ ڈبہ میں کیک

میری سہیلی لاکھوں میں ایک

یہ اور اس طرح کے کئ اشعار ایک وقت تھا جب ہم اپنے بچپن میں عید سے پہلے پوسٹ کارڈ پر لکھا کرتے جو کہ تھوڑا موٹے کاغذ کا ہوا کرتا تھا اور اس پر پھول تو پرندے وغیرہ بھی بنے ہوا کرتے تھے_ان پوسٹ کارڈز میں اداکاراؤں کی تصاویر والے بھی بہت مشہور تھے_تو دو پرندے اور ان کے درمیان دل بنا ہوا یہ والا کارڈ بھی بہت پسند کیا جاتا تھا_یہ پوسٹ کارڈ ایک روپے کا ہوا کرتا تھا جس کی قیمت چند سالوں میں دو روپے اور پھر بڑھ کر پانچ روپے بھی ہوگئ تھی_بچے آپس میں دینےکے لئے کارٹون والے پوسٹ کارڈز بھی ایک دوسرے کو دیا کرتے تھے_

پھر جس سے زیادہ محبت ہوتی اسے عید کارڈ جو کتابچہ کی شکل میں ہوتا تھا یعنی سامنے صفحہ پر پھولوں کے گلدستے تو اسی طرح کی چیزیں بنی ہوتی تھیں اور اندر کوئ عید کے حوالے سے انگریزی یا اردو میں پیغام لکھا ہوتا تھا_یہ والے کارڈ کی قیمت پندرہ سے بیس روپے ہوا کرتی تھی اور یہ چند ایک کو ہی دیاجاتا تھا۔

پھر کئ پرتوں والا کارڈ بھی کافی مشہور ہوا تھا جو کہ کھلتا ہی چلا جاتا تھا، اس پر بھی دل تو گلاب کی پتیاں وغیرہ بنی ہوتی تھیں اور یہ تو بلکل ہی خاص فرد کو دینے کے لیے خریدا جاتا تھا۔

جس دوست سے تھوڑا زیادہ لگاؤ یا محبت ہوتی تو بچیاں اس کارڈ کے ساتھ بندے٫ کلپ یا اس طرح کی کوئی چیز بھی دیا کرتی تھیں۔

ان کارڈز کے عید سے پہلے گلی محلوں میں باقاعدہ اسٹالز لگا کرتے تھے، جوان بچے اپنے ہی علاقوں میں یہ لگا لیا کرتے، ان کے اندر بھی ایک ذمہ داری کا احساس ہوتا کہ اپنے والد کا ہاتھ بٹانا ہے تو ساتھ ہی انھیں اچھی مصروفیت بھی مل جاتی۔

یہ پوسٹ کارڈز یا عید کارڈز کا دینا ایک اپنائیت کا احساس پیدا کرتا تو ساتھ ہی اپنی سہیلی یا رشتے دار سے ملاقات کا بہانہ بھی ہو جاتا، بہت محبت سے ان کارڈز پر لکھا جاتا، نئے نئے اشعار ایک دوسرے سے پوچھے جاتے۔

یہ عید کارڈ جس لفافے کے اندر ڈالا جاتا اس پر یہ شعر بھی لکھا جاتا جو بہت مشہور تھا۔

چھوٹی سی انگلی منہ میں دبا کر

اس لفافے کو کھولنا ذرا مسکرا کر

اور یہ عید کارڈ، پوسٹ کارڈز کا خریدنا اور ایک دوسرے کو دینا اپنے اندر بھی خوشی کا احساس پیدا کرتا، دل باغ باغ ہوجاتا تھا جب کسی کی طرف سے یہ کارڈ ملا کرتا، اور اس وقت خوش ہونا آتا تھا اور یہ کام بہت آسان تھا ، لہذا اب بھی خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔

حصہ