مزاحمت میں زندگی

• الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایمانا ٫وقالو حسبنااللہ و نعم الوکیل – فانقلبوا بنعمتہ من اللہ وفضل یمسسھم سوء٫وتبعوا رضوان اللہ واللہ ذوفضل عظیم (آل عمران 173-174 )

ترجمہ : اور جن سے لوگوں نے کہا کہ ٫”تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں ٫ان سے ڈرو “٫تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کار ساز ہے – آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی حاصل ہو گیا اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے

سبحان اللہ۔ اللہ عزوجل کی شان کریمی ہے جس نے قرآن حکم کو ایمان والوں کے لیے رہنما بنایا اور مومن کے ایمان کے لیے معیار مقرر فرمایا جب جب مسلمانوں نے اپنے ایمان کو اللہ تعالیٰ کے معیار کے مطابق ڈھالا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سنت سے جوڑا للہ تعالیٰ نے آخرت کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی عزتوں سے نوازا اس کی عملی مثال مجاہدین فلسطین ہیں جو آج کل جن حالات سے گزر رہے ہیں اور جس طرح ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں بستیوں کی بستیاں نیست و نابود ہو گئیں لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے شہداء کی تعداد 15 ہزار ہو گئی زخمیوں کی تعداد 30ہزار سے اوپر ہو گئ جن میں 6ہزار بچے اور 4ہزار خواتین ہو گئیں

مگر ہزاروں سلام ہو ان کے جذبہ ایمانی کو ۔سلام ہو اس باپ کو جو اپنے چار جوان بیٹوں کی شہادت پر مٹھائیاں بانٹ رہا ہے سلام ان عورتوں کے جذبہ ایمانی کو جو اپنے جوان شوہروں اور جوان بیٹوں کو خوشی خوشی جہاد کے لیے پیش کر رہی ہیں سلام ہو اس بہن اور بیٹی پہ جو اپنے گھر کے ملبے کے اوپر اپنے پیاروں کے لاشے رکھ کہ بیٹھی ہے اور زبان سے الحمدللہ اور حسبنااللہ کے الفاظ جاری ہیں سلام ہو اس چند سال کے معصوم بچے پہ جو اسرائیل کے پرچم کو اس کے فوجیوں کے سامنے جوتے مار رہا ہے یہ صرف چند مثالیں ہیں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں زبان بیان کرنے سے قاصر ہے کہ کس طرح اہل غزہ نے جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر حکمت عملی اپنائی۔ زندگی کی بنیادی نعمتوں سے محروم دنیا کی سب سے بڑی فوج اور انٹیلی جنس کی ناک کے بلکل نیچے زیر زمین سرنگوں کا جال بچھا کرمزاحمت اور جدوجہد آزادی کی حیران کن نئی تاریخ رقم کر دی اپنی شہادتوں سے مسلم امہ کے بے جان جسم میں زندگی کی لہر رواں کی ۔ اور عزت وشرف کا راستہ جہاد فی سبیل اللہ کا وہ باب جو امت مسلمہ بھول گئی تھی یاد کروا دیا

مسلمان ہم بھی ہیں لمبی لمبی نمازیں ہم بھی پڑھتے ہیں حج پہ حج کیے جا رہے ہیں صدقے بھی کرتے ہیں وظیفے بھی کرتے ہیں چالیس روزے اور سہ روزے بھی لگاتے ہیں بڑے بڑے چوغے اور چولے بھی پہنتے ھیں مگر کیا ہم نے اپنے ایمان کی ویسے حفاظت کی جیسے اہل فلسطین نے کی – کون ہیں یہ اہل فلسطین ؟ کہاں سے ملا ان کو یہ جذبہ ایمانی یہ توکل اور آخرت کا یقین۔

کیا ہم نے قرآن کی تعلیمات کو اپنی نسلوں میں ویسے اتارا جیسا انہوں نے اپنی نسلوں میں اتارا ۔ یقینا نہیں – ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہمارے ایمان اتنے کمزور ہیں کہ فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہمارے پاس تو ان کے لیے دعا کرنے کا وقت بھی نہیں ڈیڑھ ارب مسلمان فلسطینیوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے فرشتے مانگتے، ابابیلیں اتارنے کی دعائیں کرتے ہیں بے شک دعا مومن کا ہتھیار ہےلیکن اسباب اور اقدامات بھی کرنے کے بعد ۔اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 313 کو بدر میں میدان عمل میں اتارا پھر دعا کی اور اللہ نے مدد بھی کی

57 اسلامی ممالک کی افواج اور چوبیس ملکوں کی اتحادی فوج نے خدا جانے کب اور کہاں لڑنا ہے اور تو اور ہمارا پاکستان تو ایٹمی قوت بھی ہے یہ غوری یہ شاہین یہ ٹیپو یہ نصر یہ فلاں اور فلاں کب کام آئیں گے جب یہ ہمارے قبلہ اول کو بچا نے کے لیے کام نہ آئے

اللہ تعالیٰ سورہ النساء فرماتے ہیں۔

و ما لکم لا تقاتلون فی سبیل للہ والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان اللذین یقولون ربنا ا اخرجنا من ھذہ القریتہ الظالم اھلھا – واجعل لنامن لد نک ولیا واجعل لنا من لدنک نصیرا-

ترجمہ :بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں ٫عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہ زور پا کر دبا لیے گئے ہیں فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارےلیے اپنی طرف سے حمایتی مقرر فرما اور مددگار بھیج ۔

آیت نمبر 75

حدیث : نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ مومن کی آپس کی ایک دوسرے سے محبت ,۔ مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے جب اسکا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف کو محسوس کرتا ہے نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے (صحیح مسلم ٫متفق علیہ)

کیا ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں کوئی سلطان ایوبی نہیں کوئی محمد بن قاسم نہیں جو ظالموں کے ہاتھ روکے ہم کیسے مسلم ہیں جو مرضی کر لیں ہمارے ایمان کو کوئی خطرہ نہیں جتنی مرضی عیاشیاں کر لیں من مانیاں کر لیں حتی کہ شرک بھی کر لیں ہمارا ایمان پھر بھی سلامت رہتا ہے جنت کے ٹکٹ تو ہمارے پاس ہے کافر تو صرف مکہ کے مشرکین تھے یا اسرائیل کے یہودی ہمارے ملک میں بڑی بڑی درسگاہیں ہیں جو اپنے اپنے فرقوں کے لیے نئی نسل کو پکا کرنے میں لگی ہوئی ہیں دین اسلام کی کسی کو فکر نہیں بس فرقے کی آبیاری اچھی طرح ہوتی رہے ہمارے ملک سمیت اسلامی ممالک کے حکام بالا کفار اور یہود کے ہاتھوں بک چکے مگر غزہ مارچ میں لگا کے عوام کے ضمیر ابھی زندہ ہیں ابھی بھی وقت ہے اپنے حصے کے کام کرنے کا سب سے پہلے اپنے ایمان کو تازہ کرنے کے رجوع الی للہ کا راستہ اختیار کریں تمام یہودی کمپنیوں کا بائیکاٹ تاحیات جاری رکھیں سوشل میڈیا پہ فلسطینیوں کی آواز بنیں اسکے لیے وقت کو لازم کریں زیادہ سے زیادہ فنڈ اکٹھا کریں اور پھر اسرائیل کی بربادی کے لیے دعا کریں بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کے لیے دعا کریں اہل فلسطین نے تو کامیابی کا راستہ چن لیا انبیاء کی سرزمین پہ انبیاء کے ساتھیوں کی طرح چاہے تھوڑے ہیں غازی یا شہید ہرحال میں کامیاب ٹھہرے ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنا طرز عمل بدلیں اپنے ایمان کو حرارت دینے والے عمل کریں اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں خیرالامت بنائیں اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو یہ جنگ فلسطین تک محدود نہیں رہے گی اگلی باری ہماری ہے نہ ہی ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہے اور نہ ہی آخرت کا یقین نہ دنیا ہاتھ آئے گی نہ آخرت میں سرخروئی ہم حالت جنگ میں ہیں۔ جہاد اکبر ہو یا جہاد اصغر مزاحمت میں ہی زندگی ہے۔